اب تو مسئلہ حل ہو ہی گیا؟
فرزند ِ راولپنڈی شیخ رشید کا نیا بیان بڑا دلچسپ ہے اسے پڑھ کر ہی خیال آیا کہ آج کے کالم کی شروعات کے لئے موضوع مل گیا، انہوں نے فرمایا ہے کہ اب فیصلہ میرٹ پر ہو گا اور یہ ارشاد ان کو ملنے والی اس اطلاع کے بعد ہی فرمایا گیا کہ جی ایچ کیو کی طرف سے چھ لیفٹیننٹ جنرلز پر مشتمل جو سمری بھیجی گئی وہ سنیارٹی کے لحاظ سے بھجوائی گئی اور اس میں نام بالترتیب ہیں،اب اس میں محترم شیخ صاحب کا کمال یہ ہے کہ یکایک کچھ اور نوعیت کی پیشگوئیاں کرتے کرتے ان کو خیال آ گیا کہ اب بات موقع محل کے حوالے سے کرنا چاہیے ورنہ اس سے قبل انہوں نے فرمایا10 نومبر تک سب کچھ ہو جائے گا اور پھر جب یہ تاریخ قریب آتی چلی گئی تو کہنے لگے اس مہینے کے آخر میں جو ہونا ہے ہو گا اور موجودہ حکومت کے لئے بہتر نہیں ہو گا،اب انہوں نے اسم صفت کا سہارا لے لیا اور میرٹ کی بات کی ہے کہ سب کے سب فریق مطمئن رہیں کہ میرٹ تو پھر میرٹ ہوتا ہے، چاہے موجودہ وزیراعظم کا ہو یا پھر سابقہ وزیراعظم کا، فرزند ِ راولپنڈی خفیف تو کبھی ہوتے نہیں، ان کی ایک سے ایک بات ”باؤنس“ ہو جاتی ہے لیکن وہ مانتے نہیں اور اگلی تاریخ پر نکل جاتے ہیں،میں عرض کر دوں کہ ان کی اور ان کے لیڈر یا گورو کی خواہش تو پوری نہیں ہو گی نہ صرف یہ کہ ان کا پسندیدہ فرد کمان نہیں سنبھالے گا بلکہ وہ جس کو ناپسند فرماتے ہیں، اللہ اسی کے نام یہ قیادت لکھ چکا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اس بار واقعی سنیارٹی کو ہی شرط اول قرار دیا جائے گا کہ دوسری آپشن بھی موجود ہے، چھ نامزد جنرلز میں سے دو نئے عہدے پر فائز ہوں گے، ایک چیف آف آرمی سٹاف بنے گا تو دوسرے کو چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنا دیا جائے گا۔
اس امر کی طرف مسلسل توجہ دلائی جاتی رہی ہے کہ فوج کا اپنا نظم و نسق ہے جس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے،اور یہ بات بھی درست ہے کہ فوج کے تمام لیفٹیننٹ جنزلز اس اہلیت کے حامل ہوتے ہیں کہ تین کے بعد چار ستارے والے جنرل بن سکیں، لیکن یہاں تو فیصلہ ہی سنیارٹی کے حوالے سے ہو چکا ہوا ہے اور یقینا اسی پر عمل ہو گا اور یہ بھی ایک مثال بنے گی کہ اس سے قبل یہ نہیں ہوا ہو گا،اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ فیصلہ تو کئی روز قبل ہی ہو چکا تھا،باقی سب مراحل تھے جو اب پورے ہو گئے کہ ادھر جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اپنی بات پر قائم رہے اور اب ان کی الوداعی ملاقاتیں بھی مکمل ہو چکیں اور وہ اب تبدیلی کے عمل کے لئے تیار ہیں۔
گزشتہ دِنوں سے ملک میں جو ہنگامہ برپا کیا گیا،اس کا مقصد کیا تھا اسے جاننے کے لئے نجومی ہونا ضروری نہیں کہ خان صاحب نے لانگ مارچ ایسے وقت شروع کیا،جب تعیناتی کا عمل شروع ہونے والا تھا اور پھر اسے متنازعہ بناتے چلے گئے۔شیخ رشید خود بھی پیچھے نہ رہے اور مسلسل کنفیوژن پیدا کرنے والے بیانات دیتے رہے،حالانکہ ان کو فرق نہیں پڑتا کہ انہوں نے تو ہمیشہ اسی جماعت کی حمایت کی جسے گیٹ نمبر4 سے اجازت ملی، چنانچہ اِس بار بھی کام تو ان کا یہی رہا لیکن عرصہ کچھ بڑھ گیا کہ وہ اب بھی عمران خان کے ساتھ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
دیر آید درست آید کے مصداق اب فیصلہ آ ہی گیا اور جس کا مقدر بھی چمکا اس کے کندھے پر ایک اور ستارہ جگمگائے گا،میں یہ عرض کر دوں کہ ہم لوگ سوشل میڈیا کے رونق میلے کی وجہ سے متاثر ہونے لگے ہیں ورنہ تو 13اپریل کو فارمیشن کمانڈرز کی میٹنگ کے بعد ہی ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے کہہ دیا تھا کہ جنرل باجوہ ریٹائرمنٹ کی متعینہ تاریخ پر ریٹائر ہو جائیں گے اور مدت ملازمت میں توسیع نہیں مانگیں گے اور یہ بات اب ثابت ہو گئی ہے۔
دوسری طرف پیالی میں اٹھایا جانے والا طوفان بھی اب تھم جانا چاہئے کہ پی ڈی ایم کی صفوں میں اس حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ہے،بلکہ جہاں کچھ تھا وہاں بھی حل کر لیا اور اب کے پی کے کی گورنر شپ کے لئے جمعیت علماء اسلام کے نامزد ہی گورنر ہوں گے۔سوال تو یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کو درپیش حقیقی مسائل پر توجہ دینا ہو گی اور اس میں حزبِ ختلاف کو تو اپنا عمل درست سمت کرنا لازم ہے لیکن حزبِ اختلاف کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ بھی اب سیاست کرے،اس کے لئے اسے قومی اسمبلی میں واپس جانا ہو گا۔یوں بھی انتخابات میں اب تھوڑا ہی وقت رہ گیا ہے اس لیے احتجاج کے لئے عوامی توجہ مبذول کرانے کی بجائے مثبت انداز کی سیاست کی جائے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو جو معاشی استحکام کی ضمانت ہے تاکہ عوامی مسائل کی طرف بھی توجہ مبذول ہو سکے۔
اِس وقت ملک کے سامنے جو مسائل ہیں،ان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی دیکھ بھال اولیت رکھتی ہے،لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے سردی کا مقابلہ کر رہے ہیں، ٹی ویز کی فوٹیج سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کا تعلق کس طبقے سے ہے یہ تو وہ لوگ ہیں جو پہلے بھی محرومیت کا شکار تھے اور تن کا رشتہ قائم رکھنے کے لئے محنت کرتے تھے اب انہی پر یہ مصبت نازل ہوئی وہ مزدوری کے بھی اہل نہیں رہے ان کو خوراک سے تن ڈھانپنے سے لے کر سر پر چھت کی بھی ضرورت ہے۔معاشرے میں عجیب افراتفری ہے قانون سے اغماض عام ہے،جرائم کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے،اسے بھی معاشی بدحالی سے جوڑا جا رہا ہے اور بڑی حد تک یہ درست بھی ہے،ڈالر کی قدر اس سطح پر نہیں آئی جہاں تک اسے لایا جانا تھا۔ یہ سب اس لئے ہے کہ اب قرضوں کی قسط کی ادائیگی تک محفوظ نہیں، یہ سب اتفاق رائے کا تقاضہ کرتا ہو اور حب الوطنی کا تقاضہ ہے کہ ایسا ہوا،اپنے اپنے منشور اور پروگرام پر رہتے ہوئے جمہوری اصولوں کے مطابق عمل کیا جائے۔