ڈاکٹرصفدر محمود اور قائداعظم ؒ کا تصور پاکستان

ڈاکٹرصفدر محمود اور قائداعظم ؒ کا تصور پاکستان
 ڈاکٹرصفدر محمود اور قائداعظم ؒ کا تصور پاکستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ممتاز دانشور ڈاکٹر صفدر محمود کا 4 اکتوبر 2016ء کو مجھے پیغام ملا کہ مَیں ان کا آج شائع ہونے والا کالم پڑھوں۔ ڈاکٹر صاحب کا حکم سر آنکھوں پر میں تو ویسے بھی اُن کے کالموں کا مستقل قاری ہوں۔ تحریک پاکستان اور قائد اعظم کے افکار کے حوالے سے مستند مواد کا اگر کسی نے مطالعہ کرنا ہو تو ڈاکٹر صفدر محمود کے کالموں سے بہتر راہنمائی مل سکتی ہے۔ 4اکتوبر 2016ء کے کالم میں بھی ڈاکٹر صاحب نے دین سے بیزار لکھاریوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وہ قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو سیکولر ازم کا رنگ چڑھاکر دیکھنے سے اِجتناب کریں کیوں کہ قائد اعظم نے اپنی اس تقریر میں غیر مسلم اقلیتوں کو برابر کے شہری حقوق دینے کی جو بات کی تھی، وہ اسلامی نظام کے عین مطابق تھی۔ قائداعظم نے 14 اگست 1947ء کی اپنی تقریر میں یہ واضح کر دیا تھا کہ رسول کریمؐ نے نہ صرف اپنے الفاظ بلکہ اپنے عمل سے یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ (جب وہ مغلوب اور مفتوح ہو چکے تھے) بہترین سلوک کیا۔ مسلمانوں نے جہاں بھی حکومت کی ،ان کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ وہ ایسے ہی عظیم انسانیت نواز اصولوں سے بھری پڑی ہے۔ جن کی ہمیں تقلید کرنی چاہئے۔


ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم میں بزعم خود روشن خیال دانشوروں کی توجہ قائداعظم کی جنوری 1948ء میں عید میلاد النبی ؐ کے موقع پر کی گئی اس تقریر کی جانب بھی مبذول کروائی جس میں قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ’’مَیں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھ سکتا جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلام کے اصول آج بھی اُسی طرح قابل اطلاق ہیں، جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ یہاں غیر مسلموں کو بھی کوئی خوف اور ڈر نہیں ہونا چاہئے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دے رکھا ہے۔ ہر شخص سے انصاف، رواداری اور مساوی برتاؤ اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔ پھر کسی کو ایسی جمہوریت، مساوات اور آزادی سے خوف کیوں لاحق ہو ،جو انصاف، روا داری اور مساوی برتاؤ کے بلند ترین معیار پر قائم کی گئی ہو۔‘‘


قائداعظمؒ نے اپنی 25 جنوری 1948ء کی تقریر کو جاری کھتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ ’’اسلام محض روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لئے ضابطۂ حیات بھی ہے، جس کے مطابق وہ اپنی روز مرہ زندگی، اپنے افعال و اعمال حتیٰ کہ سیاست، معاشیات اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ اسلام سب انسانوں کے لئے انصاف، رواداری، شرافت، دیانت اور عزت کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ اسلام میں ایک انسان اور دوسرے انسان میں کوئی فرق نہیں۔مساوات، آزادی اور اخوت اسلام کے اساسی اصول ہیں۔‘‘


حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ ہمارے کچھ دانشور حضرات یہ لکھتے ہوئے نہیں تھکتے کہ قائداعظمؒ سیاست اور مذہب کو الگ الگ رکھنا چاہتے تھے۔ جبکہ قائداعظم کا یہ فرمان ہے کہ اسلام مسلمانوں کے لئے ایک ضابطۂ حیات ہے، ایک طرز زندگی ہے اور مسلمان نہ صرف سیاست اور معاشیات بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی اسلام سے راہنمائی لیتے ہیں اور اسلام کے اصول آج بھی اُسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔


ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر قائداعظم کی جولائی 1948ء میں کی گئی تقریر کا خاص طور پر حوالہ دیا ہے۔ قائداعظم نے اپنی اس تقریر میں مغرب کے معاشی نظام پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نظام پیش کر کے گویا ہم مسلمانوں کی حیثیت سے اپنا ایک فرض ادا کریں گے۔‘‘


قائداعظم نے مغربی نظام معیشت کے مقابلے میں اسلامی نظام معیشت کی بات کی تھی۔ قائداعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ مغرب کا معاشی نظام ہمارے لئے پر سکون خوشحالی کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ لیکن جب ہم اسلامی تصورات پر مبنی نظام معیشت پیش کریں تو پوری انسانیت کے لئے یہ حقیقی اور سچے امن کا پیغام ثابت ہو گا کیوں کہ اسلامی نظام معیشت کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے اصولوں پر رکھی جائے گی۔


ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم میں ایک خوبصورت سوال اٹھایا ہے کہ اگر کچھ شدت پسند عناصر مذہب اور شریعت کا نام لے کر انسانوں کا خون بہا رہے ہیں تو کیا یہ درست ہوگا کہ ہم دین اسلام سے ہی بیزار ہو جائیں؟ ڈاکٹر صاحب نے دراصل ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ مذہب کے نام پر قتل کرنے والے گمراہ لوگ ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اسلام سے بد ظن ہو جائیں۔ اسلام تو امن اور محبت کا پیغام لے کر آیا اور ہمارے لئے اسلام کا تحفہ لانے والے نبی کریمؐ سارے جہانوں کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے۔ جب اسلام امن، سلامتی اور رحمت کا پیامبر ہے تو پھر اسلام کو سیاست میں شامل کرنے سے خرابی کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔


ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم میں قائداعظم کے نام علامہ اقبال کے ایک خط کا حوالہ بھی دیا ہے۔ علامہ اقبالؒ لکھتے ہیں۔ ’’اسلامی قوانین کے گہرے اور دِقت نظر مطالعے کے بعد مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانون کو اچھی طرح سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے تو کم از کم ہر شخص کے لئے حقِ روزی تو محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن جب تک آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں معرض وجود میں نہ آئیں اسلامی شریعت کا نفاذ ممکن نہیں۔ سال ہا سال سے میرا یہی عقیدہ رہا ہے کہ میں اس کو (اسلامی شریعت) مسلمانوں کے روز گار کے مسئلے اور امن و اما ن کا بہترین حل سمجھتا ہوں۔‘‘


علامہ اقبالؒ بھی مسلمانوں کے معاشی مسائل کا حل اسلامی شریعت کے نفاذ میں سمجھتے تھے۔ قائداعظم نے بھی اسلامی نظام معیشت کے تصور کی بات کی تھی۔ کاش قائد اعظم کو زندگی مہلت دیتی تو وہ انسانی مساوات، معاشی عدل، مساوی شہری حقوق،ریاستی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور انصاف کی فراہمی پر مبنی ایک مثالی نظامِ مملکت کی بنیاد رکھتے ،کیوں کہ یہی قائداعظمؒ کا تصور پاکستان تھا۔


مَیں یہاں اسلام کے معاشی نظام کے حوالے سے علامہ اقبالؒ کے ایک اور خط سے ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ خط مولانا ظفر علی خاں کے روز نامہ ’’زمیندار‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں۔ ’’اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔ سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدلال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لئے یہ ایک قسم کی لعنت ہے۔ قرآن کریم نے سرمایہ داری کی قوت کو مناسب حدود میں رکھنے کے لئے قانون میراث اور زکوٰۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے۔ مغرب کی سرمایہ داری ا ور روسی بالشوزم دونوں افراط و تفریط کا نتیجہ ہیں۔ اسلام ہمارے لئے ایک ایسا معاشی نظام تجویز کرتا ہے جس پر عمل کرنے سے سرمایہ داری کبھی مناسب حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی۔


علامہ اقبالؒ اسلام کے اقتصادی نظام کو ایک بہت بڑی نعمت قرار دیتے ہوئے مسلمانوں سے تقاضا کرتے تھے کہ اس کا مطالعہ کریں۔ ظاہر ہے کہ کسی نظام معیشت پر عمل کرنے سے پہلے اسے اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے۔


ڈاکٹر صفدر محمود کے اکثر کالموں کی بنیاد قائد اعظم اور علا مہ اقبالؒ کی فکر ہوتی ہے۔ وہ کسی مخصوص نظریئے کی عینک سے قائد اعظم اور علامہ اقبالؒ کے فرمودات نہیں پڑھتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی فکری دیانت سے کام لیتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ قائداعظمؒ پاکستان کے نظام، آئین اور ریاستی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کے حق میں تھے۔ قائداعظمؒ نے لا تعداد مرتبہ اپنی تقریروں میں قرآن کی حکمرانی، قرآن سے راہنمائی ا ور قرآن سے روشنی لینے کی بات کی۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قائداعظمؒ نے 11اگست 1947ء کے خطاب میں مذہبی اقلیتوں کے لئے برابر کے شہری حقوق کا جو وعدہ کیا تھا وہ میثاقِ مدینہ کی روح کے مطابق تھا اور قائداعظم نے غیر مسلم اقلیتوں کو وہی حقوق دینے کا عہد دہرایا تھا جو حقوق اسلام کی پہلی ریاست کے سربراہ کے طور پر حضور نبی کریمؐ نے غیر مسلموں کو دیئے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ قائداعظمؒ سیکولر ذہن کے مالک تھے، بالکل غلط ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود نے ’’روشن خیال‘‘ دانشوروں کو اپنے ایک کالم میں یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ وہ میثاق مدینہ اور نبی کریمؐ کے خطب�ۂ حجتہ الوداع کا مطالعہ کریں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ قائداعظمؒ نے جب اپنی تقریر میں غیر مسلم اقلیتوں کے لئے مساوی شہری حقوق کی بات کی تھی تو در اصل انہوں نے اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہی بات کی تھی۔ مجھے ڈاکٹر صفدر محمود کی اس بات سے بھی مکمل اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص عقل سلیم سے محروم نہیں تو وہ بڑی آسانی سے یہ نکتہ سمجھ سکتا ہے کہ جس ملک کی بہت بڑی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہو، وہاں کوئی غیر اسلامی قانون بن ہی نہیں سکتا۔ قائداعظمؒ کا تصور پاکستان بھی یہی تھا کہ وہ پاکستان کو ایک اسلامی، جمہوری ا ور فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے، جس کی اساس اسلامی اصولوں پر ہو۔ ڈاکٹر صفدر محمود قائد اعظم کی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں اپنی تحریروں کے ذریعے قائداعظمؒ کے پاکستان کا مطلب اور مفہوم سمجھانے کا فرض سر انجام دیتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی سمجھنا ہی نہ چاہے تو الگ بات ہے ورنہ ڈاکٹر صفدر محمد بڑے دلنشین انداز میں سمجھاتے ہیں کہ قائداعظمؒ مذہب کو ذاتی معاملہ نہیں سمجھتے تھے۔ قائد اعظمؒ مذہب کو اگر سیاست سے الگ سمجھتے تو وہ کبھی مسلم قومیت کی بنیاد پر مسلمانوں کی الگ ریاست کا مطالبہ نہ کرتے۔ تحریک پاکستان کا سب سے طاقتور محرک اسلام ہی تھا۔ کفر کی طاقتوں کے مقابلے میں اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنے کا نام ہی پاکستان تھا۔ اگر قائداعظمؒ سیاست اور مذہب کو الگ رکھنے کے علمبردار ہوتے تو وہ کبھی ان عناصر کی مذمت نہ کرتے جو شریعت پر پاکستان کے دستور کی اساس رکھنے کے مخالف تھے۔

مزید :

کالم -