صبح کی سیر نشہ ہی نہیں زندگی کا بہت بڑا جادو ہے،باغات میں تازہ پھول اور کلیاں کھلتے دیکھ کر انسانی نظریں تیز اور دِل و دماغ تازہ ہو جاتے ہیں 

Nov 24, 2024 | 10:19 PM

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:94
صبح کی سیر پارٹی
صبح کی سیر ایک نشہ ہی نہیں یہ زندگی کا بہت بڑا جادو ہے۔ جو لوگ اس راز سے آشنا ہو جائیں تو پھر وہ کبھی بھی اس روزمرہ معمول کو ترک نہیں کرتے۔ صبح صبح آکسیجن سے بھرپور تازہ ہوا، کھیتوں کھلیانوں، باغات اور سیر گاہوں میں تازہ پھول کھلتے ہوئے اور کلیوں کو چٹکتے دیکھ کر انسانی نظریں تیز اور دِل و دماغ تازہ ہو جاتے ہیں ا ور ہم لوگ جو دیہی پس منظر رکھتے ہیں ہمارے ہاں تو علی الصبح اٹھنا اور اپنا کام شروع کر دینا معمولی کام ہے۔ صبح سویرے کسان اور کاشت کار اُٹھتے ہیں۔ بیلوں کی جوڑی کو ہانکتے ہوئے یا ٹریکٹر پر بیٹھ کر اپنے کھیتوں کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں۔ کھیتوں پر پہنچ کر کنویں یا ٹیوب ویل کے پانی سے منہ ہاتھ دھوتے ہیں۔ وضو کرتے ہیں، غسل کرتے ہیں اور پھر دن کا آغاز اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری لگوا کر کرتے ہیں۔ جب تک شہروں کے عام لوگ جاگتے ہیں یعنی آٹھ نو بجے تک کسان کھیتوں میں اپنا کام آدھے سے زیادہ کر چکے ہوتے ہیں اور وہ یہ آدھا کام ختم کرنے کے بعد ناشتہ کرنے کے عمل سے گزرتے ہیں۔
انگلینڈ میں قیام کے دوران اگرچہ مجھے کھیتوں پر نہیں جانا ہوتا تھا لیکن گھر کے بزرگوں نے صبح خیزی کی عادت ایسی پختہ کر دی تھی کہ لندن اور دیگر ممالک میں قیام کے دوران بھی یہ عادت برقرار رہی۔ میں علی الصبح اُٹھ کر قریبی پارک یا باغ میں سیر ضرور کرتا تھا۔ لندن سے پاکستان واپسی کے بعد میں جتنا عرصہ بھی ساہیوال میں رہا صبح کی سیر کو کبھی نہیں بھولا۔ وہاں گورنمنٹ کالج ساہیوال کی وسیع و عریض پارک اور گراؤنڈ ہماری سیر گاہ تھا۔ جب میں اس کالج میں پڑھتا اور ہوسٹل میں رہتا تھا تواس وقت بھی ہم کالج کی حدود میں بنے ہوئے وسیع پارکوں میں سیر کرتے تھے۔ یہاں ہمارے ہوسٹل میں صبح نماز کے وقت باقاعدہ اذان کے علاوہ گھنٹی بھی بجتی تھی۔ جہاں سب ہوسٹل میں رہنے والے طلبا جمع ہو جاتے۔ نماز کے بعد سب لوگ باہر گراؤنڈ میں آ جاتے جہاں ہم لوگ دوڑ لگاتے اور ایکسرسائز کرتے۔ یہ کام ایسے باقاعدگی سے ہونا شروع ہوا کہ روزانہ صبح ورزش کرنے والوں کی حاضری لگتی اور جو لوگ بلاوجہ غیر حاضر ہوتے اُنہیں جرمانہ کیا جاتا اور وہ برضا و رغبت جرمانہ ادا کرتے ہوئے آئندہ غیر حاضری نہ کرتے۔ ایک وقت آیا کہ مجھے لاہور شفٹ ہونا پڑا۔ اس لئے مجھے علم نہیں کہ ساہیوال میں گورنمنٹ کالج میں یہ سیر گروپ اب بھی متحرک ہیں یا نہیں۔ اُس دور میں تو شام کو مختلف گیمز بھی باقاعدگی سے ہوا کرتی تھیں۔ ہر طالب علم کے لئے کسی نہ کسی گیم میں حصہ لینا ضروری تھا۔
جب میں نے ساہیوال میں پریکٹس شروع کی تھی تو میری رہائش فرید ٹاؤن میں تھی جو کہ گورنمنٹ کالج کے بالکل قریب واقع ہے۔ میں پرانی یادوں کو ساتھ لئے گورنمنٹ کالج کی باغ و بہار جگہ سیر کرنے کے لئے چلا گیا۔ میں نے دیکھا کہ بہت سے وکلاء اور پڑھے لکھے لوگ جن میں سے اکثریت جاننے والوں کی تھی یہ لوگ گورنمنٹ کالج کے وسیع و عریض پارکوں اور پھولوں سے سجائے گئے میدانوں میں دوڑیں لگاتے یا اپنی پسند کی ورزش کرتے۔ یہاں کالج میں بڑی کشادہ سڑکیں تعمیر کی گئی تھیں۔ یہ ایک اہم دلکشی ہے اور لوگ ان سڑکوں کے حسن کی داد اس طرح دیتے ہیں کہ اسے صبح و شام سیر گاہ سمجھتے ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں