ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔

 ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔
 ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم 

دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے 

تیرے ہاتوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم 

نیم تاریک راہوں میں مارے گئے 
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے 

تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی 

تیری زلفوں کی مستی برستی رہی 

تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی 
جب گھلی تیری راہوں میں شام ستم 

ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم 

لب پہ حرف غزل دل میں قندیل غم 

اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی 

دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم 

ہم جو تاریک راہوں پہ مارے گئے 
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی 

تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی 

کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے 

ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے 
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم 

اور نکلیں گے عشاق کے قافلے 

جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم 

مختصر کر چلے درد کے فاصلے 

کر چلے جن کی خاطر جہانگیر ہم 

جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم 

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے 
 کلام : فیض احمد فیض