جمہوریت اور فاشزم
جمہوریت ایک ایسا نظامِ حکومت ہے جو اس وقت دنیا کے بڑے حصے میں رائج ہے۔ سیاسی مفکرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کوئی آئیڈیل نظام ِحکومت نہیں لیکن اُن کا کہنا یہ ہے کہ ابھی تک اِس سے بہتر نظام دریافت نہیں ہو سکا۔ اِس نظام میں غلط لوگ بھی منتخب ہو جاتے ہیں اور ویسے بھی کیونکہ اِس کی بنیاد جمہور کی آواز ہے اِس لئے اس میں کسی دانشور یا پارسا شخص کے منتخب ہونے کی اُمید نہیں رکھنی چاہئے۔ ووٹنگ کے عمل میں نسلی، علاقائی اور مذہبی تعصبات بھرپور کردار ادا کرتے ہیں اِس لئے سو فیصد میرٹ کی توقع بھی فضول ہے۔ وراثتی فیکٹر بھی بہت اہم رول ادا کرتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں ہو رہا ہے لیکن یہ فیکٹر صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ اردگرد دیکھیں تو بھارت، بنگلا دیش اور سری لنکا جیسے ملکوں میں یہ فیکٹر کلیدی کردار ادا کرتا رہا ہے اور کئی ملکوں میں اب بھی کر رہا ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی اِس عنصر کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ بش، کینیڈی اور کلنٹن جیسے خاندانوں کی گونج واضح سنائی دیتی ہے پھر یہ اتنا سست رفتار نظام ہے کہ لوگ اِس سے تنگ آ جاتے ہیں اور بیتابی میں کچھ اور سوچنے لگ جاتے ہیں۔ پھر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ نظام کئی عملی شکلیں بدل لیتا ہے لیکن ٹیگ جمہوریت کا ہی لگا رہتا ہے۔حال ہی میں امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے دو ممتاز پروفیسروں Steven levitsky اور Daniel Ziblatt نے ایک کتاب لکھی ہے کتاب کا نام ہے۔
How Democracies Die, What listing reveals about our future.
دونوں پروفیسرز سالہا سال سے اکٹھے دنیا میں جمہوریت سے متعلق مسائل پر ریسرچ کرتے رہے ہیں اور انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں لیکن اب انہوں نے اپنے ملک میں ڈیموکریسی کے زوال پر قلم اُٹھایا ہے اُن کے خیال میں امریکہ میں کچھ عرصے سے زوال کا یہ عمل جاری ہے لیکن اب یہ نمایاں ہو گیا ہے کیونکہ پہلی دفعہ ایک ایسا شخص یعنی ٹرمپ امریکہ کا صدر بنا جسے حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں اور جمہوری قدروں کے ساتھ اُس کے لگاؤ کا بھی کوئی سراغ نہیں ملتا۔ وہ کہتے ہیں تھائی لینڈ، وینزویلا، چلی، پاکستان اور کئی اور ملکوں میں جمہوریت کا زوال فوج کی مداخلت یا تشدد کے ذریعے ہوا لیکن بہت سے ملکوں میں یہ زوال منتخب لیڈروں کی سوچ اور پالیسوں کے نتیجے میں آیا۔ اس قسم کے جمہوری زوال کو پہچاننا کبھی کبھی عام آدمی کے لئے مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ بظاہر انتخابات بھی ہوتے ہیں اور اکثر پالیسیاں پارلیمنٹ سے پاس ہوتی ہیں اور عدالتیں بھی ایسی پالیسیوں پر صداقت کی مہر لگا دیتی ہیں۔ یوں عام آدمی کچھ کنفیوژ ہو جاتا ہے یعنی وہ نظام عملی طور پر جمہوریت سے ڈکٹیٹر شپ یا فاشزم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ تاریخ میں ہٹلر اور مسولینی کی مثالیں بڑی نمایاں ہیں۔ فلپائن میں مارکوس نے یہی طریقہ اختیار کیا لیکن جمہوریت سے آمریت کی طرف سفر کیسے طے ہوتا ہے یہ ایک دلچسپ مطالعہ ہے۔ ایک بات تو یہ کہ اس سفر میں پروپیگنڈے کا بڑا رول ہے۔ پروپیگنڈے کی اہمیت آج کے زمانے میں بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ گوئبلز کے یہ الفاظ تو آپ نے سُنے ہوں گے کہ جھوٹ اتنے تواتر سے بولو کہ سچ لگنے لگے۔ آجکل ٹیکنالوجی کا دور ہے اس لئے پروپیگنڈے کیلئے ٹیکنالوجی بہت کام آتی ہے پھر بعض ملکوں میں ایسے لیڈر منتخب ہو جاتے ہیں جنہیں انگریزی میں Demagogue کہتے ہیں۔ ویسے تو تقریر کا فن کئی شعبوں میں بہت مفید ثابت ہوتا ہے لیکن سیاست میں یہ ایک بہت مؤثر ہتھیار ہے جو سیاستدان Articulate نہیں وہ پاپولر نہیں ہو سکتا۔ Demagogue ایسے ایشوز سامنے لے آتا ہے اور پھر بڑے جذباتی اور مؤثر انداز میں اپیل کرتا ہے۔ اور ان اہم ایشوز پر پیشرفت کیلئے اسے زیادہ اختیارات دیئے جائیں یوں وہ پاپولر ایشوز کو بنیاد بنا کر اتنی طاقت حاصل کر لیتا ہے کہ نامعلوم طریقے سے مروجہ جمہوری پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد کرا لیتا ہے۔ جمہوری روایات سے انحراف کے ساتھ ساتھ ہر مخالف آواز پر پہرے بٹھا دیتا ہے یوں ریاست یکطرفہ سوچ کی اسیر ہو جاتی ہے۔ متبادل سوچ اور متبادل شخصیات کو برداشت نہیں کیا جاتا۔
مصنفین نے جمہوریت سے آمرت اور فاشزم تک کے سفرکو سمجھنے کیلئے باقاعدہ ایک چارٹ بنایا ہے۔ چارٹ میں چار پوائنٹ ہیں۔ پہلا نکتہ ہے جمہوریت میں رولز آف دی گیم کو بالکل رد کرنا یا ان سے کمزور وابستگی رکھنا۔ مثلاً کیا حکومت آئین کو ناقابل عمل سمجھ کر رد کرتی ہے یا آئین کی خلاف ورزی پر تیار رہتی ہے؟ کیا حکومت غیرجمہوری رویوں مثلاً انتخابات کو ختم کرنے، آئین کو معطل کرنے، کچھ تنظیموں کو غیرقانونی قرار دینے یا بنیادی حکومت معطل کرتی ہے؟ کیا غیرآئینی طریقے سے حکومت کو تبدیل کیا جاتاہے مثلاً مارشل لاء کے ذریعے یا منظم اور مسلسل احتجاج کے ذریعے؟ کیا انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
پوائنٹ نمبر 2۔ سیاسی مخالفین کی حیثیت کو تسلیم نہ کرنا۔ کیا حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو تخریبی عناصر قرار دیتی ہے؟ کیا حکومت اپنے سیاسی مخالفین کو قومی سلامتی کیلئے ایک خطرہ قرار دیتی ہے؟ کیا سیاسی مخالفین کو جرائم پیشہ قرار دے کر سیاسی عمل میں اُن کی شرکت کو روک دیتی ہے؟ کیا مخالفین کو غیرملکی ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ تیسرا پوائنٹ۔ تشدد کو برداشت کرنا یا حوصلہ افزائی کرنا مخالفین کا تعلق کسی مسلح تنظیم پیرا ملٹری یا گوریلا گروپ سے ثابت کرنا اور چوتھا پوائنٹ سیاسی مخالفین کی آزادیوں اور میڈیا پر پابندیاں لگانا۔ کیا حکومت احتجاج کو روکنے اور شہری آزادیوں اور حکومت پر تنقید کے خلاف قوانین کی حمایت کرتی ہے؟ کیاحکومت سیاسی مخالفین، سول سوسائٹی اور میڈیا کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی دیتی ہے؟ کیا حکومت ماضی کی حکومتوں یا کچھ غیرملکوں میں ظالمانہ اقدامات کی حمایت کرتی ہے۔
مصنفین کے مطابق ان چار وسیع نقاط کے تحت کسی حکومت کے اقدامات اور رجحانات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس حد تک جمہوری اور کس حد تک مسلمہ جمہوری روایات سے انحراف کرکے آمریت اور فاشزم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔