قومی ایشوز پر” سروے بازیاں“

قومی ایشوز پر” سروے بازیاں“
قومی ایشوز پر” سروے بازیاں“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان جن حالات سے دوچار ہے، اس میں ہر ایرے غیرے نے اپنا یہ فرض منصبی سمجھ لیا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے جگ ہنسائی اور پروپیگنڈے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے پائے۔برطانوی اخبارات اور دیگر ادارے اس حوالے سے پیش پیش ہیں۔برطانیہ کے ایک جج، جس نے پاکستانی کرکٹروںکو سزائیں سنائیں ،کے بارے میں میڈیا پر خبریں آ رہی ہیں کہ اسے خود بھی معلوم نہیں تھاکہ”نوبال“ کے حوالے سے ”بکی حضرات“ کسی قسم کی جوئے بازی نہیں کرتے۔اس میں کتنی صداقت ہے؟ یہ تو کرکٹ کے پروفیشنل ہی بتا سکتے ہیں۔تین پاکستانی کرکٹروں کا تو بہرکیف کیرئیربرباد ہوگیا،جو دنیا بھر میں پاکستان کی بے عزتی ہوئی، وہ الگ ہے۔اب حال ہی میں ایک برطانوی ادارے ڈی ایف آئی ڈی نے گیلپ سروے کیا ہے،جس میں نجانے کہاں کہاں سے ”ڈیٹے “اکٹھے کئے گئے ہیںاور اس میں یہ درفنطنی چھوڑی ہے کہ 37فیصد بلوچ،صوبے کی آزادی کے حق میں ہیں۔یہ برطانوی ادارے کی ”مہربانی“ ہے،وگرنہ اگر وہ 97فیصد بھی کہہ دیں،جو ان اداروں کی جھوٹ بولنے اور پروپیگنڈہ کرنے کی صلاحیت ہے ،اس کے بل بوتے پر وہ بآسانی دوسری پارٹی کا”کڑاکا“ نکال سکتے ہیں۔
برطانوی ادارے نے سروے میں یہ بھی بتایا ہے کہ بلوچستان میں بسنے والے 12فیصد پشتون بھی صوبے کی علیحدگی چاہتے ہیں۔اب اس ادارے سے کوئی پوچھے کہ بھلا وہ کون سی ریسرچ میٹھڈالوجی کے بل بوتے پر اتنا بڑا دعویٰ کررہے ہیں؟ان کے Samplesکیا تھے؟ ان کے سیمپلز تو خیر کیا ہونے ہیں۔ان کے عزائم بہرکیف بہتر نہیں ۔ویسے ہم لوگ بھی کمال ہیں۔بیرون ملک میں کہیں کوئی بھی سروے سامنے آ جائے،ہمارے ہاں انہیں ایک مقدس سٹیٹمنٹ کے طور پر لیا جاتا ہے۔بیرون ممالک کی این جی اوز اور ادارے ہمارے ہاں کے اسی رویے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ”اول فول“ کہتے رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیںکہ ان کے دیئے گئے ”غلط سلط“ اعدادوشمار کو ہمارے ہاں میٹھے چاولوں کی طرح لیا جائے گا۔
برطانوی ادارے نے اپنے گیلپ سروے میں صرف صوبہ بلوچستان کے حوالے سے ہی ہاتھ صاف نہیں کئے، بلکہ اس نے فاٹا سمیت دیگر ایشوز پر بھی منہ مارا ہے، جسے ”منہ ماری“ کہنا شاید زیادہ مناسب ہوگا۔ برطانیہ کے حوالے سے ڈی ایف آئی ڈی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر پاکستانی مثبت رائے رکھتے ہیں۔برطانوی ادارے نے اگر ٹھیک ٹھیک سروے کروایا ہوتا تو شاید انہیں درست اعدادوشمار مل جاتے ۔یہاں کے لوگ برطانیہ کے امیج کے حوالے سے اتنے سرگرم نہیں ہیں،جتنا وہ اپنے ہاں امن اور ترقی چاہتے ہیں۔لوگ اپنے ملک میں بیرونی مداخلت پسند نہیں کرتے۔ جنوبی ایشیائی خطے کے لوگ زیادہ تر صلح جو ہیں، لیکن اس کا کیاکریں کہ سنتالیس ممالک کی افواج جنوبی ایشیائی خطے کے ایک پسماندہ ملک افغانستان میں بیٹھی ہوئی ہیں،جس کی بناءپر خطے میں تناﺅ پایا جاتا ہے۔
یہ افواج جب تک مقامی لوگوں کے ہاتھ میں یہاں کا نظم و نسق نہیں سونپ دیتیں ، امن قائم نہیں ہو سکتا۔بیرونی طاقتیں افغانستان سے جائیں گی تو بھی اپنے پیچھے اتنے مسائل اور تنازعات چھوڑ جائیں گی کہ شائد اگلی کئی دہائیاں مختلف مقامی گروہ ایک دوسرے سے نبردآزما رہیں گے۔بالکل اسی طرح جس طرح برطانیہ نے ہندوستان کی تقسیم کے وقت سازش کرتے ہوئے گورداسپور کوبھارت سے ملا دیا اور اس کی صرف ایک تحصیل شکر گڑھ پاکستان کے حصے میں آئی۔گورداسپور بھارت کو دینے کا مقصد صاف تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح بھارت کو جموں و کشمیر پر قابض رہنے کے لئے اکاموڈیٹ کرنا چاہتا تھا اور دونوں نئے قائم ہونے والے ممالک کو باہم گتھم گتھا دیکھنا چاہتا تھا،جس میں وہ یقینا کامیاب رہا۔پاکستان اور بھارت میں کم و بیش تین جنگیں کشمیر کے ایشو پر ہوچکی ہیں۔اب بھی کشمیر کوپاک بھارت مسائل میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔کشمیر ایشو پر بات چیت نہ ہو پانے کی بناءپر دیگر ایشوز سے متعلق بھی بات آگے نہیں بڑھ پاتی۔اب بین الاقوامی طاقتیں جنوبی ایشیائی خطے میں سازشوں کے جال بنے بیٹھی ہیں۔صوبہ بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے واضح ثبوت موجود ہیں،ایسے میں ڈی ایف آئی ڈی یا کسی اور ادارے کے گیلپ سروے کی کیا حیثیت ہے اور اس پر کس طرح سے آنکھیں بند کرکے یقین کیاجا سکتا ہے؟ ٭

مزید :

کالم -