پاکستان میں شجاعت کے مسخ شدہ تصورات
بہادری کی داستانیں رقم کرنے میں اس قوم کا کوئی ثانی نہیںہے، کیونکہ اس کے بچے بھی سینے سے دھماکہ خیز مواد باندھ کر یاخود کش جیکٹ پہن کر اپنے ”اتالیق“ کی ہدایت کے مطابق اپنے ہدف پر پہنچ کر خود کو دھماکے سے اُڑا لیتے ہیں۔ دو تین روز پہلے پشاور سے خود کش جیکٹ پہنے ایک13 سالہ لڑکا پکڑا گیا، جبکہ اس کی ”رہنمائی “ کرنے والے نے زندگی کی صرف بیس یا اکیس بہاریں دیکھی تھیں۔ یہ نوعمر لڑکے موت کو گلے سے لگانے کے لئے غالباً اس لئے تیار ہو گئے تھے کہ اُن کے ذہن میں یہ بات بٹھائی گئی تھی کہ بٹن دباتے ہی وہ فی الفور فردوس ِ بریں میںپہنچ جائیںگے، جہاں انواع و اقسام کے لذائذ بڑی بے تابی سے اُن کے لئے چشم براہ ہوںگے۔ اپنی نوجوانی کے ایام میں میرے کانوںنے بھی بڑے مزے سے فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دینے والے واعظین سے پُر کیف باغات اور دودھ و شہد کی نہروں کا ذکر سنا ہے اورسچی بات پوچھیں تو یہ مشروبات تو اتنے نہیں بھاتے تھے، مگر حور و غلمان کا ذکر رگوں میں بجلیاں بھر دیتا تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الہامی کتاب کا یہ وعدہ نا سمجھ نوجوانوںکو خود کش بمبار بنا کر موت کے جہنم میں دھکیلنے کے لئے ہے؟ کتنی سنگدلی ہے جو نوجوانوں کو ان تاریک راہوں پر چلتے ہوئے موت کے بھیانک غار میںکود جانے کا درس دیتی ہے ، تاہم یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں،کیونکہ خود ساختہ پارسائی کے لبادے چڑھائے تحریکِ طالبان پاکستان کے انتہا پسند سرعام ایسے نظریات کی ترویج کرتے ہوئے اپنے پیروکاروںکو ان راستوںپر دھکیل رہے ہیں ۔ دوسروںکو ہلاک کرتے ہوئے اپنی جان لینا یقینا وہ بہادری ہے جو اُن کے کٹر نظریات کا عملی مظہر ہوتا ہے، مگر دل چاہتا ہے کہ کبھی خودکش بمبار بنانے والے پارساﺅں کے اپنے بچوں اور عزیز و اقارب کوبھی انہی راہوںپر چلتے ہوئے راہی ِ ملک عدم ہوتے دیکھوں۔ پتا نہیں یہ کتنے سنگدل لوگ ہیں، جو دوسرے غریب بچوں پر تو بہت ”مہربان “ ہیں اور انہیں دنیا کی مشقت (تعلیم اور رزق ِ حلال وغیرہ) سے صاف بچا کر جنت میں پہنچا دیتے ہیں، مگر اپنے بچوں کو اس ”سعادت “ سے محروم رکھتے ہیں .... خدا ایسا سنگدل باپ کسی کو نہ دے۔ کچے ذہن کے مبتدی نوجوانوں ، جو زیادہ تر انتہائی مفلس خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، کو فردوس کے پھولوں کی جھلک دکھا کر اس دھرتی کے انگارے بنانے والے شعلہ بیان مقررین شہادت کا فلسفہ اپنے گھر سے شروع کیوں نہیں کرتے؟
ایک اور بات جس کی تفہیم سے قاصر ہوں ....وہ یہ ہے کہ ہمارے دلیرانہ کارناموںکا حتمی اور فوری صلہ جنت کے علاوہ کچھ اور نہیںہوتا ۔ جب ایک فرقے کے جاں باز دوسرے فرقے کے پیروکاروں کو ہلاک کرنے جاتے ہیں، جب طالبان خود کش حملوں پر مجاہدین کو روانہ کرتے ہیں ، حتی کہ جب باقاعدہ فوجیوںکو بھی محاذ پر بھیجا جاتا ہے تو ان کے حوصلوںکو مہمیز لگانے کے لئے شہادت اور اس کے نتیجے میں جنت کی بشارت دی جاتی ہے۔ کیا آپ جانتے ہیںکہ دوسری جنگ ِ عظیم میںکتنے روسی یا جرمن سپاہی ہلاک ہوئے؟ ان کی تعداد ہزاروں میں نہیں، لاکھوں میںتھی۔ جرمن تو کسی حد تک عیسائیت کے تصور ِ فردوس سے آشنا تھے، مگر روس کی سرخ فوج تو آخروی دُنیا پر یقین ہی نہیںرکھتی تھی، اس لئے اس کے فوجیوں کی بہادر ی کے پیش نظر جنت کا تصور نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ ایک پیشہ ور فوج کی طرح بہت بہادری سے لڑے۔ اب فیصلہ کرلیں کہ کون سی بہادری بہتر ہے.... خود کش بمبار کی یا ایک پیشہ ور فوج کی؟
ہمارے جہادی کلچر کی ایک اور پیداوار فریدکوٹ کا اجمل قصاب ہے۔اس سے قطع نظر کہ وہ جس طرح کے بھی تخریبی اور گھناﺅنے کاموں میں ملوث ہوا، میرا دل اُس کی پھانسی پر غمزدہ ہے۔ میرے دکھی احساسات اُس کے ہلاکت خیز کاموںکی حمایت یا وکالت نہیںکررہے ، بلکہ اس لئے کہ وہ ذہنی طور پر نا پختہ لڑکا، جسے بیرونی دُنیا کا بہت کم علم تھا، انتہائی مجبوری کے عالم میںانتہا پسندوں کے ہتھے چڑھ گیا ۔انہوںنے اُس کی برین واشنگ کرتے ہوئے ٹریننگ کی اور اُس خطرناک کام پر بھیج دیا، جس کی وجہ سے سرحد پار دونوں ممالک کے لاکھوں افراد کی جانیں داﺅ پر لگ گئی تھیں۔
جاسوس، خفیہ ایجنٹ اور کمانڈوز خطرناک مشن پر جاتے ہیں اور انہیں اس بات کا یقین نہیںہوتا کہ وہ زندہ لوٹ آئیں گے یا نہیں؟ مگر انہیں کم از کم یہ تو پتا ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور اس کے مضمرات کیا ہیں؟وہ پیشہ ور اور تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور اُ ن کے کارنامے اُن کو ہیرو بنا دیتے ہیں۔ حزب اﷲ کے مجاہدین نے 2006ءکی جنگ میں اسرائیل کے مرکاوا (Merkava) ٹینکوں کے سامنے آکر ان پر ٹینک شکن میزائل فائر کئے....یہ بہادری ہے، مگر نوعمر لڑکوں کو خود کش بمبار بنا دینا کہاں کی بہادری( بلکہ انسانیت) ہے؟
اس جنگ میں ایک معصوم لڑکا اور ایک نہایت عیار نگران اور انسٹرکٹر چاہئے.... اس شیطنت پر ابلیس بھی نازاں (یا شرمندہ؟) ہو گا۔ اس پارساگروہ کے پاس سنگدلی کے علاوہ مکاری کی بھی کمی نہیں۔ اپنے لاﺅڈسپیکروںسے یہ ہمہ وقت ہر موضوع پر فتوے جاری کرتے رہیںگے، مگر مجال ہے جو آپ ان کی زبان سے کبھی بچوں کو خود کش حملہ آوربنانے کے خلاف کوئی بات سنیں۔ جب جماعت ِ اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد پر ایک خاتون خود کش بمبارنے حملہ کیا تو موصوف نے فوراً ہی اعلان کر دیا کہ یہ طالبان نہیں، بلکہ ”ہنود و یہود امریکی لابی“ کا کام ہے۔ آفرین ہے اُس ”یہودی النسل امریکی لڑکی“ کی جوانمردی پر کہ وہ ایسے علاقے میں چلی گئی،جہاں ہمارے فوجی بھی بہت سوچ سمجھ کر جاتے ہیں۔ ایسی ہی ”بہادری“ کا ایک اور پہلو، جیسا کہ ہم آج کل دیکھ رہے ہیں، اہل ِ تشیع کی امام بارگاہوں اور تعزیے کے جلوسوں پر حملوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ کیا خود کش حملہ آور وںکو پتا ہوتا ہے کہ وہ کس جال میں پھنسے ہوئے ہیں؟اُن کی عمریںدیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتے کہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں ، مگر اُن کے ماسٹر مائنڈ؟کیا وہ بھی معصوم ہوتے ہیں؟
یہ جہادی کلچر کے مبلغ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا اس ملک میں پھیلی ہوئی افراتفری کم ہے یا کیا اس راہ پر چلتے ہوئے وہ اپنے مسلک کی ترویج چاہتے ہیں؟ کیا یہ سنگدلانہ اقدامات ان کی منفی ذہنیت کی غمازی نہیںکرتے؟اس بات میں قطعاً مبالغہ نہیں ہے کہ یہ جنگجو دراصل اپنے مخالف فرقے کے پیروکاروں کو ختم کرنا اپنا الہامی مشن سمجھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے اپنے مسلک کی خدمت کررہے ہیں۔ مَیں نام اس لئے نہیںلے رہا کہ سب جانتے ہیں.... اور پھر ہر روز نظر آتا کہ کس طرح مخالف فرقے کے لوگوں کو شناخت کر کے بڑی بے رحمی سے گولی ماردی جاتی ہے۔ اس مرتبہ محرم کا آغاز ہی خونچکاں ہو گیا ہے.... کراچی ، پنڈی اور بہت سے دوسرے مقامات پر حملے کئے گئے ہیں۔ ان منظم کارروائیوں کے مقابلے میں بوکھلائی ہوئی حکومت کچھ بے معنی بیانات جاری کرتے ہوئے پولیس دستوں کا مارچ پیش کرسکتی ہے.... اس سے کون ڈرتا ہے؟
اسی اثنا میں سازش کی تھیوری پھیلانے والوں کے حملے بھی جاری ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ غیر ملکی ایجنسیوں کا کام ہے۔ قاضی حسین احمد جیسے نظریات رکھنے والوں کو ان کاموں کے پیچھے چھپی یہودی لابی صاف نظر آتی ہے۔ ہمیں سب کچھ نظر آتا ہے، سوائے اپنی غلطی کے۔ اب ہم کس طرف جارہے ہیں،بلکہ ہم کس انجام سے دوچار ہو چکے ہیں؟ہم کس جہاد کا ثواب کمارہے ہیں؟ یہ کس قسم کی دفاعی حکمت ِ عملی ، یا حماقت ، ہے کہ افغانستان میں اپنا اثرو رسوخ قائم کرنے اورکشمیر کو آزاد کرانے کی کوشش کرتے کرتے ہم نے اپنے ہی گھرکو آگ لگا لی ہے، جس دفاعی ماہر نے بھی ہمیں اس پالیسی سے آشنا کیا، اُس سے سنگین باز پرس ہونی چاہئے.... اگر یہاں نہیں تو کسی اور دُنیا میں تاہم گئے وقت کو واپس نہیں لایا جاسکتا، اب مستقبل کے تقاضے ہمیں بلاتے ہیں۔ ایک خوشحال مستقبل میں قدم رکھنے کی اولین اور مقدم ترین شرط یہ ہے کہ ہم نظم وضبط ااورقانون کی حکمرانی کا احساس پیدا کریں.... ان کا فی الحال ہمارے ہاں شائبہ تک نہیںہے۔ ہمارے ہاں ہر طرف پھیلی ہوئی افراتفری کسی اور زندہ قوم کے لئے انقلاب کی نوید دیتی ہے، مگر ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہونے والا، چنانچہ مایوسی کی ظلمت گہری ہوتی جارہی ہے۔
اگرہم خرمن کی خاک سے نیا گلستان نہیں اُگاسکتے ہیں تو نہ سہی ....بہار کی امید کرنا حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہوگا ....خزاں کو تو خاموشی سے گزار لیں۔ اگر ہم صرف لاﺅڈ سپیکروں کے شور کو بھی کنٹرول نہیںکر سکتے تو کس جہان نو کی تعمیر کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں دودھ اور خوراک ملاوٹ زدہ ہیں، پینے کا صاف پانی میسر نہیں، مگر یہ ناکامیاں بھی ہمارے دریائے خطابت کے آگے کوئی بند نہیں باندھ سکتیں۔ آپ پاکستان کے کسی بھی گاﺅں یا قصبے میں چلے جائیں، کان کے پردے پھاڑ دینے والے سپیکر (یہ کبھی خراب بھی نہیںہوتے) کا شور آپ کا پیچھا کرے گا۔ اس سلسلے میں میاں منظور وٹو کی تعریف کرنا ہو گی ، چاہے آپ اُن کی سیاست سے اختلاف کرلیں، کہ انہوںنے اپنے دور میں لاﺅڈ سپیکروں پر پابندی کا حکم دیا اور اس پر عمل کو یقینی بنایا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ نیکی ہی اُن کی نجات کا ذریعہ بن جائے۔ لاﺅڈ سپیکروں کو اسی طرح کا قانون بنا کر کنٹرول کرنا چاہئے، جس طرح سڑکوں پر ٹریفک کنٹرول کرنے کے قوانین ہیں۔ اسی طرح قوانین پر عمل کرتے ہوئے حکومت ٹیکس کی وصولی میں اضافہ کرسکتی ہے اور امن وامان کو بہتر بنانے کے لئے پولیس کو جدید خطوط پر استوار کر سکتی ہے، تاہم اس کے لئے بیانات نہیں، عمل کی ضرورت ہے۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ ہماری قوم کی نفسیات اور سوچ کے دھارے غلط سمت میں رواں ہیں، ورنہ امام بارگاہوں پر حملے کرنے اور نو عمر لڑکوںکو خود کش حملہ آور بنانے کی وضاحت پیش نہیںکی جاسکتی۔