بڑے آدمی کی چھوٹی بات!!
جمعہ کو چشم فلک نے ملتان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع دیکھا۔ قلعہ کہنہ قاسم باغ سٹیڈیم میں تحریک انصاف کا جلسہ عام تھا۔چیئرمین عمران خان نے خطاب کرتا تھا۔ ان کے جلسوں کی سیریز کا یہ آخری جلسہ تھا جو عوامی طاقت کا بھرپور مظاہرہ تھا۔سٹیڈیم بھر گیا تب بھی ہزاروں لوگ سڑکوں، چوراہوں پر جلسہ سننے کے منتظر تھے۔ گھنٹہ گھر چوک اور سٹیڈیم کو جانے والے تمام راستے اور بازار لوگوں سے بھرے ہوئے تھے۔ بیشتر کے ہاتھوں میں پارٹی پرچم، گلے میں پرچم کے رنگ کے سکارف،سروں پر ٹوپیاں اور ہونٹوں پر نعرے تھے۔ خواتین کی سج دھج پارٹی سے گہرے تعلق کی آئینہ دار تھی۔ یہ جلسے کا جلسہ تھا اور میلے کا میلہ…… بڑے، بچے، فیملیاں پکنک کے انداز میں سٹیڈیم کے اندر اور باہر انجوائے کر رہی تھیں۔ اس روز یوں لگ رہا تھا کہ شہر کے سارے رستے سٹیڈیم کی طرف جاتے ہیں اور جنوبی پنجاب کے سبھی شہروں، قصبوں سے جلوس جھنڈے لہراتے چلے آ رہے تھے۔ زبردست لائٹنگ، بینروں، پینا فلیکس، پرچموں کی بہار بتا رہی تھی کہ پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ہے۔ لگتا ہے جہانگیر ترین اور علیم خان کے جانے کے بعد خان کو نئی اے ٹی ایم مشینیں مل گئی ہیں۔ نئے انویسٹر آ گئے ہیں۔ پھر جب پتہ چلا کہ کپتان کس کے طیارے پر ملتان آئے اور کس کے ہاں آرام کیا تو گتھی سلجھ گئی۔ انویسٹر تو انویسٹر ہوتا ہے۔ ”ممدوح“ تو یہ دیکھتا ہے کہ انویسٹر کتنا مال لگا رہا ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ انویسٹر کا سیاسی، سماجی یا مذہبی پس منظر کیا ہے؟ تازہ محبان پی ٹی آئی کی شہرت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ایمپائر بچانے اور آگے بڑھانے کی غرض سے کبھی مقتدرہ سے نہیں بگاڑتے۔ وہ تو رہائش بھی اسی علاقے میں رکھتے ہیں جو ”سنگینوں کے سائے میں“ محفوظ ومامون ہوتا ہے اور”رابطے“ بھی قریب ہوتے ہیں۔ اس سے یہ تاثر بھی زائل ہو گیا کہ خان کی ”اُن“ سے بگڑی ہوئی ہے اور یہ جو ہلکی ہلکی گولہ باری خان کی طرف سے ہوتی رہتی ہے ناں ’نیوٹرل ہو تو نیوٹرل ہی رہنا“ یہ سیاسی شعبدہ ہے۔ کیموفلاج ہے۔
ملتان کے عوام اس لحاظ سے بدقسمت رہے کہ اتنی محنت کرکے شدید گرمی میں اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوئے مگر تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کپتان کے منہ سے نہ سُن سکے۔ اپنے وعدے کے مطابق خان نے خانوں میں بیٹھ کر پشاور سے اعلان کر دیا ہے کہ 25 مئی کو اسلام آباد کی سری نگر ہائی وے پر 3بجے دن جمع ہونا ہے۔خان جتنی برق رفتاری سے اور جتنے جوش سے بگٹٹ بھاگ رہا ہے اس میں ہوش کھونے اور ٹھوکر لگنے کا بھی اندیشہ رہتا ہے۔ اب امتحان دوطرفہ ہے۔ خان کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے اعلان کے مطابق 25لاکھ لوگ جمع کر دکھائے اور حکومت کا امتحان تو دو دھاری ہے۔ روکے تو ملک بھر میں سخت ردعمل کا خطرہ۔ نہ روکے تو دارالحکومت جام ہونے کا اندیشہ۔ خان سے یہ توقع تو عبث ہے کہ وہ اسی سڑک تک محدود رہے گا۔ مجمع اکٹھا ہو گیا تو اسے کسی طرف بھی ”موو“ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے کچھ بھی کرایا جا سکتا ہے۔ یہ ہجوم 2014ء کے دھرنے کے شرکاء سے مختلف ہوگا۔ یہ ہجوم خان کی جذباتی اور پرجوش مہم کے نتیجے میں پوری طرح ”چارج“ ہو کر آ رہا ہے۔ خان نے پورا مہینہ ملک بھر میں بڑے بڑے جلسے منعقد کرکے اپنی عوامی مقبولیت نہ صرف ثابت کر دی ہے بلکہ اپنی حمایت میں وہ لہر بھی پیدا کر دی ہے جو انتخابات میں کامیابی کی کنجی سمجھی جاتی ہے۔ بھٹو کی لہر اور نوازشریف کی مقبولیت کے بعد یہ تازہ لہر ان سے بھی زیادہ تندوتیز لگ رہی ہے۔ اگر یہ نظام چلا اور انتخابات ہوئے تو اس بار انتخابی عمل کا منظر ہی کچھ اور ہوگا۔ تاثر یہ ہے کہ اگر خان کو اس کی خواہش اور اندازے کے مطابق دوتہائی اکثریت مل گئی تو وہ نظام سمیت بہت کچھ تہس نہس کر دے گا۔ اور یہ ہوگا”نیا پاکستان“ کے نام پر۔ فیصلہ کن طاقت جس آمریت کو جنم دیتی ہے اس کا بھی خدشہ سوچا جا رہا ہے اس لئے کپتان کے سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ مختلف اداروں اور قوتوں کو اتنا خوفزدہ نہ کر دے کہ وہ کچھ اور ہی سوچنے لگ جائیں۔
شیخ سعدی نے کہا تھا کہ ”مغلوب بلی کتے پر جھپٹ پڑتی ہے“ اور ”اگر انسان مجبور ہو جائے تو وہ تلوار کی دھار پر بھی ہاتھ ڈال دیتا ہے“۔آنچ اتنی ہی تیز رکھیں کہ ہانڈی پکے ضرور مگر جلے نہیں۔ اس کے لئے جس فہم و فراست اور تدبر کی ضرورت ہوگی وہ کہاں ہے؟ اب ملتان کے جلسے کو ہی دیکھ لیں۔ عوامی طاقت کے اس بے مثال مظاہرے کو دیکھ کر سرشار ہونا تو فطری تھا مگر لچرپن تو کسی بھی رہنما (بلکہ قائد) کو زیب نہیں دیتا۔ مریم بی بی پر خود عمران خان گھٹیا جملہ نہ کستے تو بہتر تھا۔ سیانے لوگ اس طرح کی حرکت کسی چیلے چانٹے سے کراکے اس کی سرعام سرزنش کرکے خود سرخرو ہو جاتے ہیں، مگر خان تو نوجوان نظر آنے کی لگن میں اپنے مقام سے فروتر حرکت کرکے بھی خوش ہے تو صد افسوس ہی کیا جا سکتا ہے بڑے آدمی کے منہ سے چھوٹی بات اسی کو کہتے ہیں۔ وہ یقین کر لیں کہ اب وہ مقبولیت کے اعلیٰ مقام پر کھڑے ہونے کے ناتے بڑے آدمی ہیں۔ انہیں اس کی لاج رکھنی چاہیے ان کا ہر قول ہر فعل ان کے ماننے والوں کے لئے قابلِ تقلید ہو جاتا ہے۔ وہ اگر قائد ہیں تو انہیں قدم قدم پر عوام کی رہنمائی کرنا ہے۔ تربیت دینی ہے۔ آداب زندگی بھی سکھانے ہیں۔ اپنے عمل سے، محض مجمع سے تالیاں اور سیٹیاں بجوانے کے لئے اپنے منصب سے گری ہوئی حرکت سے جتنا پرہیز کرلیں اتنا ہی اچھا۔ ان کے حامیوں کی یہ دلیل ان کی حرکت معاف نہیں کر سکتی کہ فلاں نے بھی تو فلاں کی شان میں گستاخی کی تھی۔ یہ بھی تو سوچیں کہ فلاں اور فلاں اب کہاں ہیں؟ قدرت نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ دوسروں کی اچھائیوں کو اپنانا چاہیے خامیوں اور برائیوں کو نہیں کہ جب آپ اپناتے ہیں تو یہ خامیاں اور برائیاں آپ کی ہو جاتی ہیں۔ آپ کی شناخت بگاڑ دیتی ہیں۔