بے توقیر قانون، بے امان معاشرہ
سعودی عرب میں قتل کے مرتکب ایک سعودی شہزادے کو موت کی سزا سنانے کے بعد اس کا سر بیچ چوراہے میں لوگوں کے سامنے قلم کر دیا گیا۔ مَیں نے یہ ویڈیو دیکھی تو ساری رات اس اُلجھن کا شکار رہا کہ یہ صحیح فیصلہ تھا کہ غلط؟ کیا سعودی شہزادے کو قصاص و دیت کے تحت رعایت نہیں مل سکتی تھی، کیا سزا کا سرِ عام دیا جانا ضروری تھا؟ کیا یہ سعودی قانون کے تحت ہوا یا اسلامی نظام تقاضا تھا؟ اسی دوران میرے ایک دوست محمد سلیم آ پہنچے، اتفاق سے وہ کئی برس بسلسلہ روز گار سعودی عرب میں مقیم رہے۔ مَیں نے اُن کے سامنے اپنی اُلجھن رکھی تو انہوں نے کہا، سعودی عرب کے بارے میں چاہے لوگ کچھ بھی کہیں، اس ملک کی اس خوبی سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ وہاں قانون سب کے لئے برابر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں جرائم کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ گویا انہوں نے پیغمبر آخر الزماںؐ کی اس بات کو پلے باندھ رکھا ہے کہ قانون کی زد میں کوئی اپنا بھی آئے تو کوئی رعایت نہ کرو۔
جہاں تک سرِ عام سر قلم کرنے کا تعلق ہے تو درحقیقت یہ اصلاح کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ جب لوگوں کو یہ پیغام ملے کہ جرم کرنے پر شہزادے کو بھی کوئی معافی نہیں اور لوگ سزا پر عملدرآمد ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیں تو جرم کرتے ہوئے سو بار سوچیں گے۔۔۔ ان کی باتیں اگرچہ میرے لئے نئی نہیں تھیں، تاہم ان کی زبان سے سن کر مجھے اس اُلجھن اور کشمکش سے نجات مل گئی، جو سزا پر عملدرآمد کی ویڈیو دیکھ کر طاری ہوئی تھی۔
اُسی رات مَیں نے یہ خبر بھی سنی کہ بہاولپور جیل میں دو بھائیوں کو سپریم کورٹ میں اپیل کے فیصلے سے پہلے ہی پھانسی دے دی گئی۔ سپریم کورٹ نے جب ان کی سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کا حکم دیا تو ورثاء خوشی خوشی ڈسٹرکٹ جیل بہاولپور پہنچے، جہاں انہیں بتایا گیا کہ دونوں بھائیوں کو پھانسی تو دو سال پہلے دے دی گئی۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے سپریم کورٹ نے مظہر حسین نامی سزائے موت کے ایک قیدی کو بے گناہ قرار دے کر رہائی کا حکم دیا تھا ،لیکن شوم�ئ قسمت کہ وہ تو کئی سال پہلے ہی دُنیا کی قید سے آزاد ہو چکا تھا۔ اس پر مجھے اس سوال کا جواب مل گیا کہ پاکستان میں جرائم کیوں بڑھ رہے ہیں؟ سعودی شہزادے نے دو ہفتے پہلے جرم کا ارتکاب کیا تھا، سماعت کے بعد اُسے سزا دی گئی اور عملدرآمد بھی ہو گیا۔
پاکستان میں مقدمات پندرہ پندرہ سال چلتے ہیں، مدعی فوت ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ قاتل بھی جیل میں سزا کا انتظار کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو کر عالم ارواح میں آزادی کا سانس لیتے ہیں، مگر مقدمات کے فیصلے نہیں ہوتے۔ سپریم کورٹ میں سنے جانے والے ان دو مقدمات نے تو اندھیر نگری چوپٹ راج کے نظام کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ اس سے تو صاف لگتا ہے کہ پولیس ملزموں کو جیل میں ڈال کر بھول جاتی ہے۔ دوسری طرف جیلوں کا نظام بھی گوانتا نا موبے کی جیل سے زیادہ برا ہے۔امریکی بدنام زمانہ جیل میں کم از کم قیدیوں کا ریکارڈ تو موجود ہے، پاکستانی جیلوں میں تو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ سپریم کورٹ میں جس قیدی کے کیس کی سماعت ہو رہی ہے، وہ زندہ بھی ہے یا مر چکا ہے۔
حیرانی تو اس بات کی ہے کہ بہاولپور جیل میں جب دو بھائیوں کی اپیل کا فیصلہ ہی نہیں پہنچا تھا تو انہیں پھانسی کیسے دے دی گئی؟ ڈیتھ وارنٹ کیسے ایشو ہوئے؟ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیوں نہیں کیا گیا؟ آج جو لواحقین اُن دونوں بھائیوں کی پھانسی پر احتجاج کر رہے ہیں، وہ یقیناً اُن کی ملاقات کو بھی جاتے ہوں گے، پھر انہیں اصل صورتِ حال کیوں نہیں بتائی گئی۔ قانون تو یہ کہتا ہے کہ پھانسی کے ہر مجرم کی ورثاء سے آخری ملاقات کرائی جائے،اس کیس میں تو یہ بھی نہیں ہوا اور سب کچھ خفیہ رکھا گیا۔ کیا اب جیلوں کے اندر پھانسی کے معاملے میں بھی پیسے لے کر اپنے دشمن کو سولی چڑھانے کا رواج پڑ چکا ہے۔ پولیس کے بارے میں تو یہ مشہور ہے کہ وہ جعلی پولیس مقابلوں میں دشمنیوں کے مقدمات میں اُجرتی قاتلوں کا کردار ادا کرتی ہے؟ مگر جیل میں پھانسی اور ورثاء کی بے خبری لا تعداد سوالیہ نشان چھوڑ گئی ہے۔ سپریم کورٹ کو ان دو بھائیوں کے مقدمے کی فائل کو بند کرنے کی بجائے سووموٹو ایکشن لیتے ہوئے اس سارے معاملے کی چھان پھٹک کرنی چاہئے اور اگر کہیں قانون کی دھجیاں اُڑائی گئی ہیں تو ذمہ داروں کو کٹہرے میں لا کر سخت سزائیں دینی چاہئیں۔
پاکستان میں قوانین بھی موجود ہیں، عدالتیں بھی ہیں، سزائیں بھی مقرر ہیں، اس کے باوجود سنگین جرائم بڑھتے جا رہے ہیں۔ دُنیا میں سب سے سنگین جرم کسی کو قتل کر دینا ہے۔ پاکستان میں یہ جرم سب سے عمومی جرم بن کر رہ گیا ہے۔ ذرا سی بات پر انسان کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ پرانی دشمنیوں پر گھروں کے تمام افراد قتل ہو جاتے ہیں، غیرت کے نام پر خواتین کو آئے روز گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں قانون تو سخت سے سخت بنا لئے جاتے ہیں، مگر ان پر عملدرآمد کی کوئی سکیم متعارف نہیں کرا سکے، جن کا کوئی عزیز قتل ہو جاتا ہے، وہ قاتل کی طرح انصاف کے لئے اپنا گھر بار بیچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مقدمہ لڑنے کے لئے انہیں قدم قدم پر پولیس اور وکیل کے تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں۔ تفتیشی کو پیسے نہ ملیں تو وہ دوسری طرف سے پیسے لے کر کیس کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے۔ کوئی ایسا نظام موجود نہیں جو دن دہاڑے ہونے والے قتل کے مجرموں کی عدالتوں سے ناکافی شہادتوں کے باعث رہائی پر اس تفتیشی افسر کو کٹہرے میں لا سکے، جس نے مقدمہ تیار کیا۔ جب آج ہونے والے قتل کا فیصلہ 12 سال بعد آئے گا تو معاشرے میں قانون کی دھاک کیسے بیٹھے گی؟اسلام نے فوری انصاف پر کیوں زور دیا ہے؟ سعودی عرب میں فوری انصاف کیوں ہوتا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ قانون کی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے ضروری ہے کہ وہ فوراً عمل میں آئے۔ ہمارے ہاں فوری سماعت کی عدالتیں بھی بن گئیں،ہائی کورٹ کے علاقائی بنچ بھی قائم ہو گئے۔ صوبوں میں سپریم کورٹ کی رجسٹریاں بھی بنا دی گئیں، مگر فوری انصاف پھر بھی نہ مل سکا۔ جتنا لمبا مقدمہ چلتا ہے، اتنا ہی مقتول کے لواحقین اذیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان پر دباؤ بڑھتا ہے،بعض اوقات مقدے کے مدعیوں اور گواہوں کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔ اب ایسے لولے لنگڑے نظامِ انصاف کی موجودگی میں کوئی کیسے یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ ملک میں جرائم کم ہو جائیں گے۔
حالیہ واقعات سے یہ المناک صورت حال بھی واضح ہوئی ہے کہ جیلوں میں بند قیدیوں کے حوالے سے کوئی ایسا خود کار نظام موجود نہیں جو تھانے، جیل اور عدالت کے درمیان رابطے کا کام دیتا ہو۔ پولیس مقدمہ بنا کر جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیتی ہے اور مقدمے کی مثل کسی الماری میں رکھ کر بھول جاتی ہے۔ اُدھر جیل حکام بھی غالباً قیدی کو نمبر الاٹ کر کے اُسے انسانوں کی بھیڑ میں گم کر دیتے ہیں۔ لواحقین عدالت میں اپیل کرتے ہیں،اب جب تک عدالت تاریخ نہ نکالے، پولیس کو قیدی سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ جیل حکام کو۔ جن قیدیوں کے ورثاء دولت مند ہوتے ہیں، وہ اُن سے ملاقات کی سبیل بھی نکال لیتے ہیں اور تاریخ بھی۔۔۔یوں ان کے مقدمے کی سماعت ہو جاتی ہے۔عدلیہ نے ایک نظام وضع کر رکھا ہے،جس کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحبان اپنے ضلع کی جیلوں کا دورہ کرتے ہیں، قیدیوں کے مسائل سنتے اور معمولی جرائم میں بند قیدیوں کی رہائی کا حکم جاری کرتے ہیں، لیکن یہ نظام اتنا موثر نہیں، جس کا سب سے بڑا ثبوت بہاولپور جیل میں دو بھائیوں کو دو سال پہلے دی جانے والی پھانسی ہے، جس سے لواحقین کو بالکل بے خبر رکھا گیا۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج صاحبان دوروں کا شیڈول دینے کی بجائے اچانک دورے کریں اور بیرکوں میں جا کر جیل حکام کی عدم موجودگی میں قیدیوں سے ان کے حالات پوچھیں۔۔۔یہ تو خیر ایک دوسرا پہلو ہے،اصل سوال یہ ہے کہ ہم اپنے نظامِ انصاف کو فوری عدل کا ذریعہ کیسے بنا سکتے ہیں۔ خاص طور پر سنگین جرائم کے مقدمات کو تین چار مہینے میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی حکمتِ عملی کیوں نہیں اپنائی جاتی؟کہنے کو اب بھی دہشت گردی اور خصوصی سماعت کی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کا دورانیہ موجود ہے، مگر اس پر عملدرآمد کی صورتِ حال انتہائی مایوس کن ہے۔انصاف کی بہتری ہماری حکومت اور سیاستدانوں کی کبھی ترجیح نہیں رہی۔ اگر قانون بنا بھی دیں تو اس پر عملدرآمد کے لئے جو عزم اور ارادہ چاہئے، وہ موجود نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ اس ضمن میں ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پاتے۔ ترجیحات کا یہی وہ حصار ہے،جس نے قانون کو بے توقیر اور معاشرے کو قانون شکنوں کی جنت بنا رکھا ہے۔