ریاست انصاف پر اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک مساوات ہو اور انصاف کا مقصد ہی اس مساوات کو قائم رکھنا ہوتا ہے

ریاست انصاف پر اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک مساوات ہو اور انصاف کا مقصد ہی اس ...
ریاست انصاف پر اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک مساوات ہو اور انصاف کا مقصد ہی اس مساوات کو قائم رکھنا ہوتا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : ملک اشفاق
 قسط :9
 یونانی غوروفکر:
پانچویں صدی قبل مسیح کا زمانہ یونان میں انتہائی ذہنی سرگرمیوں کا دور تھا۔ اسی زمانے میں سیاسی، علمی، مذہبی اور عقلی مسائل پر غوروفکر عروج پر تھا۔ اس لیے سیاسی اور علمی حوالے سے کچھ اصول بھی قائم ہوئے۔ایتھنز کے عظیم قانون ساز سولن نے اپنی نظموں میں ان اصولوں کو مدہم طو پر بیان کیا تھا۔ بعد میں سولن نے ان اصولوں کو دستوری قوانین مرتب کرتے وقت مدّنظر رکھا تھا۔
اگرچہ فیثاغورث اور ای اوینا جیسے فلسفیوں کا اصل موضوع بحث سیاسیات نہیں تھا لیکن انہوں نے بھی بہت سے اصول و ضوابط وضع کیے تھے۔فیثا غورث اس دور کا علم ریاضیات کا عالم تھا۔ اس نے ریاضیات سے ایک خاص فلسفہ حیات اخذ کیا۔ اس نے اپنا ایک حلقہ قائم کیا۔ فیثاغورث کے حلقے کے ممبران اس فلسفے کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے۔ ان کے فلسفے کا مذہبی کے علاوہ سیاسی پہلو بھی تھا۔فیثاغورث کا قول تھا ”ایک عدد اس وقت تک سالم رہتا ہے جب تک اس کے اجزاءبرابر رہیں۔ اس طرح ریاست انصاف پر اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک ریاست کے اجزاءمیں مساوات ہو اور انصاف کا مقصد ہی اس مساوات کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔
فیثاغورث نے انسانوں کو 3 قسموں میں تقسیم کیا۔ عقل پرست، شہرت پرست اور دولت پرست۔ اس نے ان ہی 3طبقوں کو معاشرے اور ریاست کے اجزاءقرار دیا۔فیثاغورث نے ڈیلفی کی غیبی آوا زکو خالص علمی حیثیت سے پیش کیا تھا۔فیثاغورث کی بازگشت افلاطون کی ”جمہوریہ“ اور ارسطو کی ”سیاسیات“ میں سنائی دیتی ہے۔ اس کا اثر صرف علم تک ہی محدود نہ رہا بلکہ عمل میں بھی آیا۔ای اوینا فلسفی ریاضیات سے زیادہ مادے کی حقیقت سے بحث کرتا ہے۔ ہیریک لی ٹی کا عقیدہ تھا کہ انسان کو اپنی زندگی قانون کے مطابق گزارنا چاہیے کیونکہ کائنات بھی ایک مخصوص فطری قانون کی پابندی سے چلتی ہے۔ اس کا قول تھا کہ تمام انسانی قوانین ایک فطری قانون الٰہی پر مبنی ہوتے ہیں، جو کہ بے حد مستحکم ہیں۔فیثاغورث اور اس کے حلقے کے دیگر فلسفی بھی اس بات کے قائل تھے کہ حکومت فلسفیوں کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے۔
یونانی سوفسطائیوں کا سیاسی فلسفہ
جن فلسفیوں نے فیثاغورث اور اس کے حلقے سے اختلاف کیا۔ انہوں نے بھی سیاسی نظریات میں جدّت پیدا کی۔ اس طرح یہ دور ایک ترقی کی علامت تھا۔ارسطو ”سیاسیات“ میں لکھتا ہے کہ ایران پر فتح حاصل کر لینے کے بعد یونان میں ہر موضوع پر بحث ہونے لگی اور معلومات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا، لیکن سوفسطائیوں کا علم سطحی تھا۔ یہ سوفسطائی لوگ دوسرے لوگوں کو اپنے سطحی علم سے برباد کرنے لگ گئے تھے۔سوفسطائی کوئی ہم خےال جماعت کے لوگ نہ تھے بلکہ پیشہ ور معلم تھے۔ یہ لوگ تمام علوم میں کامل ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ دراصل ان لوگوں کا مقصد علم سکھانا نہیں بلکہ اس علم کے مطابق صحیح عمل اور کامیاب طریقہ زندگی کی تعلیم دینا تھا۔ان سوفسطائیوں کی اہمیت ان کے علمی نظریات کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی اہمیت اس وجہ سے تھی کہ وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے تعلیم کو اپنا پیشہ بنایا تھا۔
ارسطو سوفسطائیوں کے متعلق کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ سچے علم کے حامل اور نیک بھی تھے۔یہ سوفسطائی تقریر اور خطابت پر زیادہ زور دیتے تھے۔ ان لوگوں نے کسی خاص نظریے کو وضع نہیں کیا۔ اس لیے ان سوفسطائیوں نے انسان کو ہر بندش سے آزاد کر دیا تھا۔ اس وحشیانہ اصول کی وجہ سے فطری قوانین کو نظرانداز کیا گیا اور معاشرے کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا۔ ان کی تعلیم سے یونانی شہریوں کو کئی صدمے برداشت کرنا پڑے۔ انہوں نے سیاسیات کی اخلاقیات کو بگاڑ کر پیش کیا۔ اس طرح ان کے شاگردوں نے ذہنی تخریب کے عمل کو مزید ہوا دی۔یہ وہی وقت تھا جب سقراط جوان ہو رہا تھا اور اپنے نظریات کو مجتمع کر رہا تھا۔ (جاری ہے ) 
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔

مزید :

ادب وثقافت -