عقیدئہ ختم نبوت کا تحفظ دین کی بنیاد ہے

عقیدئہ ختم نبوت کا تحفظ دین کی بنیاد ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


                                                                                                     عقیدئہ ختم نبوت کا تحفظ دین کی اساس اور بنیاد ہے، لہٰذا عقیدئہ ختم نبوت ہے تو ہمارا دین محفوظ ہے ، عقیدئہ ختم نبوت ہے تو قرآن محفوظ ہے، عقیدئہ ختم نبوت ہے تو دین کی تعلیمات محفوظ ہیں ،اگر یہ عقیدہ باقی نہیں رہتا تو پھر نہ دین باقی رہے گا ، نہ اس کی تعلیمات اور نہ قرآن باقی رہے گا، کیونکہ بعد میں آنے والے ہر نبی کو دین میں تبدیلی، تنسیخ کا حق ہوگا، اس لئے اس عقیدے پر پورے دین کی عمارت قائم ہے، اسی میں امت کی وحدت کا راز مضمر ہے ۔خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری دور میں سب سے پہلے جھوٹے مدعیان نبوت کا خاتمہ کرکے امت کے سامنے اس کام کا عملی نمونہ پیش کیا، چنانچہ یمن میں اسود عنسی نے سب سے پہلے ختم نبوت سے بغاوت کرکے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کو اس سے قتال وجہاد کا باقاعدہ تحریری حکم صادر فرمایا اور بالآخر حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خنجر نے اس جھوٹی نبوت کا آخری فیصلہ سنادیا۔
ختم نبوت کا دوسرا غدار مسیلمہ کذاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس نے نبوت محمدی میں شرکت کا دعویٰ کیا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اللہ کی تلوار حضرت خالد بن ولیدؓ کی سربراہی میں صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کو اس کی سرزنش کے لئے بھیجا بالآخر ایک معرکة الاراءجنگ ہوئی اور مسیلمہ کذاب کو اس کے بیس ہزار امتیوں کے ساتھ حدیقة الموت کے راستے جہنم کے سفر پر روانہ کردیا گیا.... (حدیقة الموت اس باغ کا نام ہے، جہاں مسیلمہ کذاب کی موت واقع ہوئی)۔ صرف اس ایک معرکے میں مسلمانوں نے تحفظ ختم نبوت کے لئے بارہ سو صحابہ کرامؓ کی شہادت کا نذرانہ پیش کیا، جن میں ستر بدری صحابہ کرامؓ اور سات سو سے زیادہ وہ صحابہ کرام تھے، جو قرآن کریم کے ماہر تھے اور قراءکہلاتے تھے۔ اتنی بڑی قربانی تمام غزوات اور سرایا میں نہیں دی گئی ،کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جتنی جنگیں لڑی گئیں ، غزوات اور سرایا ملاکر ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ کی کل تعداد259 ہے۔
انیسویں صدی کے آخر میںبے شمار فتنوں کے ساتھ ایک بہت بڑا فتنہ مرزا غلام احمد قادیانی کی شکل مےں ظاہرہوا۔ جس کی تمام وفاداریاں انگریزی طاغوت کے لئے وقف ہوگئیں، انگریز کو بھی ایسے ہی خاردار خود کاشتہ پودے کی ضرورت تھی، جس میں اُلجھ کر مسلمانوں کا دامن اتحاد تار تار ہوجائے ،اس لئے انگریزوں نے اس خود کاشتہ پودے کی خوب آبیاری کی۔ اس فرقے کے مفادات کی حفاظت بھی انگریز حکومت سے وابستہ تھی، اس لئے اس نے تاج برطانیہ کی بھر پور انداز میں حمایت کی، ملکہ برطانیہ کو خوشامدی خطوط لکھے۔ حکومت برطانیہ کے عوام میں راہ ہموار کرنے کے لئے حرمت جہاد کا فتویٰ دیا، چاپلوسی کے وہ گھٹیا اور پست طریقے اختیار کئے،جن سے مرزا غلام احمد کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔مرزا غلام احمد قادیانی کے کفریہ عقائد و نظریات اور ملحدانہ خیالات سامنے آئے تو علمائے کرام نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے مقابلے میں میدان عمل میں نکلے، بلکہ خدا کی قدرت دیکھئے کہ اس فتنہ کی پیدائش سے قبل ہی دارالعلوم دیوبند کے مورث اعلیٰ سیّد الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی پر اللہ تعالیٰ نے منکشف فرمادیا تھا کہ ہندوستان میں ایک فتنہ برپا ہونے والا ہے، چنانچہ مکہ مکرمہ میں ایک دن انہوں نے پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ سے فرمایا: ”ہندوستان میں عنقریب ایک فتنہ نمودار ہوگا، تم ضرور اپنے وطن واپس چلے جاﺅ، اگر بالفرض تم ہندوستان میں خاموش بھی بیٹھے رہے تو وہ فتنہ ترقی نہیں کرسکے گا اور ملک میں سکون ہوگا، پیر مہر علی گولڑویؒ فرماتے ہیں کہ :”میرے نزدیک حاجی صاحبؒ کی اس فتنے سے مراد فتنہ قادیانیت تھی“۔
حضرت علامہ سیّد انور شاہ کشمیریؒ گویا کہ اس فتنہ قادیانیت کے خاتمے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے، اس فتنے کے لئے وہ ہمیشہ بے چین و بے قرار رہتے، ایک اضطراب اور دل میں درد تھا جو انہیں چین نہ لینے دیتا فرمایا کرتے تھے کہ : ”یہ فتنہ کھڑا ہوا تو چھ ماہ تک مجھے نیند نہیں آئی، اور یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ کہیں یہ فتنہ دین محمدی کے زوال کا باعث نہ بن جائے، مگر چھ ماہ کے بعد دل مطمئن ہوگیا کہ دین محمدی باقی رہے گا اور یہ فتنہ خود ختم ہوجائے گا“.... امام العصرحضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒ نے خود بھی اس موضوع پر گرانقدر کتابین تصنیف کیں، بعد میں اپنے شاگردوں کو بھی اس کام میں لگایا، جن میں مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ ، مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری ؒ، مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ ، مولانا محمد علی جالندھریؒ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا ثناءاللہ امرتسریؒ، مولانا محمد منظور نعمانی ؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ جدید طبقہ تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے مولانا ظفر علی خانؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کو تیار و آمادہ کیا۔
حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے اس کام کو باقاعدہ منظم کرنے کے لئے حضرت مولانا سیّد عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کو امیر شریعت مقرر کیا اور انجمن خدام الدین کے ایک عظیم الشان جلسے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، اس اجلاس میں پانچ سو جید اور ممتاز علماءو صلحا موجود تھے، ان سب نے حضرت سیّد عطاءاللہ شاہ بخاری کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری ، قادیانیوں کے عزائم سے باخبر تھے اس لئے 1949ءمیں ملتان میںایک غیر سیاسی تبلیغی تنظیم ”مجلس تحفظ ختم نبوت،، کی بنیاد رکھی۔ اسی مجلس تحفظ ختم نبوت نے تمام مکاتب ہائے فکر کے رہنماﺅں کو وقت کی نزاکت کا احساس دلایا اور قادیانی فتنے کے خلاف ایک ایک کے دروازے پردستک دی ، یوں تمام مکاتب فکر کے رہنماءایک سٹیج پر جمع ہوگئے اور مجلس عمل تحفظ ختم نبوت وجود میں آئی، اس کی راہنمائی میں 1953ءمیں تحریک ختم نبوت چلی،مگر اس تحریک کو بڑی شدت کے ساتھ کچل دیا گیا، مگر اس تحریک نے قادیانیوں کے بارے میں شعور پیدا کردیا اور قادیانیوں کے خلاف فضا پیدا کردی۔
حضرت مولانا سیّد عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کو مجلس تحفظ ختم نبوت کا پہلا امیر منتخب کیا گیا۔ 12اگست1961ءکو حضرت امیر شریعتؒ کا وصال ہوا ، آپؒ کے وصال کے بعد حضرت قاضی احسان احمدؒ شجاع آبادی امیر دوم، مولانا محمد علی جالندھریؒ امیر سوم، مولانا لال حسین اختر ؒ امیر چہارم منتخب ہوئے۔مولانا لال حسین اختر کی وفات کے بعد مولانا محمد حیات کو عارضی طور پر یہ منصب تفویض ہوا، اس کے بعد 9اپریل1974ءکو محدث العصر علامہ سیّد محمد یوسف بنوریؒ کو مجلس تحفظ ختم نبوت کی مسند امارت پر بٹھایا گیا۔ آپ کے دور امارت میں 1974ءکی عظےم الشان تحریک ختم نبوت چلی جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر آئین میں ترمیم کرکے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ اکتوبر 1977ءمیں حضرت علامہ سیّدمحمد یوسف بنوریؒ کا وصال ہوا اور قطب الاقطاب شیخ المشائخ، خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ نے قیادت سنبھالی، آپ کے دور میں مجلس تحفظ ختم نبوت نے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی حیثیت حاصل کرلی اور پورے عالم میں مجلس تحفظ ختم نبوت نے عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے کام کیا۔
1984ءمیں آپ نے ایک بار پھر تحریک کو منظم کیا ، جس کے نتیجے میں امتناع قادیانیت آرڈی نینس منظور ہوا، جس کی رو سے قادیانیوں کے لئے اپنے آپ کو مسلمان کہنا یا کہلوانا، اذان دینا، اپنی عبادت گاہ کو مسجد قرار دینا، کلمہ طیبہ کا بیج لگانا، مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی کہنا، اس کے ساتھیوں کو صحابی اور اس کی بیویوں کے لئے امہات المومنین وغیرہ کے الفاظ استعمال کرنا قابل تعزیر جرم قرار دے دیا گیا۔ اس دوران حصرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، حضرت سیّد نفیس شاہ الحسینی صاحبؒ نے نائب امیر ہونے کی حیثیت سے حضرت شیخ المشائخ کی معاونت کی۔موجودہ دور مےں عقیدئہ ختم نبوت ، ناموسِ رسالت ﷺکے تحفظ اور مسلمانوں پر قادیانیوں کے کفریہ عقائد و نظریات کو بے نقاب کرنے کی ضرورت واہمیت بڑھ گئی ہے۔ اسی سلسلہ مےں عالمی مجلس تحفظ ختمِ نبوت کے زیرِ اہتمام 24-25 اکتوبر 2013ءبروز جمعرات، جمعة المبارک کو مسلم کالونی چناب نگر ضلع چنیوٹ میںعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی صاحب مدظلہ العالی کی زیرِ صدارت ایک عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس منعقد ہورہی ہے ۔     ٭

مزید :

کالم -