اسلامی معاشی نظام کی نشاۃ ثانیہ کے لیئے اجتہاد کیجئے

اسلامی معاشی نظام کی نشاۃ ثانیہ کے لیئے اجتہاد کیجئے
اسلامی معاشی نظام کی نشاۃ ثانیہ کے لیئے اجتہاد کیجئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلام اپنے ماننے والوں کو جو معاشی نظام پیش کرتا ہے، وہ نظام آج کے دئیے نظام کے برعکس اسلام کے روایتی تصورات یعنی مساوات، رواداری، معاشرتی انصاف پر مبنی ہے۔ اسلام اس بات کا قلع قمع کرنے پر زور دیتا ہے کہ ایک انسان اپنی دولت کے بل بوتے پر مزید دولت کماتا جائے اور بالاخر دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو کے رہ جائے۔ انہی تصورات کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے اسلام صدقات اور زکوۃ کے ذریعے معاشرے میں دولت کی گردش کو یقینی بناتا ہے۔ اس کے علاوہ وراثت کے قوانین کے ذریعے یتیموں اور بیواوں اور پس ماندگان کے تحفظ کا انتظام کرتا ہے۔ اپنے ماننے والوں کے مزید تزکیہ کے لئے اسلام فقر اور سادگی کو اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ تجارت کے معاملات میں اسلام سود کو مکمل ختم کر کے لین دین کو فروغ دیتا ہے۔دھوکہ دہی سے کی تجارت، منافغ خوری اور ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے تاکہ زندگی لوگوں پر آسان رہے۔
اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام کا پرتو، موجودہ معاشی نظام انسانیت کے سب ہی تصورات کی نفی پر مبنی ہے۔ تجارتی اورکاروباری دنیا کے نام پر ایک طرف اخلاقیات کا جنازہ اٹھا دیا گیا ہے تو دوسری طرف کام کرنے والوں کو مشین بنا دیا گیا ہے۔ ایک طرف یہ نظام زندگی کو اتنا مشکل بناتا جا رہا ہے کہ خواتین کو اپنی جنت تج کر اور اپنی ذات مار کر معاشی دھارے کا حصہ بننا پڑ رہا ہے اور دوسری طرف یہ نظام انہی خواتین کو محض اپنی مصنوعات کی تشہیر کا ذریعہ بناتا ہے۔ کچھ ادارے اگر اپنے آپ کو اسلامی روایات میں ڈھال رہے ہیں تو ان کا مقصد محض ایسے طبقے کو متاثر کرنا ہے جو آج بھی اسلامی روایات کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔
دوسروں کے گلے کاٹ کر بھی آگے بڑھنے میں یقین رکھنے والا یہ نظام منافع خوری، ذخیرہ اندوزی کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیز کے نام پر ایسے ادارے وجود میں ؤ چکے ہیں جن کی تشکیل کا واحد مقصد پیسہ کمانا ہے۔ یہ ادارے جس ملک میں جاتے ہیں وہیں کے حلال اور حرام کو اپنا لیتے ہیں۔ مصنوعات کی تشہیر کے لیئے بنائی جانے والے اشتہارات ایک طرف لوگوں میں احساس کمتری پیدا کر رہے ہیں اور دوسری طرف ان میں اخلاق باختگی کی کوئی حد متعین نہیں۔ان کے مقابل اسلام کا وہ نظام ہے کہ اصحاب شرم کے مارے مہمان کو اپنے گھر مدعو کر لیتے ہیں۔ اور اس کے بعد مہمان کی خاطر داری کے لیئے اپنے بچوں کو بھوکا سلا لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جب اللہ اور اس کا رسولﷺ ان کی طرف دیکھتے تھے تو مسکراتے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے کہ اللہ کی رحمت ان کے ایک دفعہ پکارنے کے انتظار میں ہوتی تھی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی مدد کو فرشتے آسمان سے نازل ہو جاتے تھے۔
اس سب کے باوجود اس نظام باطل کی چکاچوند ایسی ہے کہ ہر کس و ناکس اس نظام کا حصہ بننے کو دوڑا جا رہا ہے۔ بزرگی کا معیار اب تقوٰی کی بجائے معاشرتی قبول عام ہے۔ عزت اب اخلاق کی بجائے دولت کی ہے۔ تاہم یہ طے ہے کہ ظلم کے نظام کی عمر کتنی ہی طویل کیوں نہ ہولیکن یہ نظام بالاخر اپنے کھوکھلے پن کی وجہ سے تباہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ سود درسود کما کے امیر ہوئے لوگوں کے خلاف معاشرے جب بغاوت کرتے ہیں تو قبروں سے باہر پناہ نہیں ملتی۔ ایسے میں جب یہ معاشرہ کسی ایسے نظام کی تلاش میں نکلے گا جو جامع بھی ہو اور ظالم بھی نہ ہو تو اسلامی معاشی نظام ہی اس معاشرے کی بقاء اور سلامتی کا ضامن ٹھہرے گا۔ تاہم اس وقت کے انتظار میں مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے کی بجائے مسلم امہ کو چاہیئے کہ اجتہادکے ذریعے آج کی تجارت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اسلامی معاشی نظام کی نشاۃ ثانیہ کے لیئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کریں۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -