اقبال مغربی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُسی رو میں بہ جاتے جس میں نیا تعلیم یافتہ طبقہ ڈوب چکا تھا تو آج اس برعظیم کی تاریخ شاید مختلف ہوتی

مصنف: جمیل اطہر قاضی
قسط:27
لیکن یہ کیفیت بھی ان کی محققانہ فطرت سے پیدا ہوئی کیوں کہ آج 60,50 سال قبل جب یورپ میں سائنس کی کرشمہ سازیاں اہلِ مغرب کو ان کے مذہب سے بغاوت پر آمادہ کر رہی تھیں اور متحدہ ہندوستان میں مغربی تعلیم یافتہ طبقہ مذہب کے نام سے بے زار ہو رہا تھا اور ہمارے علماء مغربی علوم سے ناآشنا اس نئے خطرناک رجحان کا ازالہ کرنے سے قاصر تھے اس نازک وقت میں اگر اقبال مغربی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُسی رو میں بہ جاتے جس میں نیا تعلیم یافتہ طبقہ ڈوب چکا تھا تو آج اس برعظیم کی تاریخ شاید مختلف ہوتی۔
فی الحقیقت یہ مشیت ِ ایزدی کا احسان تھا کہ اقبال کی جویائی حقیقت ِ بصیرت کو مغربی تہذیب و تمدن کی خیرہ کن چمک و دمک چندھیا نہ سکی۔ ان کی تشنہ روح کو مادی سائنس اور مادی فلسفہ کی پرواز مطمئن نہ کرسکی اور وہ بے اختیار بول اٹھے کہ
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اور وہ علومِ مشرق کی تحصیل میں مصروف ہوگئے۔ اس طرح مشرقی اور مغربی علوم کے امتزاج نے ان کی سلیم فطرت میں وہ کیفیت پیدا کر دی جس نے اقبال کی عدیم المثال شاعری کو تاریخِ عالم میں شہرتِ عام اور بقاء دوام کا رتبہ عطا کیا اور جس نے اہل ِ مشرق کو اس گہری نیند سے بیدار کیا جس میں صدیوں سے مفلوج ہو چکے تھے۔
علامہ اقبال کی شاعری پر بہت سے اہل ِ علم نے تبصرہ کیا ہے اور ضخیم کتابیں لکھی ہیں لیکن میری نظر میں اقبال کے یہ چند فارسی اشعار جو انہوں نے پیامِ مشرق کے اندر ”پیش کش“ میں لکھے ہیں اقبال کی شاعری پر بہترین تبصرہ ہیں، ان اشعار میں علامہ اقبال نے جرمن شاعر گوئٹے سے اپنا مقابلہ کیا ہے اور یہ موازنہ شاعرانہ تعلی سے مبرا اور بے نیاز جچے تلے الفاظ میں بہترین تبصرہ ہے۔
اقبال کے عنفوانِ شباب کا وہ دور جس میں ان کی غزلیں ”مخزن“ میں چھپتی تھیں۔ قابل ِذکر ہے۔ میں ان دنوں لائل پور سکول میں پڑھتا تھا۔ کارخانہ بازار سے باہر ہمارے سکول کی عمارت وہی تھی جہاں اب گرلز سکول ہے۔ میرے مرحوم و مغفور بڑے بھائی صاحب کی معیت میں مجھے لاہور میں مدیر ”مخزن“ شیخ عبدالقادر مرحوم اور علامہ اقبال مرحوم و مغفور کی ملاقات بھی نصیب ہوتی۔ انجمن ِ حمایت ِاسلام کے جلسوں میں بھائی مجھے لاہور لے جاتے اوروہاں علامہ اقبال کی پُر نم نظمیں اور شیخ عبدالقادر مرحوم کی بذلہ سنج تقریریں سننے کا بھی موقع ملتا۔ میری دنیا سکول کے اساتذہ، طلباء اور مرحوم بھائی کے دوستوں کی صحبت پر مشتمل تھی۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جب علامہ اقبال کا ترانۂ ہندی ”مخزن“ میں چھپا تو اس کی بہت تعریف ہوئی اور ہندو، مسلمان سب اس کی تعریف میں یکساں رطب اللسان تھے۔ مگر اس کے بعد جب ”نیا شوالہ“ چھپی تو میرے ہندو طلباء دوست منقار زیر پر ہوگئے۔ اگرچہ اس میں برہمن کی ملامت کے بعد اتحاد اور یک جہتی کی تلقین کی گئی تھی۔ فی الحقیقت ”نیا شوالہ“ کی نظم سے یوں مترشح ہوتا ہے کہ گویا اقبال ایک ذہنی کشمکش میں مبتلا ہو کر ہندو برہمن کو روا داری اور محبت کی وہی تلقین کررہا ہے جس میں آزاد مسلم رہنما آئندہ 30-25 سال مبتلا ہو کر کانگرس میں شامل رہے۔
مقامِ حیرت ہے کہ جس ذہنی کش مکش سے نجات حاصل کرنے کے لئے متحدہ ہندوستان کے سینکڑوں ہزاروں آزاد منش مسلم رہنماؤں کو 25 سال انڈین نیشنل کانگرس میں شامل ہو کر بے شمار رائیگان قربانیاں دینی پڑیں اور جس ذہنی کشمکش میں متحدہ ہندوستان کے مسلمان اتنا ہی عرصہ سرگرداں رہے۔ اس سے اقبال کی حقیقت شناس بصیرت 1907 ء میں آزاد ہو چکی تھی۔) جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)