’’جیوے جیوے پاکستان ‘‘ کے خالق متاز شاعر، نقاداور کالم نگار جمیل الدین عالی انتقال کر گئے

’’جیوے جیوے پاکستان ‘‘ کے خالق متاز شاعر، نقاداور کالم نگار جمیل الدین ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 کراچی(آئی این پی،این این آئی) اردو کے ممتازشاعر،نامورنقاداور کالم نگار جمیل الدین عالی حرکت قلب بند ہونے سے کراچی میں انتقال کرگئے،اناللہ و انا الیہ راجعون ،ان کی عمر89 سال تھی۔وہ گزشتہ کئی ماہ سے علیل تھے، ان کی نمازجنازہ آج( منگل کو)ڈ یفنس میں بعد از نمازعصر ادا کی جائے گی۔ صدرمملکت ممنون حسین ،وزیراعظم نوازشریف، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویزر شید، وزیر اعلیٰ اور گورنر پنجاب ، وزیر اعظم کے معاون خصوصی عرفا ن صدیقی اور دیگر رہنماؤں نے ان کے انتقا ل کو علمی وادبی دنیا میں بڑا خلاء قرار دیتے ہوئے افسوس کا اظہار کیاہے ۔ جمیل الدین عالی کا شمار اردو ادب کے نامور نقادوں اورشاعروں میں ہوتاتھا۔ان کا ملی نغمہ جیوے جیوے پاکستان ہر عہد میں مقبول رہا اس کے علاوہ’’ اے وطن کے سجیلے جوانو‘‘ اور’’ ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں‘‘ ان کی معرکتہ آلارا نظمیں ہیں۔ان کی علمی وادبی خدمات کے علاوہ ’’جیوے جیوے پاکستان‘‘ سمیت کئی ملی نغموں نے اْنہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا جبکہ 1999 میں اْنہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازاگیا۔جمیل الدین عالی مرحوم بیس جنوری 1926کو دہلی میں پیداہوئے اور پاکستان بننے کے فورا بعد کراچی آگئے اور یہاں سکونت اختیار کرلی۔ جمیل الدین عالی کا تعلق دو علمی اور ادبی خانوادوں سے تھا، ان کے والد امیرالدین خان مرزا غالب کے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جب کہ والدہ خواجہ میر درد کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ اْنہوں نے 1948 میں عملی زندگی کا سفر شروع کیا اور وزارت تجارت میں بطور اسسٹنٹ تعینات ہوئے۔1951 میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور 1963 میں وزارت تعلیم میں کاپی رائٹ رجسٹرار تعینات ہوئے، پھر1967میں نیشنل بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوگئے اوراعلیٰ عہدے پر پہنچ کر ریٹائرہوئے۔مرحوم نے شعروادب کی ہرصنف میں طبع آزمائی کی اورنمایاں مقام حاصل کیا،خاص طورپرانہوں نے گیت اوردوہے تخلیق کرکے بڑی مقبولیت حاصل کی۔وہ ہزاروں اشعار پر مبنی ایک طویل رزمیہ نظم انسان پر کام کررہے تھے جسے اردو ادب کا ایک شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے ۔’’دنیا مرے آگے‘‘کے عنوان سے شائع ہونے والے ان کے کالم بھی بہت پسند کئے جاتے تھے۔ شعری مجموعوں کے علاوہ ان کے مضامین اورسفرناموں پرمشتمل کئی کتابیں شائع ہوئیں۔جمیل الدین عالی بابائے اردو مولوی عبدالحق کے شاگرد رہے اور ابنِ انشا سے لے کر قدرت اللہ شہاب تک کے رفیقِ کار رہے ۔انجمن ترقی اردو اور اردو ڈکشنری بورڈ کے تحت جمیل الدین عالی نے لازوال کوششیں کیں اور پاکستان رائٹرز گلڈ سے ادیبوں کے لیے خصوصی ایوارڈز کا اجرا کیا جو کئی برس تک جاری رہا۔ مرحوم نے کئی حکومتی محکموں میں بطور افسر اور بیوروکریٹ خدمات انجام دیں اور اعلی عہدوں پر متمکن رہے جبکہ صدر ایوب خان کے عہد میں پاکستان رائٹرز گلڈ انہی کی کاوشوں سے وجود میں آئی جس کی ترقی اور فروغ کے لیے وہ ہمہ تن کوشاں رہے۔ ان کے کالم دنیا بھر میں مقبول ہوئے اور ان کے تحریر کردہ ملی نغمے آج بھی زبان زدِ عام ہیں ۔جمیل الدین عالی کو ان کی ناقابلِ فراموش خدمات کے صلے میں کئی اہم اعزازات سے نوازا گیا جن میں ستارہ امتیاز، آدمجی ادبی ایوارڈ اور کمالِ فن ایوارڈ قابلِ ذکر ہیں ۔ مرحوم نے اپنے پسماندگان میں پانچ بچے اور سینکڑوں عقیدت مندسوگوار چھوڑے ہیں۔صدرمملکت ممنون حسین اور وزیراعظم محمد نوازشریف نے جمیل الدین عالی کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے ان کی مغفرت اور درجات کی بلندی کیلئے دعا کی۔صدر مملکت نے کہاکہ جمیل الدین عالی نے اردو کے لئے گراں قدرخدمات انجام دیں،ان کے انتقال سے بہت بڑا خلا ء پید اہواہے ۔وزیراعظم نوازشریف نے کہاکہ جمیل الدین عالی کے انتقال سے پیدا ہونے والا خلاء کبھی پُر نہیں ہوسکے گا۔ ۔وزیراعلی پنجاب شہبازشریف ،گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی امور عرفان صدیقی اور دیگر نے جمیل الدین عالی کے انتقال پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی ملک و قوم کیلئے خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا۔عرفان صدیقی نے کہا کہ جمیل الدین عالی ہماری علمی اور ادبی تاریخ کا سرمایہ تھے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویزر شید نے کہاکہ عالی کے انتقال سے علمی وادبی دنیا میں بڑا خلاء پیدا ہوگیا ہے ۔سندھ کی اعلیٰ سیاسی قیادت اور ادیبوں نے بھی ان کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جبکہ جمیل الدین عالی کے صاحبزادے نے بتایا کہ گزشتہ دودن سے وہ ڈھلنا شروع ہوگئے تھے جبکہ صبح کے وقت وہیں پر قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہے۔ اْن کی نمازجنازہ آج بروز منگل ڈیفینس میں بعد از نمازعصر ادا کی جائے گی ۔

جمیل الدین عالی
جیوے جیوے پاکستان کے خالق ممتاز شاعر جمیل الدین عالی انتقال کرگئے
کراچی(این این آئی) پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر، نقاد، دانشوراور اردو زبان و ادب کے فروغ کی ایک قد آور شخصیت جمیل الدین عالی پیرکوطویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال کرگئے۔جمیل الدین عالی کا ملی نغمہ جیوے جیوے پاکستان ہر عہد میں مقبول رہا اس کے علاوہ اے وطن کے سجیلے جوانوں اور ہم تا با ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں ان کی معرکتہ آلارا نظمیں ہیں۔ جمیل الدین عالی پاکستان رائٹرز گلڈ کے اعلی عہدوں پر رہنے کے علاوہ انجمن ترقی اردو سے بھی وابستہ رہے اور اپنی انتہائی قابلیت سے ملک میں اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے کام کرتے رہے۔ پاکستان کے معروف اخبارات میں کئی دہائیوں تک وہ باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے جن کا مجموعہ دعا کرچلے اور صدا کرچلے کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔جمیل الدین عالی نام جمیل الدین احمد جب کہ عالی ان کا تخلص تھا۔ وہ جنوری 1926 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور پاکستان بننے کے فورا بعد کراچی آگئے اور یہاں سکونت اختیار کرلی۔ جمیل الدین عالی کا نسب علمی اور ادبی خانوادے سے تھا اور ان کے والد امیرالدین خان مرزا غالب کے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے جب کہ والدہ خواجہ میر درد کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔جمیل الدین عالی کی عمر قریبا 90 برس تھی اور وہ طویل عرصے سے علیل تھے۔ جمیل الدین عالی نے نظمیں ، دوہے، ملی نغمے اور گیت تحریر کرنے کے علاوہ ہزاروں اشعار پر مبنی ایک طویل رزمیہ نظم انسان پر کام کررہے تھے جسے اردو ادب کا ایک شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔جمیل الدین عالی نے کئی حکومتی محکموں میں بطور افسر اور بیوروکریٹ اپنی خدمات انجام دیں اور اعلی عہدوں پر متمکن رہے جبکہ صدر ایوب خان کے عہد میں پاکستان رائٹرز گلڈ انہی کی کاوشوں سے وجود میں آئی جس کی ترقی اور فروغ کے لیے وہ ہمہ تن کوشاں رہے۔ ان کے کالم دنیا بھر میں مقبول ہوئے اور ان کے تحریر کردہ ملی نغمے آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔ جمیل الدین عالی بابائے اردو مولوی عبدالحق کے شاگرد رہے اور ابنِ انشا سے لے کر قدرت اللہ شہاب تک کے رفیقِ کار رہے ۔انجمن ترقی اردو اور اردو ڈکشنری بورڈ کے تحت جمیل الدین عالی نے لازوال کوششیں کیں اور پاکستان رائٹرز گلڈ سے ادیبوں کے لیے خصوصی ایوارڈز کا اجرا کیا جو کئی برس تک جاری رہا۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ اور مستقبلیات کی جھلک بھی ملتی ہے۔ جمیل الدین عالی نے لگ بھگ 50 برس تک کالموں کا سلسلہ جاری رکھا اور ان کے کالم آج بھی تروتازہ محسوس ہوتے ہیں۔ آخر وقت میں وہ پاکستان میں مستقبلیات (فیوچرولوجی) کے فروغ اور استعمال کے پرزور حامی رہے۔جمیل الدین عالی نے دودرجن سے زائد ملی نغمے اور گیت قلمبند کئے جن میں سے کئی ایک آج بھی مقبول ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں:جگ جگ جیے میرا پیارا وطن،،اللہ کے وعدے پہ مجاہد کو یقیں ہے۔۔سوہنی دھرتی اللہ رکھے ، قدم قدم آباد تجھے۔۔میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں پر کام کروں گا بڑے بڑے۔۔ہم مائیں ، ہم بہنیں ، ہم بیٹیاں۔۔۔۔جو نام وہی پہچان ، پاکستان ، پاکستان،،اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دیا۔۔۔انہوں نے سفرنامے ، دوہے، غزلیں، نظمیں، نثر، اور کالم تحریر کئے جن میں سے ہر تخلیق کا انداز جداگانہ ہے جو ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔ عالی جی نے بینکاری اور مالیات کے شعبے میں بھی اپنی لازوال خدمات انجام دیں جو ان کی ہمہ گیر شخصیت کو ظاہر کرتی ہیں۔جمیل الدین عالی کو ان کی ناقابلِ فراموش خدمات کے صلے میں کئی اہم اعزازات سے نوازا گیا جن میں ستارہ امتیاز، آدمجی ادبی ایوارڈ اور کمالِ فن ایوارڈ قابلِ ذکر ہیں۔جمیل الدین عالی گزشتہ تین روز سے نجی ہسپتال میں زیرِ علاج تھے جہاں حرکتِ قلب بند ہونے پر وہ انتقال کرگئے تھے۔ جمیل الدین عالی کی وفات پر وزیرِ اعظم نواز شریف، صدرِ مملکت ممنون حسین اور وزیرِ اعلی پنجاب شہباز شریف نے گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔

مزید :

صفحہ اول -