آٹھ مسلم ممالک کے مبارک عزائم
آٹھ ترقی پذیر مسلم ممالک کی اقتصادی تعاون کے لئے قائم کی گئی تنظیم( ڈی-8) نے اپنی اسلام آباد کانفرنس میں رکن ممالک کے درمیان باہمی روابط ، تجارت اور اقتصادی تعلقات کے فروغ کے لئے چارٹر کی منظور ی دے دی ہے- ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، ترکی ، مصر، انڈونیشیا، ملائشیا، ایران اور نائجیریا شامل ہیں- ان ممالک کے رہنماﺅں نے تنظیم کے اسلام آباد اجلاس کے موقع پر ایک دستاویز پر دستخط کئے ہیں، جس میں 2018ءتک رکن ممالک کے درمیان تجارت 500ارب ڈالر تک بڑھانے کے عزم کا روڈ میپ دیا گیا ہے- اس موقع پر تنظیم کی سرگرمیوں کو موثر بنانے اور 1997ء میں اس کے قیام کے وقت اعلان استنبول میں بیان کردہ اس کے مقاصد اور اصولوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا- تنظیم نے اپنے عوام کی خوشحالی ، غربت کے خاتمے ، سماجی و اقتصادی بہبود کے لئے مشترکہ کوششیں کرنے کے عہد کی تجدید کی ہے- تنظیم کے چارٹر میں یونیورسل ممبر شپ، مشاورت، جوابدہی پر مبنی عالمی اقتصادی اور مالیاتی نظام اور بین الاقوامی فیصلہ ساز اداروں میں ترقی پذیرممالک کی موثر شرکت کے لئے کوششوں کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے- تنظیم نے علاقائی اقتصادی گروپوں سے استفادہ کرنے اور رکن ممالک کے درمیان تعاون اور اجتماعی اقتصادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے حوالے سے قریبی اقتصادی تعاون کا فیصلہ کیا - چارٹر میں تجارت ، صنعت، مواصلات ، اطلاعات، فنانس، مشترکہ سرمایہ کاری ، کسٹم، انشورنس ، زراعت ،دیہی ترقی، توانائی ، معدنیات ،نقل وحمل ، ماحولیات ، سیاحت اور دیگر شعبوں میں تعاون پر اتفاق کیا گیا ہے- اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ اقتصادی ترقی اور عوام کا بہتر معیار زندگی صرف جمہوریت کے ذریعے ممکن ہے- کانفرنس میں امن، جمہوریت اور اعتدال پسندی کے فروغ کے عزم کا بھی اظہار کیا گیا- یہ بھی کہا گیا کہ خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے زراعت کو فروغ دیا جائے گا- اقوام متحدہ کی طرز پر مسائل کثیر القومی نظام کے تحت حل کئے جائیں گے- اس موقع پر صدر زرداری نے اپنی افتتاحی تقریب میں اپنے مذہب اور اقدار کے لئے جدوجہد جاری رکھنے اور تنظیم کے ممالک کے ایک دوسرے میں بنک قائم کرنے اور سرمایہ کی آزادانہ ترسیل کی ضرورت پر زور دیا اور اسرائیل کے غزہ پر حملوں کی مذمت بھی کی -
ڈی -ایٹ تنظیم میں اسلامی ممالک کے وہ تمام اہم ممالک شامل ہیں جنہیں اپنی آبادی، جغرافیائی محل وقوع اور معیشت کے لحاظ سے دوسرے اسلامی ممالک کے مقابلے میں زیادہ اہمیت حاصل ہے- ان تمام ممالک نے اپنے مسائل اور دشواریوں کے باوجود گذشتہ پندرہ برس میں ترقی اور استحکام کی طرف اہم پیش رفت کی ہے- اگرچہ اس تنظیم کے پلیٹ فار م سے وہ کام نہیں ہو سکا جس کی توقع تھی لیکن اس پلیٹ فارم اور اس کے ذریعے جتنے شاندار اور مضبوط کام ان ممالک کے عوام کی خوشحالی کے لئے کئے جاسکتے ہیں ان کے سلسلے میں بہت بلند توقعات کا اظہار کیا جاسکتا ہے- اس کانفرنس میں آسیان جیسی دوسری جن علاقائی تنظیموں کا تعاون حاصل کرنے کاذکر کیا گیا وہ تمام تنظیمیں مختلف ممالک کے ایسے ہی علاقائی گروپ ہیں جنہوں نے اپنے خطے میںباہم ایک دوسرے کو تجارت کے سلسلے میں مراعات دے کر باہمی تجارت اور اقتصادی تعاون کو فروغ دیا اور ایک دوسرے کی صلاحتیوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی معیشت کو مضبوط کرکے عوام کو خوشحالی بخشی ہے- ڈی- ایٹ کے سب کے سب ترقی پذیر ممالک نہ صرف اسلامی ممالک ہیں بلکہ اپنے مسائل ، صنعتی و اقتصادی پوزیشن اور وسائل کے لحاظ سے بھی ان کے حالات میں بہت کچھ مماثلت ہے- تنظیم کے تقریبا سبھی ممالک عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے خود کو بھاری سود کے چنگل میں جکڑ لئے جانے کا تجربہ کررہے ہیں- ان سے ہر ملک اپنے عالمی سیاسی اور دفاعی مسائل کے سلسلے میں اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں کی بے حسی اور بے اعتنائی کا تجربہ کر چکا ہے- ترقی یافتہ صنعتی ممالک کی طرف سے ان کے ترقیاتی منصوبوں میںکبھی انہیں حقیقی فنی معاونت حاصل نہیں ہوئی- البتہ اپنے سپیئر پارٹس کی مستقل فروخت اور بھاری سود کے چنگل میں پھنسانے کے منصوبوں میں یہ ملک بڑی چاہت سے آگے آتے ہیں-ان ممالک کے تمام ناکام ترقیاتی منصوبوں کے پیچھے ترقی یافتہ استعماری طاقتوں کا ہاتھ ہے جن کے سرکاری یا نجی اداروں نے ہمارے حاکموں کو بھاری کمیشن اور اپنے بنکوں میں قوم کی چرائی ہوئی رقم رکھنے کے تحفظ جیسے لالچ سے ہمیشہ گمراہ کیا اور ہماری ضرورت کے بغیر لا یعنی قومی سرمایہ کاری میں پھنسایا ہے-
یورپ و امریکہ کے حاکموں سے اکثر عالمی سیاست میں صیہونی یا دوسری انتہا پسند تنظیموں کے زیر اثر مسلم ممالک سے تعاون کرنے کے لئے باآسانی آمادہ نہیں ہوتے اسرائیل کے نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں کے ساتھ بہیمانہ رویے کی مثال ساری دنیا کے سامنے ہے-کشمیرکے سلسلے میں سلامتی کونسل کی قرار داد سے آگے عالمی ادارے ہماری کوئی مدد نہیں کرسکے- آج اگر دشمن طاقتوں نے پاکستان پر دہشت گردی ٹھونس رکھی ہے جس سے ہمارے بے گناہ شہری ہلاک ہورہے ہیں تو الٹا مغرب کے نام نہاد مہذب ملکوں کی طرف سے دہشت گردی کے تمام تر الزامات بھی ہمیں ہی دئیے جارہے ہیں- مسلم امہ نے ایسے ہی مسائل کے حل کے لئے او، آئی ، سی کا پلیٹ فارم تشکیل کیا تھا ، جسے امریکہ کی وفادار مسلم حکومتوں ہی کی وجہ سے آج ایک مردہ گھوڑے سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں- ڈی-ایٹ میں شامل ممالک پر بھی امریکہ اور دوسری استعماری طاقتوں کی نظر عنایت کچھ کم نہیں ، لیکن اپنی پوزیشن کی بناء پر ان ممالک کے لئے بہت کچھ امریکہ اور اس کے حواریوں کی مرضی کے بغیر کرنا بھی ممکن ہے- اگر ان کا باہمی تعاون اور تنظیم کے مقاصد حقیقت کا روپ دھارنے لگیں تو پھر ہم باآسانی ہر طرح کے استعماری اثرات اور دباﺅ سے نجات پاسکتے ہیں- عام انسانوں کی طرح عالمی برادری میں بھی دباﺅ میں وہی قومیں رہتی ہیں جن کا تمام تر انحصار استعماری طاقتوں ہی پر ہو-
ڈی-ایٹ ممالک کے آپس میں نہ ہی کوئی ایسے تنازعات ہیں، نہ ہمارے مفادات میں کوئی تصادم ہے اور نہ ہم دنیا کی سیاست میں کسی طرح کے خفیہ اور مذموم مقاصد کے لئے کام کررہے ہیں- اپنے عوام کی خوشحالی ، ترقی اور قومی دفاع کے لئے جدو جہد ہر قوم اور ہر ملک کا حق ہے ، اس کے لئے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا- تنظیم کے چارٹر میں بیان کردہ شعبو ں میں اگر ہم ہاہمی تعاون اور اشتراک کو فروغ دے سکیں تو اپنے عوام کے خوابوں کی تعبیر انہیں دینے کی منزل کچھ دور نہیں ہے - صرف حکمرانوں کے اخلاص اور قیادت میں صحیح فہم و تدبر کی ضرورت ہے ، حاکموں کی صفوں سے کرپشن کا خاتمہ ہو سکے تو کسی رکن ملک کو بھی اپنے ان مشترکہ مقاصد کے لئے آگے بڑھنے اور ان اقوام کے تعاون کو مضبوط سے مضبوط بنا کر ایک بڑی طاقت کی صورت میں دنیا میں ابھرنے میں قطعی کوئی دشواری پیش نہیں آ سکتی-