ہر دور میں تابندہ شورش کاشمیری
محترم شورش کاشمیریؒ پر قلم اُٹھانا، ان کی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کرنا، ایسے ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا یا نابینا کو مینا بازار میں لانا۔ ایک ایسا شخص جو بے شمار خوبیوں کا مالک تھا، صحافی ایسا کہ خود امام صحافت مولانا ظفر علی خان ؒ کو کہنا پڑ گیا
شورش سے مرا رشتہ ہے اور وہ ازلی ہے
مَیں وقت کا رستم ہوں تو وہ ثانی سہراب
خطیب ایسا کہ برصغیر کے سب سے بڑے خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کہہ اُٹھے کہ ’’شورش تم میری مراد ہو‘‘ اس نوجوان کی تقریر سُنی، ایسا محسوس ہوا کہ میرا بڑھاپا جوانی میں تبدیل ہو رہا ہے۔ حضرت شورشؒ پر کچھ لکھنے سے پہلے قلم کی جرأت اور لفظوں کی حرمت کا پاس اتنا ہی ضروری ہے، جتنا زندگی کے لئے سانس لینا، جرأت، بے خوفی،بے باکی، استبداد اور اقتدار کے خلاف نبرد آزما ہونے کا دوسرا نام شورش کاشمیری ہے۔ اُن کے نزدیک ’’قلم کی تجارت عزت کی تذلیل سے کم تر نہیں‘‘
شعور مہر بر لب قلم بریدہ زبان
سوال یہ ہے کہ اس مرحلے پر کیا لکھیے
رواج قتل سخن ہو تو جانِ من شورش
قلم کو آلہ خونریزی قضا لکھیے
اُن کی تحریر ایسی کہ امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ نے کہا کہ نوجوان کی تحریر کی پختگی یہ بتا رہی ہے کہ یہ تحریر اور تقریر کی بہت سی منزلوں کو بآسانی طے کرے گا۔ اُردو زبان میں اُن کی دسترس کا یہ عالم تھا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رشید احمد صدیقی نے برملا اِس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’پنجاب کو ناز کرنا چاہئے کہ اُس نے اقبالؒ ہی نہیں شورش کاشمیری ؒ کو بھی پیدا کیا ہے‘‘ بلکہ اس حد تک خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اُردو زبان ہماری ہے، لیکن اس پر حکومت دو پنجابیوں نے کی‘‘۔
سچ پوچھئے تو زبان گنگ اور قلم میرے ہاتھ میں جچتا نہیں، کہ مَیں والد محترم کے بارے میں مستعارُ فقروں اور اُدھار جملوں سے اُن کی شخصیت پر لب کشائی کر سکوں، جس کے سامنے الفاظ اس طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے ’’جس طرح فاتح سپہ سالار کے سامنے مفتوح فوج سر جھکائے کھڑی ہوتی تھی۔ حضرت شورشؒ فرمایا کرتے تھے کہ مَیں لوگوں کی پیشانیوں سے موضوع تلاش کرتا ہوں اور ان کی نظروں سے اُن کے دِلوں کے جذبات پڑھتا ہوں۔ اُن کی تقریر کا پسندیدہ موضوع اہلِ اقتدار، نخوت و تکبر سے آلودہ حکمرانوں کو للکارنا اور پچھاڑنا تھا۔ اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کرتا تو غالباً 1967ء یا 1966ء کا سال تھا، یوم اقبال کی تقریب تھی، ایوبی آمریت کا اژدھا اپنا پھن پھیلائے کھڑا تھا، اُس وقت کے ایک وفاقی وزیر کو صدارت کے لئے مدعو کر لیا گیا، مجلسِ اقبال کے صدر جناب مجید نظامی مرحوم تھے اور جنرل سیکرٹری آغا شورش کاشمیریؒ صاحب ہُوا کرتے تھے۔ شورشؒ صاحب کو جب اس کا علم ہُوا کہ وزیر مہمان خصوصی کے طور پر آئے ہیں، اُنہوں نے اپنی تقریر کے آغاز پر یہ اشعار برجستہ پڑھے
اب ہمیں اُن کو بھی کہنا پڑھ گیا عزت مآب
جن پر یارانِ سر پُل شاعری کرتے رہے
کانپ اُٹھتا ہوں سیاسی نت کھٹوں کو دیکھ کر
کیسے کیسے لوگ اپنی راہبری کرتے رہے
سانحہ کہہ لیجئے لیکن ہمارے رہنما
نام پر جمہوریت کے راہزنی کرتے رہے
پوری تقریب کشت زعفران میں تبدیل ہو گئی۔ پھر انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں یہ الفاظ کہے کہ ’’اے اہلِ اقتدار خدا کے خوف سے ڈرو ‘‘ ورنہ ’’تمہارا اقتدار اس طرح اُڑنچھو ہو جائے گا جس طرح جہانگیر کے عہد شہزادگی میں نور جہاں کے ہاتھوں میں کبوتر اُڑ گئے تھے‘‘
پھر اشعار میں عوام کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے ارباب اختیارِ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
بہت سے دوغلے چہرے اِسی خواہش میں جیتے ہیں
کہ اِن کی کوچہ بازار میں تشہیر ہو جائے
یہ لازم ہو گیا تو موت کو آواز دے دوں گا
قلم میرا وزیر و میر کی جاگیر ہو جائے
اُن کی زندگی کی سب سے بڑی متاع سرور کائنات حضرت محمد ؐ سے بے پناہ محبت، عقیدت اور لازوال عشق تھا۔ اُن کی ایک نعت جسے مَیں خود بھی عقیدت و عشق کی انتہا میں پہنچ کر پڑھتا رہتا ہوں، یہاں نقل کر رہا ہوں، یوں تو اُن کی نبی کریمؐ پر اَن گنت نعتیں ہیں، لیکن اس میں آپ سرور کالمؐ سے عشق کا والہانہ انداز اور عقیدت اپنے نقطہ عروج پر نظرآتی ہے
اگر اُم القریٰ میں خالقِ کونین نے شورش
بہ عہدِ احمدِ مُرسلؐ مجھے پیدا کیا ہوتا
حرا کی خاک میں تحلیل میرے جسم و جاں ہوتے
مری لوح جبیں پر آپؐ ہی کا نقش پا ہوتا
بہر عنوان اُس ذات گرامی پر نظر رہتی
کبھی اُن پر کبھی ان کے غلاموں پر فدا ہوتا
شہنشاہوں کے تخت و تاج میرے پاؤں میں ہوتے
مرا سَر سید الکونینؐ کے در پر جھکا ہوتا
حضرت شورش کاشمیریؒ کی شخصیت کا ایک اور پہلو بھی کمال تھا جو انہیں ہر دور میں ممتاز اور نمایاں رکھے گا اور وہ شخص جو سینے میں دِل اور اپنی شخصیت میں ضمیر نام کی کوئی چیز رکھتا ہے وہ اِس پہلو کو ضرور خراج عقیدت پیش کرے گا اور اگر ذہنی طور پر مفلوج اور علمی اعتبار سے اپاہج لوگ تسلیم نہیں بھی کرتے تو خود شورش کاشمیری نے کہا تھا۔
ہر حال ہیں، ہر دور میں تابندہ رہوں گا
مَیں زندہ جاوید ہوں پائندہ رہوں گا
تاریخ میرے نام کی تعظیم کرے گی
تاریخ کے اوراق میں آئندہ رہوں گا
تو مَیں آپ کو بتا رہا تھا کہ اُن کی شخصیت کا یہ پہلو انتہائی جرأت و بیباکی کا مُنہ بولتا ثبوت تھا کہ انہوں ہمیشہ اپنی کلاس، یعنی اُن لوگوں کی حمایت اور ساتھ دینے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے، جو قلم سے تلوار کا کام لیتے اور جنہوں نے طاقتور کے سامنے سر جھکانا سیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ لوگ جو ترقی پسند ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں، سچ اور حق کی بات کرتے ہوئے تھکتے نہیں، وہ اُس وقت کہاں تھے جب برصغیر کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کو اُن کے ایک افسانے پر سزا سنائی گئی تو عدالت میں اُن کے حق میں گواہی دینے کے لئے ایک ہی شخص آیا اور اُس کا نام شورش کاشمیری تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میرے اور سعات حسن منٹو کے نظریات اور خیالات میں نمایاں فرق ہے، لیکن مَیں اس لئے یہاں آیا ہوں کہ وہ میرے قبیلے کا شخص ہے۔1973ء میں شاعر انقلاب جناب حبیب جالب کو اُس وقت کی حکومت لکشمی چوک میں ایک گھٹیا الزام کے تحت گرفتار کر کے گوالمنڈی تھانے لے گئی، جب اِس کی خبر آغا صاحب کو ملی جو اُس وقت اپنے دفتر چٹان بلڈنگ88میکلوڈ روڈ میں تشریف فرما تھے، انہوں نے اُسی وقت جلوس کی صورت میں نہ صرف اہلِ اقتدار کو للکارا، بلکہ گوالمنڈی تھانے کا گھیراؤ کر کے جناب حبیب جالب کو رہا بھی کروایا۔ بات یہاں تک ہی ختم نہیں ہوتی،بلکہ حضرت شورش کاشمیری کی جرأت و بیباکی کی معرکہ آرائیاں اور اپنے ساتھیوں کے لئے بے لوث جدوجہد اور قربانیاں بھی تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ شاید یہ بات بھی بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ جب شہید ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خاں کی حکومت نے سبکدوش کر دیا، اُس پر ہر قسم کی تشہری پابندی عائد کر دی گئی، تو یہ محترم مجید نظامی مرحوم اور آغا شورش کاشمیریؒ ہی تھے،جنہوں نے1967ء میں وائی ایم سی ہال میں یوم حمید نظامی کے موقع پر ذوالفقار علی بھٹو شہید کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا، یہ بھٹو صاحب کی وزارت سے برطرفی کے بعد عوام کے سامنے پہلی ملاقات تھی، جبکہ ایوب خاں حکومت نے واضح طور پر اِس بات کا حکم دے رکھا تھا کہ جو شخص بھی ذوالفقار علی بھٹو کو چھاپے گا یا سٹیج فراہم کرے گا وہ کڑی سے کڑی سزا کا مستحق ہو گا۔ یہ بات بھی آپ کو یہاں بتاتا چلوں کہ ہماری پاک فضائیہ کے نامور سپوت اور 1965ء کی جنگ کے ہیرو ایئر مارشل(ر) اصغر خاں کا پہلا جلسہ بھی آغا شورش کاشمیریؒ نے موچی دروازے میں کروایا تھا اور اُن کو سٹیج پر لانے کے باعث بہت سے قریبی دوستوں کی ناراضگی بھی مول لی تھی۔
آغا شورش کاشمیریؒ کی خطابت کے جوہر اور جرأت کی انتہا اُس وقت نصف النہار پر ہوتی جب اُن کے مدمقابل اقتدار کے شہنشاہ اور اختیار کے بادشاہ ہُوا کرتے تے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ
پاؤں کی ٹھوکر پہ رکھتا ہوں جلال خسرواں
میرے آقا ؐ، میرے مولا رحمتہ اللعالمین ؐ
شاید نوجوان نسل کے علم میں یہ بات نہ ہو کہ 1970ء کے عام انتخابات میں مفکرِ پاکستان علامہ اقبال ؒ کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کو دائیں بازو کی جماعتوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کے لئے منتخب کیا، ڈاکٹر جاوید اقبال الیکشن ہار گئے۔ شورش صاحب نے اگلے ہفتے چٹان میں ایک نظم شکریہ کے عنوان سے لکھی اِس کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں۔
ہر گیا لاہور میں اقبال کا لختِ جگر
پٹ گیا پنجاب میں اسلام تیرا شکریہ
پانچ دریاؤں کی مٹی بانجھ ہو کر رہ گئی
مچ گیا چاروں طرف کہرام تیرا شکریہ
سانڈ پھرتے ہیں سیاست کے کھلے بازار میں
آ گئے شہباز زیرِ دام تیرا شکریہ
مغبچے بد مست ہو کر ٹھمریاں گانے لگے
او شراب گردش ایام تیرا شکریہ
لاڑکانہ ہو کہ لاہور یارانِ عزیز
مشترک ہیں اُن میں حرفِ لام تیرا شکریہ
مجھے یاد ہے کہ مُلک کے معروف صحافی، مبصر اور روزنامہ’’پاکستان‘‘ کے چیف ایڈیٹر جناب مجیب الرحمن شامی،جو غالباً1970ء میں اخبار جہاں میں لکھا کرتے تھے۔انہوں نے شورش صاحب کا ایک بڑا تفصیلی انٹرویو کیا تھا، جس پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ مَیں نے گورے انگریزوں سے لے کر کالے انگریزوں تک اپنی جوانی کے تقریباً16برس قید و بند کی صعوبتوں میں کاٹے، اب’’ مَیں سوچتا ہوں‘‘ کہ مَیں اپنا تخلص شورش رکھوں یا جیل‘‘۔مجھے یاد ہے کہ مَیں اس وقت چھٹی جماعت کا طالب علم تھا جب وہ ایوبی آمریت کے خلاف نعرہ حق بلند کرنے کی سزا کراچی سنٹرل جیل میں کاٹ رہے تھے۔ مَیں اور میرے بہن بھائی والدہ محترمہ کے ساتھ جب ان سے مل کر واپس آنے لگے تو انہوں نے کہا کہ بیٹا تین باتیں یاد رکھنا اور انہیں اپنا اصول اور ایمان بنا لینا۔
(1) پاکستان ہمارا مقدس وطن ہے۔
(2) اس کی سالمیت اور استحکام کے لئے جان تک کی پرواہ نہ کرنا۔
(3) حضور نبی اکرمؐ کی رسالت اور آبرو کو سب سے زیادہ مقدس سمجھنا۔
آخر میں مَیں ’’چٹان‘‘ میں لکھے گئے والد محترم کے ایک اداریے کے چند اقتباسات اپنے مضمون کا حصہ بنانا چاہتا ہوں تاکہ آج کے اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت اس کو ضرور پڑھیں اور پھر وہ خود فیصلہ کریں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ اداریے کا عنوان ہے!
درباری گائیک:جو شخص معاوضے پر سیاست ، صحافت اور ادب کے خدمت گزار ہیں ہمارے نزدیک ان سے لکھنؤ کے فراش خانے کی رنڈیاں زیادہ اچھے اخلاق کی مالک تھیں،جو کسی نواب یا رئیس سے ایک دفعہ دِل کے اٹکاؤ کا سامان کر لیتیں تو پھر ہمیشہ کے اس کی ہو جاتی تھیں، انہیں کوئی تحریف یا ترغیب توڑ نہیں سکتی تھی، جو لوگ اس وقت سیاست اور صحافت کے راج محل میں فروکش ہیں ان کی مثال مٹیا محل کے جان عالم پیا کی سی ہے، جس نے اپنے دماغ کو ارباب نشاط کے حوالے کر دیا تھا اور ممنوعات کے لب ہائے شیریں پر اپنے کان لگا رکھے تھے‘‘۔ اسی اداریے میں ایک جگہ انہوں نے کیا تاریخی حقیقت لکھی ہے، آج ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور جیسے ’’رنڈی کے چہرے پہ حیا اور میراثی کے چہرے پر شرافت نہیں ہوتی، اسی طرح قوت کے دِل میں اخلاص اور سیاست کی آنکھ میں مروت نہیں ہوتی، سیاست اپنے پہلو میں دِل نہیں رکھتی اس ہزار شیوہ نازنین کے اسلوب دلبربائی سب سے مختلف ہوتے ہیں‘‘۔۔۔بقول شورش کاشمیریؒ :
دِلوں کو کھا گئے اندیشہ ہائے دُور و دراز
خدا کا خوف ضمیروں پہ حکمراں نہ رہا
کسی کو منزل جاناں کی آرزو نہ رہی
کوئی بھی شہرِ وفا کا مزاج داں نہ رہا
زباں دراز نقابیں اُلٹ کے آ نکلے
تمام شہر میں اک شخص ہم زباں نہ رہا
مجاورانِ سیاست کے کارخانہ میں
قلندرانہ روایات کا نشاں نہ رہا