کیا فوج نیوٹرل رہ سکے گی؟ 

 کیا فوج نیوٹرل رہ سکے گی؟ 
 کیا فوج نیوٹرل رہ سکے گی؟ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اہم ترین سوال یہ ہے کہ کل کے اسلام آباد مارچ میں کیا فوج نیوٹرل رہ سکے گی؟…… میری نظر میں فوج کے غیر جانبدار رہنے کا انحصار دو باتوں پر ہوگا۔ایک یہ کہ مرد و زن کے اس اژدھام میں کوئی ایسا ناروا سانحہ سامنے نہ آئے جس کے بڑھنے اور بڑھ کر ملک کی سلامتی کے لئے خطرہ بننے کا امکان موجود ہو اور دوسرے یہ کہ اسلام آباد کی انتظامیہ (بیورو کریسی)بھی فوج کی طرح نیو ٹرل رہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ دونوں باتیں ممکن نہیں ہوں گی…… آیئے اس کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
بچوں، خواتین اور نوجوانوں کی Chargedیلغار نہ آج تک کسی ڈسپلن کی پابند رہی ہے اور نہ اُس روز (25مئی) رہ سکے گی۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ آج تک کسی بھی ملک کو ایسی گھمبیر صورتِ حال کا سامنا نہیں ہوا جس میں مرد و زن اور پیرو جواں مل کر کسی احتجاجی مارچ میں شامل رہے ہوں۔


”امیدِ واثق“ ہے کہ پولیس کی بھاری نفری اس مجمع کو قابو کرنے کے لئے بلائی جائے گی۔ اگر اس نفری کے پاس آنسو گیس کے گولے بھی ہوئے تو حالات بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔ بچوں اور خواتین کی آہ و بکا دیدنی اور شنیدنی ہو جائے گی۔  اگر فوج کو آرٹیکل 245کے تحت بلایا بھی گیا تو کوئی سولجر (جوان، جے سی او، آفیسر) اس نہتے ہجوم پر گولی نہیں چلائے گا۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے کہ فوج اگر بلائی بھی جائے گی تو وہ کشمیر ہائی وے پر رواں دواں جمِ غفیر کو کیسے کنٹرول کرے گی؟ اس پر گولی چلانا تو بہت دور کی بات ہے، رائفل کا خالی بٹ (Butt) بھی کسی کو مارنے سے گریز کیا جائے گا۔  میرا خیال ہے کہ فوج کو بلا کر موجودہ حکومت اپنی نااہلی کا ایک اور ثبوت فراہم کرے گی……یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور فوج کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا اچھی طرح سے علم ہے، اس لئے میرا خیال نہیں کہ فوج اس مارچ کو روکنے کے لئے کسی بھی قسم کا کوئی اقدام کرنے کی غلطی کرے گی۔


ہاں البتہ فوج یہ کر سکتی ہے کہ وہ حکومتِ وقت کو سخت گیر مشورہ دے کہ عمران خان کے دونوں مطالبات کے سامنے سرِ تسلیم خم کرو۔ پی ٹی آئی کا پہلا مطالبہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کا ہے اور جب وہ تحلیل ہو گئیں (صوبائی اور مرکزی) تو نہ تو محترم شہباز شریف کے ہاتھ کچھ آئے گا اور نہ محترم آصف زرداری کچھ کر سکیں گے۔ سندھ اسمبلی کی چوہدراہٹ (یا اس کا وڈیرہ پن) جب زرداری صاحب کے ہاتھ سے نکلتی محسوس ہوئی تو وہ وزیراعظم سے پہلے ہاتھ کھڑے کر دیں گے۔
پی ٹی آئی کا دوسرا مطالبہ ”جلد الیکشن“ کی تاریخ دینے کا ہے۔ عمران خان ان الیکشنوں کے لئے مہینوں انتظار نہیں کریں گے ان کا مطالبہ ہو گا کہ زیادہ سے زیادہ چار چھ ہفتوں کا وقفہ دیں اور الیکشن کی حتمی تاریخ کا اعلان کر دیں۔
پنجاب کی حکومت بھی مرکزی حکومت کی طرح ڈانواں ڈول اور بے مہار ہے۔ ثناء اللہ، مریم اورنگزیب اور وزیراعظم کے آتشیں بیانات اپنی پارٹی کے مورال کو بچانے کے لئے دیئے جا رہے ہیں۔ لیکن اگر اس اسلام آباد مارچ کو روکنے کی کوشش کی گئی تو آنے والا وقت بہت  زیادہ بھاری ہوگا۔


ہمارا وہ دشمن جو مشرقی سرحد پر بیٹھا ہے وہ بڑی بے تابی اور عرق ریزی سے پاکستان میں ہونے والی ڈویلپ منٹ کا جائزہ لے رہا ہے اور مغربی سرحد کے پار موجود TTP کے وہ دھڑے جو پاکستان دشمن قوتوں کے زیرِ اثر بلکہ نرغے میں ہیں، وہ کوئی ایسا رول بھی ادا کر سکتے ہیں جو 1971ء کی جنگ میں انڈیا نے کیا تھا۔ اس نے بنگالی اور پنجابی کے درمیان نفرت کی اونچی دیوار چن دی تھی اور ساتھ ہی مکتی باہنی بھی تشکیل دے دی گئی تھی۔ کم و بیش انہی خطوط پر ایک لمبے عرصے سے بلوچ علیحدگی پسندوں اور پاک فوج کے افسروں  اور جوانوں کے درمیان بھی وہی اونچی دیوار کھڑی کرنے کی کوششیں  ہو رہی ہیں۔ پانچ کنفیوش سنٹروں سے چینی انسٹرکٹروں کو واپس بلا لیا گیا ہے۔ ہمارے نو آموز وزیر خارجہ نے پرسوں چین کے دورے میں چینی وزیر خارجہ کو وہ حقائق نہیں بتائے جو نیویارک کی ایک کانفرنس میں امریکیوں کو بتائے تھے۔ بہر کیف دیکھتے ہیں کل پاک فوج کی نیوٹرلٹی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!
 

مزید :

رائے -کالم -