ہاں ! یہی بہار ہے
ہوا بھی مشکبار ہے
گلوں پہ بھی نکھار ہے
وہ انتظار جس کا تھا
ہاں ! یہی بہار ہے
وہ پربتوں کے سلسلے
ہیں دور تک وہ گل کھلے
طیور کے و قافلے
وہ زمزمے وہ ولولے
ردائے آبشار سے
وہ مطربا سے سرملے
وہ انتظار جس کا تھا
ہاں ! یہی بہار ہے
صحن میں گلستان کے
شمیم کے وہ سلسلے
خوشبوٶں کے قافلے
چمن میں سب مہک گئے
خوشی میں پات پات بھی
تالیاں بجا گئے
وہ انتظار جس کا تھا
ہاں! یہی بہار ہے
کہ گاٶں میں وہ پو پھٹے
ؓگڈریے اٹھ کھڑے ہوۓ
”مویشیوں کو لے چلے“
بانسری پہ سر سجے
مویشیوں کی گھنٹیاں
جلترنگ سے بج اٹھے
وہ انتظار جس کا تھا
ہاں! یہی بہار ہے
ندی نے چھیڑی راگنی
فضا میں بھی وہ نغمگی
ہے صبح کی وہ دلکشی
ہے زرد سی وہ روشنی
سماں کو بھی وہ دیکھنے
چٹک گئی کلی کلی
وہ انتظار جس کا تھا
ہاں ! یہی بہار ہے
وہ شبنمی سی کھیتیاں
سجائی اوس نے یہاں
وہ آفتابی گرمیاں
فلک ہوا دھواں دھواں
لٹایا موتیوں کو یوں
نظر کو بھا گیا سماں
وہ انتظار جس کا تھا
ہاں ! یہی بہار ہے
دلھن وہ شام کی سجی
لیے ردائے ملگجی
سکوت میں وہ دلکشی
فدا ہو جس پہ خامشی
وہ رفتہ رفتہ عرش پر
دمکتی انجمن سجی
وہ انتظار جس کا تھا
ہاں ! یہی بہار ہے
وہ دوستانِ بزم شب
چلے تھے یار مل کے سب
جنھیں بہار کی طلب
کہاں گئے وہ ،کیا غضب
خزاں کی بھینٹ چڑھ گئے
کہ ،میں بچا ہوں بوالعجب
وہ انتظار جس کا تھا !
کیا یہی بہار ہے !!
کلام :ڈاکٹر ارشاد خان ( بھارت )