شریف خاندان کو درپیش چیلنج
سابق وزیر اعظم نوازشریف ا ور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی والدہ محترمہ بیگم شمیم اختر 94 برس کی عمر میں لندن میں انتقال کر گئیں۔ ان کی میت پاکستان لائی جائے گی نماز جنازہ شریف میڈیکل سٹی میں ہوگی۔ انہیں جاتی امرا میں سپرد خاک کیا جائے گا مرحومہ کی صاحبزادی جسدِ خاکی کے ساتھ آ رہی ہیں، مریم نواز نے اپنے والد نوازشیریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ میت کے ساتھ پاکستان نہ آئیں کیونکہ مخالفین انتقام میں اندھے ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو جو نیب کیسز میں جیل میں ہیں پیرول پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ تعزیت کے لئے جاتی امرا جا رہے ہیں۔
اتفاق کی بات ہے کہ نوازشریف کے والد میاں محمد شریف کا انتقال سعودی عرب میں اس وقت ہوا تھا جب پورا خاندان وہاں جلا وطنی کی زندگی گزار رہا تھا تب بھی میاں نوازشریف اپنے والد کی میت کے ساتھ پاکستان نہیں آ سکے تھے کیونکہ اس وقت کی حکومت نے آنے کی اجازت نہیں دی تھی جس کا موقف تھا کہ وہ معاہدہ کر کے گئے ہیں اس لئے دس سال سے پہلے واپس نہیں آ سکتے۔ اب ان کی والدہ کا انتقال بھی ایسے عالم میں ہوا ہے جب وہ علاج کے لئے لندن میں ہیں مگر حکومت انہیں واپس لانے کے لئے کوشاں ہے تاہم تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ ان کے معالجین نے انہیں سفر سے منع کر رکھا ہے اس لئے وہ نہیں آسکیں گے۔
نوازشریف تین دفعہ وزیر اعظم رہے جب ان کے والد حیات تھے وہ بطور وزیر اعظم بھی ان کے سامنے نظریں جھکا کر کھڑے رہتے تھے اور جب تک انہیں بیٹھنے کے لئے نہ کہہ دیا جاتا وہ کھڑے رہتے۔ اپنی والدہ کے ساتھ بھی ان کے احترام کا یہی عالم تھا وہ لاہور میں رہتی تھیں اور ان کا وزیر اعظم بیٹا انہیں ملنے کے لئے باقاعدگی سے لاہور آتا تھا جس پر ان کے مخالف حلقے نکتہ چینی بھی کرتے اور طرح طرح کے فقرے بھی چشت کرتے رہے لیکن وہ اپنے معمولات پر سختی سے کاربند رہے، ان کے بعض ”بہی خواہوں“ نے بھی انہیں مشورہ دیا کہ وہ نکتہ چینی سے بچنے کے لئے لاہور کم آیا کریں تو ان کا جوب ہوتا ”والدہ کو ملنے کے لئے بھی نہ آؤں۔“
نوازشریف جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں جیل میں تھے اور ابھی جلا وطن نہیں ہوئے تھے تو ان کے والد نے فیصلہ کیا کہ کلثوم نوازشریف ان کی غیر حاضری میں سیاست میں حصہ لیں گی اس وقت تک شریف خاندان کی کوئی خاتون سیاست میں نہیں تھی میاں محمد شریف کے فیصلے کے بعد جب کلثوم نواز نے میدانِ سیاست میں قدم رکھا تو انہوں نے بہت جلد اپنا نقش جمانا شروع کر دیا اور کہا جاتا ہے کہ شریف خاندان کی جلا وطنی میں دوسرے عوامل کے علاوہ کلثوم نواز کی سیاسی سرگرمیوں کا بھی بڑا حصہ تھا، میاں محمد شریف اگرچہ سیاستدان نہ تھے لیکن سیاسی امور پر ان کی گہری نظر تھی اور وہ سیاست میں اپنے بیٹوں کی رہنمائی کرتے تھے، سعادت مند بیٹے (بالخصوص نواز شریف) بھی بلا چون و چرا ان مشوروں کو قبول کرتے اور اس کی روشنی میں سیاسی فیصلے کرتے۔
نوازشریف کی والدہ گھریلو خاتون تھیں، سیاست میں ان کا عمل دخل نہ تھا لیکن ان کی دعائیں مسلسل ان کے شاملِ حال رہتیں۔ انہی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ وہ مشکل سے مشکل صورتِ حال سے کامیابی کے ساتھ نکل آتے 2018ء کے الیکشن سے پہلے نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز لندن سے لاہور آکر سیدھے جیل چلے گئے تھے۔ الیکشن کے دوران بھی وہ جیل میں تھے اور سزا بھگت رہے تھے کہ اس دوران ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی حکومت نے میڈیکل بورڈ بنائے جن کی سفارش پر انہیں ایک بار پھر باہر جانے کی اجازت دے دی گئی یہ مشکل ترین صورتِ حال تھی اور بظاہر جیل سے نکلنے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا تھا لیکن اپنی والدہ کی دعاؤں کے نتیجے میں انہیں اس میں کامیابی ہوئی۔ اب لندن میں ان کی والدہ بھی ان کے ساتھ تھیں ضعیف العمری کی وجہ سے وہ طویل عرصے سے ویل چیئرپر تھیں اور نوازشریف کو جب بھی موقع ملتا وہ اپنی والدہ کی ویل چیئر خود چلاتے، جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے وہ بڑھاپے میں اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں نوازشریف اور شہباز شریف کو جو خصوصی سعادت حاصل رہی ایسے مظاہر خال خال ہی دیکھے جاتے ہیں وہ اس لحاظ سے بہت خوش قسمت تھے کہ انہوں نے اپنے والدین کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ان کی اولادوں میں بھی یہ خوبی موجود ہے کہ وہ بزرگوں کے احترام کا خصوصی خیال رکھتے ہیں۔
بیگم شمیم اختر کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر میاں محمد شریف کے انتقال کے بعد بھی خاندان کو متحد رکھا، سیاست میں بہت سے ایسے مواقع آئے جب دونوں بھائیوں کے تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی بھرپور کوششیں کی گئیں اس مقصد کیلئے شہبازشریف کو پرکشش تراغیب بھی دی گئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنے بھائی کی نسبت مقتدر حلقوں کے لئے زیادہ قابل قبول ہیں، شہبازشریف کو اعتدال پسنداور نوازشریف کے بیانیئے کو ناقابل قبول قرار دیا گیا، یہ بھی کہا گیا کہ شہباز اپنی مسلم لیگ الگ بنا لیں اور بھائی کا ساتھ چھوڑ دیں آج تک ایسی کوششوں کو ترک نہیں کیا گیا اور ”نون“ میں سے ”شین“ نکالنے کے اعلانات بہت سے وزراء اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں لیکن ابھی تک ایسا حادثہ نہیں ہوسکا اور دونوں بھائی متحد ہیں اس اتحاد میں پہلے ان کے مرحوم والد اور اب ان کی والدہ کا بڑا کردار تھا۔ ہر انسان کو کسی نہ کسی مرحلے پر والدین کی دعاؤں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ نوازشریف بھی اس اٹل کلیئے سے مستثنیٰ نہیں ہیں سو وہ بھی پہلے باپ کی شفقت اور دعاؤں سے محروم ہوئے اور اب والدہ بھی انہیں تنہا چھوڑ کر اپنی اگلی منزل کی طرف رواں ہوگئی ہیں۔ شریف خاندان کو جومشکلات درپیش ہیں ان سے ہر شخص واقف ہے، ان کا ”انتخابی حلقہ“مستحکم ہے، ان کے حامیوں کی بھاری تعداد ان سے جڑی ہوئی ہے، لیکن انہیں عدالتی محاذ پر جو چیلنج درپیش ہیں ان کو دیکھتے ہوئے کچھ نہیں کہا جاسکتا، مستقبل ہموار یا دشوار ہوگا۔ اس کے لئے سب کو انتظار کرنا پڑے گا۔