’چائے والا جی، چائے پیسٹری جی‘        (6)

Nov 24, 2024

شاہد ملک

 اگر اِن ناموں کو دنیاداری اور ایثار کی علامتیں سمجھوں تو بی بی سی لندن میں خدا بخش کِتنے تھے اور کریم بخش کتنے؟ خود اپنے باطن کے اکھاڑے میں بھی ایک بار خدا بخش اور کریم بخش کی ہاتھا پائی دیکھی۔ ورنہ پیدائشی کریم بخش تو بس علی احمد خاں تھے۔ دیارِ مغرب میں، جس کے لیے اکثر پاکستانی تب بھی کشتیاں وطنِ عزیز میں جلا کر روانہ ہوا کرتے، وہ مرحلہ بھی آیا جب ایک ایک کرکے سینئر ساتھیوں کی ریٹائرمنٹ سے ہم جیسوں کی ترقی کا امکان روشن ہونے لگا۔ مجھ سے بالا بالا جب خاں صاحب کی رائے لی گئی تو فرمایا: ”مَیں شاہد ملک کو بہتر سمجھتا ہوں۔ کم عمر ہے، اِس لیے زیادہ عرصہ کام کرے گا۔ دوسرے اُس کے مزاج میں شو بزنس والی بات بھی ہے۔“ مستقبل کے بارے میں مجھے ٹٹولا گیا تو میرے منہ سے بھی خاں صاحب کے لیے کلمہء خیر ہی نکلا۔ تو کیا ایک مچان پر دو کریم بخش سما سکتے ہیں؟ 

 کسی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ نے، جو لندن سکول اکنامکس کے گریجوایٹ ہیں، ایک مرتبہ سمجھایا تھا کہ آجر کی نظر میں سب سے خطرناک کارکن وہ ہے جو اصولی موقف پر ڈٹ جانے کی امکانی صلاحیت رکھتا ہو۔ اب یہ کہوں کہ بڑے کریم بخش کے سیڑھی اتر جانے پر چھوٹے کرییم بخش کو مچان سے جان بوجھ کر دھکا دیا گیا تو یہ فسانہ سازی ہو گی۔ ہم دیکھ چکے تھے کہ بڑوں میں رضا علی عابدی، وقار احمد اور آصف جیلانی جب جب اوپر گئے، اِس میں اہلیت کے ساتھ سینیارٹی کا اصول کار فرما رہا۔ چنانچہ سارہ نقوی کی ترقی کے وقت جب ہیڈ آف سروس کی سیکرٹری نے مجھے فون کر کے درخواست جمع کرانے کی ترغیب دی تو میرا جواب تھا کہ ایسی خاتون کا مدِمقابل کیسے بنوں جو عمر میں میری ماں سے کچھ ہی چھوٹی ہیں۔ انہی دنوں اردو پروگرام آرگنائزر اطہر علی ریٹائر ہو گئے۔

 چونکہ علی احمد خاں مجھے واک اوور دے چکے تھے، اِس لیے میرے انٹرویو کا نتیجہ جان کر سب کو تعجب ہوا۔ ہیڈ آف سروس ولیم کرالے نے فون پر کہا ”ہم قائل نہیں ہوئے کہ آپ بی بی سی میں کیریر بنانا چاہتے ہیں۔“ قائل تو مَیں بھی نہیں تھا۔ سو، کہہ دیا کہ ”ولیم، آپ کو اِدھر یا اُدھر فیصلہ تو کرنا تھا۔ وہ آپ نے کر لیا۔“ ”بڑا دلیرانہ ردِ عمل ہے، لیکن اگلے ہفتے کسی وقت مِلیں تاکہ آپ کے پیشہ ورانہ مستقبل پہ مزید صلاح مشورہ ہو سکے۔“ ”دیکھوں گا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔“ اور فون بند۔ مُوڈ اِس لیے خراب تھا کہ میری پرسونل آفیسر کی سالانہ چھٹی کے باعث ولیم کے ساتھ ایک ناواقف خاتون اہلکار نے انٹرویو لیا تھا۔ اُن کے ہمراہ اردو کے نئے انگریز نگران جن کا مسخرہ پن الگ مضمون کا متقاضی ہے۔ ڈیوڈ غیرملکی دورے پر تھے اور یوں پینل سے باہر۔ پھر بھی اِس رویے کی اصل وجہ اور ہے۔

 اصل وجہ ہے تحت الشعور میں بیٹھا مستقل وطن واپسی کا ارادہ مگر ساتھ ہی بیگم کے بقول ہمیشہ فرسٹ آنے کی دبی دبی تمنا۔ یہ کہ اگلے عہدے پر پہنچوں اور پھر مرضی سے استعفی دوں۔ پر کہتے ہیں فوج میں پسپائی کا عمل پیش قدمی سے زیادہ دشوار ہوتا ہے۔ اِس عمل میں بی بی سی ایشئین نیٹ ورک میں سینئر مگر عارضی تعیناتی ہوئی جہاں سے انگریزی سمیت چھ زبانوں میں مُلک گیر پروگرام نشر ہوا کرتے۔ پھر اردو کے کنٹریکٹ میں توسیع کی پیشکش پر جُزوقتی پروڈیوسر بننے کی استدعا کی جو قبول ہو گئی۔ یوں فارغ ایام میں چھوٹی کچہری سے عدالت عالیہ تک بطور کورٹ انٹرپریٹر میٹر ڈاؤن ہوا، بی بی سی لرننگ انگلش کے لیے ڈراموں میں پارٹ کیے اور سنٹرل آفس آف انفارمیشن میں فری لانس تراجم، پروف رِیڈنگ اور صداکاری کا موقع ملا۔ زندگی میں پہلی (اور آخری) بار تھا کہ اخراجات کم اور آمدنی کہِیں زیادہ۔

 اِس دوران ڈیوڈ پیج غیرملکی دورے سے لوٹے تو ایک سہ پہر اُن کی چائے پیسٹری میرا انتظار کر رہی تھی: ”تم نے مختلف النوع پروگرام کامیابی سے کیے مگر میری طرح تم بھی کام کا چرچا نہیں کرتے۔ ولیم بات کرنا چاہ رہے ہیں۔“ ”نہیں ڈیوڈ، مَیں پاکستان واپسی کا ارادہ رکھتا ہوں۔“ ڈیوڈ کے چہرے پر حیرت کی لہر پھیلی ”جلدی نہ کرو۔ ایسے فیصلے سوچ سمجھ کر کیے جاتے ہیں۔ بیوی کی کیا رائے ہے؟“ ”ابتدائی مشورہ تو اُنہی کا تھا، اب نجی ذرائع کی اضافی آمدنی نفسیاتی رکاوٹ بن رہی ہے۔ لیکن اِس وقت نہ گئے تو بچوں کی تعلیم کے بہانے اور فرضی تاویلیں گھڑ کر ہمیشہ واپسی کو ٹالتے رہیں گے۔“ حقیقی تاویل مرزا غالب والی تھی کہ وطن پہنچ کر ’ہم نے یہ مانا کہ دلی میں رہیں کھائیں گے کیا؟‘ اِس لیے منہ سے نکلا ”اگر لاہور میں بی بی سی کا کام مِل جائے تو مناسب ہوگا۔“ ”اچھا، کچھ کرتے ہیں۔“

 ہفتے بھر میں نامہ نگارِ پنجاب پر اردو کے نئے نگران کی پیشکش منکشف ہوئی کہ چلے جائیے مگر مشاہر ہ پاکستانی حساب سے مِلے گا، یعنی برطانوی کرنسی میں گزشتہ تنخواہ کا ایک چوتھائی۔ یہاں اردو کی دوسری کتاب کا لطیفہ یاد آیا جس میں ایک لڑکے کو بارش میں دیر ہوجانے پر ماسٹر سے کہنا پڑا ”راستے میں کیچڑ بہت تھا۔ مَیں ایک قدم آگے بڑھتا تو دو قدم پیچھے پھسل جاتا۔“ ”تو پھر تم اسکول کیسے پہنچ گئے؟“ ”جناب، مَیں نے اپنا منہ گھر کی طرف کر لیا تھا۔“ چالیس سالہ لڑکے کے لیے گھر واپسی کی مسافت گُل زمینوں کا سفر ثابت ہوئی۔ بس اپنی تسلی کی خاطر اُس وقت پونڈ کی قیمت پینتالیس روپے ہوتے ہوئے یہ منطق گھڑ لی تھی کہ برطانیہ میں ایک پونڈ جتنی چیزیں ہمارے یہاں دس روپے میں آ جاتی ہیں۔ جب تنگی محسوس ہوئی تو بی بی سی ایشیا کی ہیڈ الزبتھ بلنٹ اسلام آباد میں چُپکے سے ڈبل تنخواہ کا اشارہ دے گئیں کہ اب آپ صرف اردو کے نہیں بلکہ بی بی سی نیوز کے نامہ نگار ہیں۔

 واپسی کے کچھ ہی بعد پتا چل گیا تھا کہ ولیم کرالے اور ڈیوڈ پیج بی بی سی کا ساتھ چھوٹنے پر دوبارہ تحریر و تحقیق سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ لاہور میں ڈیوڈ آکر مِلے تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ دونوں سفید فام کریم بخش ’جنوبی ایشیا پر سیارچے‘ کے نام سے کتاب لکھنے میں مشغول ہیں۔ ڈیوڈ کی تحقیقی کارکردگی کی باضابطہ فہرست متحدہ پنجاب کی سیاست پر اوکسفرڈ میں ڈی لِٹ مقالے پر مبنی اولین تصنیف ’تقسیم کا راستہ‘ کی 1982ء میں اشاعت سے شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ آج شاید ہی کسی کو یاد ہو کہ ڈاکٹریٹ سے پہلے ایڈورڈز کالج پشاور میں بطور مدرس 1966-67 ء میں بھی ڈیوڈ پیج نے انگریزی زبان کے پاکستانی طلبہ کی عمومی غلطیوں پر ایک کتاب تحریر کی جس کا نیم مزاحیہ عنوان تھا ’پیج بائی پیج‘۔

 اب سے ڈھائی سال پہلے ہماری آخری ملاقات بھی عمر رسیدہ ڈیوڈ کی جیون ساتھی رُوتھ کی وہیل چئیر کے باوجود نیم مزاحیہ رہی۔ ایک تو راولپنڈی کے فلیش مین کی طرح ویسٹ ڈلِچ والے گھر کا انٹرویو بھی پونے دو گھنٹے چلا۔ دوسرے، چائے کے ساتھ کیک پیسٹری اڑاتے ہوئے موضوعات کی کوئی قید نہ تھی۔ مزاحیہ رنگ اُس دم اجاگر ہوا جب رُوتھ سے اجازت لے کر ڈیوڈ نے مجھے اور نبیلہ کو نواحی ریلوے اسٹیشن پر ڈراپ کرنے کے لیے کار نکالی۔ ہم سڑک کے اِس ہاتھ تھے اور دوسرے ہاتھ ریل گاڑی چلنے میں دو منٹ۔ ڈیوڈ نے بریک لگائی اور کہا ”زیبرا کراسنگ کو چھوڑو اور نکل جاؤ، ورنہ ٹرین چھوٹ جائے گی۔“ ٹریفک سے بچ بچا کر ہم نے لاہوری طریقے سے اسٹیشن کی سیڑھیاں پھلانگیں اور الوداعی ہاتھ ہلائے۔ ڈیوڈ کی کار اور ہماری ٹرین ایک ہی وقت روانہ ہوئی تھیں۔

 (ختم شُد) 

مزیدخبریں