میں سندھو کیساتھ ساتھ چلا جا رہا ہوں۔ ٹھنڈی ہوا۔ آسمان بالکل صاف،سپاٹ نیلا۔سورج دیوتا کی کرنیں سندھو کے پانی کو سنہرا رنگ دے رہی ہیں، دائیں بائیں لداخ کی آبادی پھیلی ہے

میں سندھو کیساتھ ساتھ چلا جا رہا ہوں۔ ٹھنڈی ہوا۔ آسمان بالکل صاف،سپاٹ ...
میں سندھو کیساتھ ساتھ چلا جا رہا ہوں۔ ٹھنڈی ہوا۔ آسمان بالکل صاف،سپاٹ نیلا۔سورج دیوتا کی کرنیں سندھو کے پانی کو سنہرا رنگ دے رہی ہیں، دائیں بائیں لداخ کی آبادی پھیلی ہے

  

 مصنف:شہزاد احمد حمید

 قسط:25

 ”لداخ سے نکل کر وہ پہاڑ جنہوں نے مجھے گھیر رکھا ہے مزید بلند ہونے لگے ہیں۔ ہمالیہ اور قراقرم۔ ہمالیہ یعنی،”برف کا مسکن“ اور قراقرم یعنی ”کالی بجری۔“ مون سون بادل ہمالیہ کے مغربی پہلوؤں سے ٹکراتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بلندی تک پہاڑ سبزے میں چھپے ہیں ہوا میں نمی اور موسم سرد ہے لیکن شمال کی جانب دریا کی گزر گاہ پر سالانہ اوسط بارش 3 انچ سے بھی کم ہے لہٰذا یہاں پہاڑ یا تو چٹیل ہیں یاوسیع ریگ زار ہیں۔ ہوا خشک اور گرم آلود ہے۔ یہاں ہونے والی برف باری بھی نرم روئی کے گالوں کی بجائے دانے دار ہوتی ہے۔ چٹانوں کی سطح  ٹوٹی پھوٹی اور اس میں جگہ جگہ دراڑیں ہیں جبکہ زمین کی سطح نرم اور بھر بھری ہے یا پھر ڈلوں کی صورت کٹی نظر آتی ہے۔ مٹی کے اندر پتھر ایسے پھنسے ہیں جیسے کیک میں کشمش کے دانے۔“

”گرمی،سردی،دن اور رات کے درمیان درجہ حرارت میں نمایاں فرق ہے۔ زمین کے پھیلنے اور سکڑنے سے زمین کی پکڑ کمزور ہو چکی ہے اسی وجہ سے لینڈ سلائیڈ عام ہے۔ بلند و بالا چوٹیوں پر واقع گلیشیر (جو قطبی خطے کے بعد سب سے بڑے ہیں)دریاؤں میں اپنے بڑے بڑے ٹکڑے گراتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پانی کا بہاؤ تھم ساگیا ہے لیکن میراپانی جب ان عارضی بندوں کو تو ڑتا ہے تو پانی کا ریلا سمندر کی طوفانی لہروں کی طرح راستے میں آنے والی ہر شے کو ملیامیٹ کر دیتا ہے۔“

”تنگ اور پتھریلی دیواروں کے درمیان بہتے ہوئے مجھے بہت کم موقعہ ملتا ہے کہ پھیل کر بہہ سکوں۔ میں عمودی چٹانوں میں پھنسا ہوا بہتا ہوں اور بعض مقامات پر تو لگتا ہے کہ تیز ہوااور برف باری نے میرے تعاون سے ان چٹانوں کو کنگروں اور آرے کے دندانوں والی آری کی طرح مینڈھوں میں کاٹ دیا ہو۔موسم سرما میں جب ہر طرف برف اور برفیلی ہوا کا راج ہوتا ہے تو پھر بھی اس کاٹ کھانے والی سردی میں اس وادی کے نظارے آنکھوں کو فرحت بخشتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ تمہاری دنیا کے لوگوں کو یہ نظارے دیکھنے کو نہیں ملتے کہ جما دینے والی سردی میں یہاں کوئی آتا نہیں صرف میں ہی ان نظاروں کا گواہ ہوں۔ تم سر پھرے ہو کبھی سرد موسم میں میری وادیوں میں آنا اور اپنی آنکھوں سے ان فلک بوس پہاڑوں کو برف کی چادر اوڑھے دیکھنا یقیناً تم مبہوت ہو جاؤ گے اور بے ساختہ جھوم کر کہہ اٹھو گے، سبحان اللہ۔ تم تو جانتے ہوشدید ٹھنڈ میں میری سطح بھی جم جاتی ہے گو نیچے پانی سسکتا رہتا ہے۔موسم گرما میں بلندی پر پڑی برف اور گلیشیر پگھلتے ہیں تو میری چنگھاڑ ان گھاٹیوں میں اور بڑھ جاتی ہے۔ قدرت دیکھو کہ اس خطے میں جہاں دھوپ چمکتی ہے شدید گرمی ہوتی ہے اور جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی یا کم پہنچتی ہے وہاں شدید ٹھند ہوتی ہے۔ ہوا صاف اور فضا نتھری ہے۔ یہ بھی قدرت کا کمال ہے کہ اس نے میرے قرب و جوار کی وادیوں میں کہیں کہیں سرسبز و شاداب نخلستان اتار دیئے ہیں جو بڑے ممتاز نظر آتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ کسی سرسبز ملک کو زمین سمیت اٹھا کر یہاں بسا دیا گیا ہو۔ان زرخیز قطعوں میں گاؤں بھی ہیں اور ڈھلوان در ڈھلوان کھیت بھی، جوکسان کی محنت اور اللہ کی قدرت بیان کرتے ہیں۔پاپولر، شاہ بلوط، اخروٹ، خوبانی اور سیب کے درخت، جواور گندم کے کھیت، جنگلی گلاب سب مل کر یہاں کے حسن کوجنت نظیر بنا دیتے ہیں۔ان سبزہ زاروں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو حضرت انسان نے اپنی محنت سے اگائے ہیں۔“ 

میں سندھو کے ساتھ ساتھ چلا جا رہا ہوں۔ ٹھنڈی ہوا۔ آسمان بالکل صاف،سپاٹ نیلا۔سورج دیوتا کی کرنیں سندھو کے پانی کو سنہرا رنگ دے رہی ہیں۔ میرے دائیں بائیں لداخ کی آبادی پھیلی ہے۔ راستے کے اطراف گھروندے ہیں، کچھ کچے کچھ پکے البتہ چھتیں سب کی ایک سی ہیں، چپٹی اور چوکور۔مکانوں پر لہراتے رنگ رنگ کے جھنڈے،بلائیں گھروں سے دور رکھنے کا عقیدہ ہیں۔ اگر جھنڈے لہرانے سے دکھ تکالیف دور ہو سکتے تو میرے پاکستان کے سبھی گھروں پر جھنڈے لہرا رہے ہوتے۔ یہ بھائی چارے،محبت، امن، رواداری کا معاشرہ ہے جہاں بدھ،مسلمان، عیسائی، ہندو سبھی امن و آ شتی سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ افسوس مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد کشمیر کے ہی نہیں پورے ہندوستان کے حالات پہلے جیسے نہیں رہے ہیں۔ ہندو انتہا پسندی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے۔”ہندوستان ہندوؤں کا ہے“ یہی نعرہ یہاں کی اقلیت کے لئے ہر روز ایک نیا ظلم ایک نئی مصیبت لا رہا ہے۔ کاش کوئی مودی سرکار اور ہندو قیادت کو سمجھا سکے۔ کاش۔اب تو کشمیر کی وادی کا امن برباد ہو چکاہے۔ بندوق کے زور پر کشمیر کی اکثریت مسلمان آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی سازش ہو رہی ہے۔ 

 بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے لڑی جانے والی آزادی کشمیر کی جنگ نے امن اور رواداری کے اس معاشرے میں بارود کی بواور لہو کی خوشبو بکھیر دی ہے۔ جہاں یہ علاقہ کبھی جنگلی گلاب کی خوشبو سے مہکتا تھا وہاں کی فضا ء اب شہیدوں کے لہو سے معطر ہے۔ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔“  (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -