اسلامی نظریاتی کونسل پر محبان وی پی این کے حملے

Nov 24, 2024

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

"اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کا استعمال غیر شرعی قرار دے دیا"۔ یہ وہ جملہ ہے جس کے سہارے ملک میں طوفان مچ گیا۔ مجھے تو علم ہی نہیں تھا کہ وی پی این ہوتا کیا ہے۔ چند واٹس ایپ گروپوں میں شامل ہوں۔ دیکھا کہ کیا مسٹر و ملا, کیا دایاں بازو کیا بایاں,  "پابندی لگتے" ہی سبھی ایک ہوگئے۔ بلا استثنا ملک و ملت، ملحد و مومن سبھی اسلامی نظریاتی کونسل پر سب و شتم کیے جا رہے ہیں۔ ایک گروپ میں وی پی این کے شیدائی تو تہجدانہ شب بیداری کر گزرے۔ بالعموم کسی مسئلے پر یہ احباب جہاں باہم توتکار کیا کرتے تھے، اب کی بار صبح پتا چلا کہ رات بھر سب میں کامل یکسوئی رہی۔ سبھی باہم پگڑی بدل بھائی بنے تھے۔ ہمارے مصلحین جو کام 70 - 80 سال تک نہ کر سکے کونسل کے ایک اپر ڈویژن کلرک کے ایک جملے نے قوم کو متحد کر دیا۔الحمدللہ۔

میں نے گن کر ایسے 10 محبان وی پی این سے پوچھا کہ کیا آپ نے کونسل کی رائے پڑھی ہے۔ اللہ گواہ ہے، کسی ایک نے بھی نہیں پڑھی تھی۔ جن کو بر بنائے عہدہ یہ رائے پڑھنا چاہیے تھی، وہ بھی بے پڑھے بول رہے تھے۔ اب جستجو ہوئی کہ وی پی این ہوتا کیا ہے۔ جواب ملا کہ جو کچھ بھی ہے، اس کا بڑا اور عام استعمال ذرا ناقابل بیان سا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ انٹرنیٹ کے اس استعمال کے آگے بے ہودہ ناول نگار وہی وہانوی اور ہینری ملر پانی بھرتے ہیں۔  پب جی کے رسیا بچوں سے ماں موبائل چھین لے تو ہم متعدد خبریں پڑھ چکے ہیں کہ بچے نے خود کشی کر لی۔ بڑے خود مختار ہوتے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل پر چڑھ دوڑنا آسان ہے۔

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ ایک اپر ڈویژن کلرک نے اپنی گفتگو کونسل کے پیڈ پر بطور پریس ریلیز جاری کر دی۔ دیکھا کہ تحریر کے عنوان اور متن میں مناسبت ہے ہی نہیں۔ عنوان میں کونسل سے یہ منسوب تھا کہ وی پی این کا استعمال غیر شرعی ہے۔ لیکن متن میں چیئرمین کی رائے ہے، کونسل کی نہیں۔ اس انفرادی رائے میں بھی کوئی لفظ نہ تو ملکی قانون  اور نہ شریعت کے خلاف پایا۔ پوری تحریر میں اسی پر زور ملا کہ حکومت کو انٹرنیٹ پر موجود غیر اخلاقی، ملک دشمن، توہین آمیز اور خلاف اسلام مواد کی بندش کا اختیار ہے۔ چونکہ بندش کے نتیجے میں لوگ وی پی این استعمال کرتے ہیں، لہذا حکومت کو اختیار ہے کہ وہ اسے رجسٹرڈ کرے۔

شرح شریعت، ملک و ملت اور عفت و حیا سے عاری، اور اپنی ذات کی تنگنائیوں میں محصور لوگوں سے بھلائی کی توقع کیوں کروں؟ تعجب تو ان معززین  پر ہے جن کی زندگی کونسل کے دفاع میں گزری۔ کیا سہ روزے والے اور کیا فریضہ اقامت دین کے پرچم بردار، کیا چالیسویں سالانے والے اور کیا ذاکرین کربلا، کیا توحید کے ناشرین اور کیا بدعات کے مدمقابل مجاہدین، یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ سب کالم نگار، قلم کار اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کے معصوم چیئرمین پر بے پڑھے تلواریں سونتے کھڑے ہیں۔ 25 سالوں سے ہر حکومت دینی مدارس کو دہشت گرد کہہ کر انہیں رجسٹرڈ کرنے اور ان کے اوقاف قبضے میں لینے کی کوششیں کرتی رہی، لیکن محبان وی پی این کو میں نے ہمیشہ خرگوش کے پہلو میں خراٹے لیتے ہوئے ہی دیکھا۔ وی پی این کا ذرا  نام کیا لیا گیا، سب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ کیا وی پی این جنت میں داخلے کی کوئی راہ گزر ہے۔

25 سال قبل موبائل فون آئے تو جنرل پرویز مشرف نے انہیں بے لگام چھوڑ کر تباہی پھیر دی۔ راہ چلتے ہر کوئی 50 روپے میں سم کارڈ خرید سکتا تھا۔ کوئی پکڑ نہ شناخت،  سوال نہ کوئی جواب۔ یہ سم کارڈ ہر کسی نے خریدے۔ معصوم شہریوں اور چوروں، لٹیروں، دہشت گردوں نے بھی لیے۔ سب نے اپنے مقاصد پورے کیے۔ پریشر ککر میں لوہے کے ٹکڑے کیلیں، کنکر پتھر اور آتش گیر مادہ رکھ کر انہیں سم کارڈ سے جوڑ دیا جاتا تھا، لیجیے بم تیار ہے۔ میلوں دور انگلی کی جنبش سے ہزاروں معصومین اس لا قانونیت کی نذر ہو گئے۔ ق لیگ کی حکومت اس مہلک مسئلے سے لا تعلق رہی، پیپلز پارٹی نے 5 سال پورے کیے، جب ملک کے کونے کونے سے ابلتا امنڈتا خون بند نہ ہوا تو بالآخر ریاست متحرک ہوئی۔ ساڑھے تین کروڑ سم کارڈ بغیر کسی شناخت کے شرفا اور جرائم پیشہ سبھی استعمال کر رہے تھے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کو جنرل پرویز مشرف کے بوئے یہ کانٹے پلکوں سے چننا پڑے تھے۔

وی پی این بلکہ پورے انٹرنیٹ کا مسئلہ سو فیصد انہی بے نام سم کارڈوں جیسا ہے۔ 90 کی دہائی میں انٹرنیٹ عام ہو چکا تھا لیکن جاپان نے اسے اپنے ہاں داخل نہیں ہونے دیا کہ اجازت دی گئی تو ہمارا رسم الخط انگریزی کھا جائے گی، بحیثیت قوم ہم مر جائیں گے۔ چنانچہ جاپانیوں نے اپنے رسم الخط کے سافٹ ویئر بنائے، انہیں ملک میں عام کیا تب خود کو انٹرنیٹ سے منسلک کیا۔ اپنے ہاں مذکورہ  سم کارڈوں ہی کی طرح انٹرنیٹ کو بے لگام چھوڑ دیا گیا۔ نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ اسمارٹ فون اٹھائے ہر شخص کیا دیکھ رہا ہے، یہ وہی جانتا ہے۔ پب جی میں رکاوٹ ڈالو تو بچہ خود کشی پر مائل۔ ٹھڑکی بابوں کے "فنون لطیفہ" کی راہ میں ذرا سی رکاوٹ کا ذکر کیا کر دیا کہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل پر چڑھ دوڑیں۔ مغربی ممالک کے ساتھ آن لائن کاروبار والے ٹیکس چوروں سے کہو کہ کسی حساب کتاب کے اندر آجاؤ تو وہ ملک دشمن نعروں پر کمر بستہ۔ اسی انٹرنیٹ کے ذریعے دھماکے، افراتفری، جاسوسی، ملک دشمنی، کالا دھن ادھرادھر کرنے کے بے مہار طریقے اب اتنے عام ہیں کہ معاملات ریاست کی گرفت سے نکلتے نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں اگر کہا جائے کہ کسی شناخت کے ساتھ کاروبار کرو تو ماتم کرنے کا جواز کیا ہے؟

محبان وی پی این نے ایک بڑی دلیل یہ دی کہ انٹرنیٹ پر موجود مواد تک رسائی روکنا اب ممکن ہی نہیں۔ اگر یہ بات ہے تو رجسٹریشن پر واویلا کیوں کر رہے ہو؟ جاؤ رسائی حاصل کر کے مزے اڑاؤ۔ لیکن یہ دلیل ناقص ہے۔ چوریاں روز اول سے ہو رہی ہیں، تالے بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہ سوچ کر کہ چور تالے توڑ لیتے ہیں، کتنے محبان وی پی این اپنے گھروں کو تالا نہیں لگاتے۔ چور ایک تالے کا توڑ نکالیں گے تو انسان نئی قسم کا تالا بنا لیتا ہے۔ تہذیبی سفر میں سینکڑوں قسم کے تالے بنائے گئے ہیں۔ چوروں نے اگر ہر تالے کا توڑ نکال لیا تو انسان بھی پسپا نہیں ہوا۔ انٹرنیٹ پر بھی چور سپاہی کا یہی کھیل ہے۔ چنانچہ محبان وی پی این اپنا کام جاری رکھیں اور ریاست کو اپنے نت نئے تالا بنانے دیں۔ ساڑھے تین کروڑ سم کارڈوں سے نمٹ کر ریاست اگر کروڑوں ملک دشمن، اخلاق باختہ، فیل بے زنجیر اور دشمنان تہذیب انسانی سائٹوں پر متوجہ ہوئی ہے تو یہ ہماری اپنی نسلوں کے تحفظ کی خاطر ہے۔ ریاست کو اپنا کام کرنے دیجئے۔ وی پی این کی رجسٹریشن کے اس عمل سے انٹرنیٹ پر جائز کاروباروں کو کچھ دھچکا تو لگے گا لیکن یہ عہد جلد ختم ہو جائے گا۔ تھوڑے ہی عرصے میں زندگی پہلے  کی طرح پیہم جواں ہو جائے گی۔

مزیدخبریں