کیا پاک افغان تعلقات کا نیا دور شروع ہونیوالا ہے ؟

کیا پاک افغان تعلقات کا نیا دور شروع ہونیوالا ہے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری
  اگرچہ افغانستان کے حکمران پاکستان کے خلاف بیان بازی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور ان کے بارے میں یہ پیش گوئی کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ وہ کس وقت کیا کہہ دیں، بعض اوقات تو حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان کے خلاف ان کی اچانک بیان بازی کی وجہ کیا ہوسکتی ہے لیکن پیر کے روز پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور افغانستان کے وزیر خزانہ عقلیل حکیمی کی مشترکہ پریس کانفرنس کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کا نیا دور شروع ہونے والا ہے، پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے حالیہ دورۂ امریکہ کے بعد بھی یہ امید کی جاسکتی ہے کہ امریکہ افغانستان حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا اور افغان حکام کو علاقے میں امن و امان کے لئے اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کرے گا، اس امر کا بھی امکان پیدا ہوگیا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع ہو جائیں، جن کا ایک دور اسلام آباد میں ہوا تھا لیکن پھر افغان حکومت کی جانب سے ملا عمر کے انتقال کی خبر منظر عام پر آگئی اور مذاکرات میں تعطل آگیا جو اب تک جاری ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ اگلا دور کسی دوسرے ملک میں ہو، چین کا نام بھی اس سلسلے میں لیا جا رہا ہے، تازہ ترین خبر یہ ہے کہ قطر میں طالبان نے اپنا دفتر پھر قائم کرلیا ہے۔ حامد کرزئی کے دور میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطر میں مذاکرات شروع ہوئے تھے لیکن عجیب بات ہے کہ مذاکرات کا یہ غنچہ بن کھلے اس لئے مرجھا گیا کہ حامد کرزئی کو اس دفتر کے باہر لگی ہوئی تختی پر اور دفتر کے اوپر لہراتے جھنڈے پر اعتراض تھا۔ طالبان اپنے آپ کو اسلامی دولت افغانستان کا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں، جبکہ کرزئی کا موقف تھا کہ اس نام کا کوئی ملک دنیا کے نقشے پر موجود نہیں ہے۔ دفتر پر لہرانے والے جھنڈے پر بھی حامد کرزئی کو اعتراض تھا، چنانچہ مذاکرات نہ ہوسکے۔ بعد میں قطر کا یہ دفتر بھی بند ہوگیا اور کئی سال تک بند ہی رہا، اب اگر دوبارہ دفتر قائم ہوا ہے تو اس کی وجہ صرف یہی نظر آتی ہے کہ طالبان سفارتی محاذ پر دوبارہ متحرک ہورہے ہیں۔
مشرق وسطی میں داعش کی سرگرمیاں بھی امریکہ اور مغرب کے لئے تشویش کا باعث ہیں۔ پیرس کی حالیہ دہشت گردی نے پورے یورپ میں سنسنی کی ایک لہر دوڑا دی ہے، امریکہ اور اس کے حلیفوں کافوکس اب مشرق وسطیٰ ہوگیا ہے۔ بان کی مون نے روس اور امریکہ کو متحد ہو کرداعش کے خلاف کارروائیوں پر زور دیا ہے ‘ فرانسیسی آرمی چیف نے تو یہاں تک کہا کہ داعش کے خلاف فوری کامیابی کا امکان نہیں اس دوران یہ تشویش ناک اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ بھارت داعش کو افغانستان میں قدم جمانے میں معاونت کر رہا ہے۔ اس کا واضح مطلب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کسی قسم کے سمجھوتے کی راہ روکنا ہے، بھارت کا خیال ہے کہ اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی مفاہمت ہوگئی یا طالبان افغان حکومت میں شمولیت پر رضامند ہوگئے تو افغانستان میں بھارت کے لئے مشکل حالات پیدا ہو جائیں گے۔ بھارت کی جانب سے داعش کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی خبروں کے ساتھ ساتھ یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک بار پھر بہتر تعلقات کا نیا دور شروع کرنے والے ہیں۔ اس کے اشارے افغان وزیر خزانہ کے دورۂ پاکستان اور پاک افغان مشترکہ اقتصادی کمیٹی کے اجلاس سے ملتے ہیں جن میں ایک تو یہ طے کیا گیا ہے کہ طورخم جلال آباد شاہراہ اگلے سال تک مکمل ہو جائیگی۔ دونوں ملکوں میں تجارت کا حجم بڑھا کر پانچ ارب ڈالر تک لے جانے کا منصوبہ ہے جو اس وقت ڈھائی ارب ڈالر بتائی جاتی ہے لیکن یہ وہ تجارت ہے جو دستاویزی ہے اور جس کی ٹرانزیکشن بینکوں کے ذریعے ہوتی ہے، دونوں ملکوں میں پاکستانی کرنسی میں تجارت بھی ہوتی ہے جس کا لین دین اپنے اپنے طور پر تاجر کرتے ہیں، اس تجارت کو بھی اگر شامل کیا جائے تو اس وقت بھی ساڑھے تین سے چار ارب ڈالر کی تجارت دونوں ملکوں میں ہو رہی ہے اور اسے بڑھا کر چھ سات ارب تک لے جایا جا سکتا ہے جو بڑی امید افزا بات ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ دونوں ملکوں میں سمگلنگ کا ایک بڑا ذریعہ ہے، افغانستان کے تاجر ٹرانزٹ کے نام پر ایسی اشیا بھی بڑے پیمانے پر درآمد کر لیتے ہیں جن کی افغانستان میں کوئی مارکیٹ نہیں۔یہ چیزیں پاکستان میں فروخت کے لئے منگوائی جاتی ہیں اور یہیں فروخت ہوتی ہیں، تاہم پاکستان نے اب ان کی مانیٹرنگ کا زیادہ بہتر انتظام کر لیا ہے اور الیکٹرانک مانیٹرنگ سسٹم سے دیکھا جاتا ہے کہ ایسی اشیاء پاکستان میں اتارکر ان کی جگہ کنٹینروں میں گندم چینی وغیرہ تو نہیں بھر دی گئی، اجلاس میں چمن کو قندھار اور پشاور کو جلال آباد کے ساتھ ریلوے لنک کے ذریعے ملانے پر بھی بات چیت کی گئی، افغانستان ایسا ملک ہے جہاں اکیسویں صدی میں بھی ریل کا وجود نہیں ہے۔ غالباً اس کی وجہ دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے، تاہم اگر اس منصوبے پر عملی کام شروع ہوتا ہے اور افغانستان کے دو شہر (قندھار اور جلال آباد) ریل کے ذریعے پاکستان سے مل جاتے ہیں تو ایک کرشمہ ہوگا۔ اس طرح تجارتی سرگرمیاں بڑھ جائیں گی اور مسافروں کو آمدورفت کے لئے آسانی ہوگی، اس وقت دونوں ملکوں میں تجارت سڑک کے راستے ہوتی ہے۔ جلال آباد تک جدید شاہراہ مکمل ہونے کے بعد کابل تک رسائی آسان ہو جائیگی جہاں چین کے تعاون سے پہلے ہی جدید شاہراہ بنائی گئی ہے۔ رحمن بابا میں ایک ہزار طلباء کے لئے ہوسٹل کی تعمیر بھی اگلے سال تک مکمل ہو جائیگی۔
ترکمانستان سے جو گیس پائپ لائن پاکستان تک اور یہاں سے بھارت تک لے جانے کا منصوبہ ہے اس کا تمام تر انحصار افغانستان کے پرامن حالات پر ہے کیونکہ جب تک ایسا نہیں ہوگا اس وقت تک پائپ لائن محفوظ تصور نہیں ہوگی اور تحفظ کی ضمانت کے بغیر کوئی بھی کمپنی اپنی سرمایہ کاری کو خطرے میں نہیں ڈالے گی۔
اگلے کئی سال تک امریکہ نے افغانستان فوج کے تنخواہوں وغیرہ کے اخراجات برداشت کرنے ہیں اِس لئے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ افغانستان حکومت پر کتنا دباؤ ڈال سکتا ہے۔کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنائے۔بلیم گیم سے گریز کرے اور جو دہشت گرد یہاں سے فرار ہو کر افغانستان میں جاتے ہیں اُن کے خلاف کارروائی کرتے تاکہ وہاں وہ اپنے ٹھکانے نہ بناسکیں جنر ل راحیل شریف نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران اس ضمن امریکی حکام سے تفصیلی بات چیت کی ہے اور اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ افغانستان کے تعاون کے بغیر دہشت گردی کی جاری جنگ کامیاب نہیں ہو سکتی۔

مزید :

تجزیہ -