ابراہیم رئیسی
ابراہیم رئیس الساداتی کی ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت کے ساتھ ایران ہی نہیں اس پورے خطے اور وسیع تر تناظر میں عالمی سیاست کا ایک باب بند ہو گیا، انہوں نے ایک ہنگامہ خیز دور کا مشاہدہ کیا اور ایک نہایت متحرک اور سرگرم سیاسی زندگی بسر کی، ان کا دورِ اقتدار بھی متنوع چیلنجوں سے بھرپور تھا، ان چیلنجوں میں سے انہوں نے کس طرح آگے بڑھنے کا راستہ نکالا یہی میری آج کی تحریر کا موضوع ہے۔ جب ابراہیم رئیسی نے ایران کے صدر کا عہدہ سنبھالا تو ایران درجنوں بین الاقوامی پابندیوں کا شکار تھا، ان پابندیوں میں آگے بڑھنے کا راستہ اس کے سوا کیا ہو سکتا تھا کہ دستیاب وسائل اور مواقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔ امریکہ مخالف قوتوں سے راہ و رسم بڑھانا لگائی گئی پابندیوں کا توڑ ہو سکتا تھا، مرحوم ابراہیم رئیسی نے یہی راستہ اختیار کیا۔
ابراہیم رئیسی 14 دسمبر 1960ء کو پیدا ہوئے تھے اور فروری 1979ء میں انقلابِ ایران کے وقت وہ 19 برس کے نوجوان تھے۔،انہوں نے اس انقلاب میں بھرپور حصہ لیا اور شاہِ ایران کے خلاف جلوسوں میں شریک ہوتے رہے۔ 1981ء میں ابراہیم رئیسی نے پراسیکیوٹر کے طور پر خدمات سرانجام دینا شروع کیں اور پھر تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے محض 25 برس کی عمر میں وہ ایران کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل بن گئے۔ ابراہیم رئیسی اس چار رکنی کمیٹی کا حصہ تھے جس نے 1988ء میں حکومت کے مخالفین کو موت کی سزائیں سنائی تھیں، یہ کمیٹی انقلابِ ایران کے رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی کی ہدایت پر بنائی گئی تھی۔ خمینی کی وفات کے بعد علی خامنہ ای کے دور میں بھی ابراہیم رئیسی نے ترقی کا سفر جاری رکھا‘ اور 1989ء سے 1994ء تک‘ پانچ سال تہران کے پراسیکیوٹر جنرل کے طور پر کام کرتے رہے، اسی سال یعنی 1994ء میں انہیں سٹیٹ انسپیکٹوریٹ آرگنائزیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ وہ 10 سال اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ 2004ء میں رئیسی کا ڈپٹی چیف آف جوڈیشری کے طور پر تقرر کیا گیا۔ 2014ء میں وہ اٹارنی جنرل بنے اور انہیں امام رضاؓ کے روزے کا سربراہ بنا دیا گیا۔ رئیسی نے 2017ء میں صدر کے عہدے کے لیے الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے‘ تاہم 2021ء میں وہ 62 فیصد ووٹ لے کر ایران کے صدر بن گئے۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف‘ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ بین الاقوامی پابندیوں کے پُر آشوب دور میں صدر رئیسی نے ایران کی بقا اور ترقی کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا۔ آج کی دنیا میں ایران امریکہ اختلافات سے کون واقف نہ ہو گا۔ امریکہ نے نہ صرف خود ایران پر کئی قسم کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں بلکہ اقوام متحدہ اور دوسرے کئی ممالک کی جانب سے بھی ایران کو کئی حوالوں سے پابند کیا گیا ہے، یہ پابندیاں فنانشل اور بینکنگ سیکٹر پر ہیں‘ تیل کی برآمدات پر ہیں‘ تجارت پر ہیں‘ اثاثوں کو منجمد کرنے اور سفر پر پابندیوں کے حوالے سے ہیں، ایران پر یہ بھی پابندی ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنا سکتا، ان پابندیوں کے ایران کی معیشت پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اپریل 2015ء میں امریکی ٹریژری سیکرٹری جیکب لیو (Jacob low) نے دستیاب اعدادوشمار کی مدد سے اندازہ لگایا تھا کہ ایران کی معیشت لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے 15 تا 20 فیصد سکڑ چکی ہے اور صرف تیل کی برآمدات کی مد میں ایران کو 160 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے جبکہ ایران کے بیرون ملک مزید 100 بلین ڈالر کے اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں‘ اور اس کے بھی ایرانی معیشت پر منفی اثرات واضح ہیں۔
ابراہیم رئیسی 2021ء میں صدر بنے تو انہیں درجہ بالا پابندیوں کے علاوہ ملک کے داخلی انتشار‘ معیشت کی خراب صورت حال‘ سعودی عرب کے ساتھ کشیدہ تعلقات‘ افغانستان سے امریکی انخلا کی تیاریوں اور وہاں افغان طالبان کا حکمران بننا جیسے متعدد چیلنجوں کا سامنا تھا۔ ابراہیم رئیسی نے صدر بننے کے بعد اپنے لیے دو ترجیحات مقرر کی تھیں، ایک‘ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا‘ دوم‘ ایشیا کی بڑی طاقتوں بشمول چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا، یہ ایک طرح سے ان بین الاقوامی پابندیوں کا توڑ تھا جو اقوام متحدہ‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ یورپی یونین نے اس پر عائد کر رکھی ہیں۔
روس نے فروری 2022ء میں یوکرین پر حملہ کیا اور ایران کو روس کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کا موقع ہاتھ آیا تو ایران نے اس جنگ میں روس کا ساتھ دیا اور روس کی فوجی اور معاشی مدد کی۔ ایران نے روس کو ایک ہزار خود کش ڈرونز‘ گولا بارود اور ٹینک راؤنڈ فراہم کیے، دونوں ملکوں نے امریکی پابندیوں کے تناظر میں نئے معاشی اقتصادی تعلقات بھی استوار کیے، اس کے بدلے میں روس نے ایران میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی اور اس دوڑ میں روس نے چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا یعنی اس وقت ایران میں روس کی سرمایہ کاری چین سے زیادہ ہے۔
چین ایران تجارتی اور معاشی تعلقات پرانے ہیں۔ ابراہیم رئیسی نے ان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے 2023ء میں چین کا دورہ کیا، خاصے عرصے کے بعد وہ پہلے ایرانی لیڈر تھے جنہوں نے چین کا دورہ کیا، وہاں انہوں نے چین کے ساتھ اربوں ڈالر کے 20 معاہدوں پر دستخط کیے، اسی سال یعنی 2023ء میں ایران کی تیل کی برآمدات میں 50 فیصد اضافہ ہو گیا، زیادہ تر تیل چین خریدتا ہے۔ ابراہیم رئیسی کے دور میں ہی ایران شنگھائی تعاون تنظیم کا نواں رکن بنا اور پھر برکس کا حصہ بنا۔
اس طرح ایران نے امریکی پابندیوں کا توڑ امریکہ مخالف بلاک کا حصہ بن کر کیا، یہ ایک بہترین حکمت عملی ہے، اگرچہ یہ حکمت عملی طویل عرصے سے جاری تھی لیکن حالیہ برسوں میں اس میں تیزی آئی اور ایران نے حالات کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنائے اور اس خطے میں قریبی ممالک کے ساتھ تعاون کو بڑھایا۔ اس عمل کو تیز کرنے کا سہرا مرحوم ابراہیم رئیسی کے سر بندھتا ہے۔ علاقے کے ممالک کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور داخلی مسائل کے باوجود ایران کو ڈاؤن نہ ہونے دینے کا کریڈٹ بہرحال ابراہیم رئیسی کو ہی دینا پڑے گا، ان کی یہ خدمات تادیر یاد رکھی جائیں گی۔ دعا ہے پروردگار عالم تمام شہدا کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کی اگلی منزلیں آسان کرے۔