عمران خان کا متوقع احتجاج اور فسادات کے حوالے سے راولپنڈی اور اسلام آباد کی تاریخ
تحریک انصاف کی طرف سے اسلام آباد میں دھرنے کے اعلان کے بعد ایک بار پھر اسلام آباد میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں میں تصادم کے خدشات نے سر اٹھا لیا ہے۔روا لپنڈ ی ا ور ا سلا م آبا د میں ما ضی میں ہو نے وا لے فسا دا ت سے تا ر یخ بھر ی پڑ ی ہے ۔ دہشتگرد و ں نے بھی ان شہر و ں میں پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سمیت اہم شخصیا ت کو مو ت کے منہ میں دھکیلا۔ سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو دہشت گرد حملہ میں یہیں شہید ہوئیں ۔ سانحہ اوجڑی کیمپ پیش آیا ۔ آہستہ آہستہ راولپنڈی میں سازشوں‘ فرقہ وارانہ فسادات اور احتجاج نے9/11کے بعد زور پکڑ لیا ۔ جہاں تک سازشوں کا تعلق ہے تاریخ بتاتی ہے کہ1951میں سویت یونین کی حمایت سے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حکومت کیخلاف بغاوت کی ناکام کوشش کی گئی۔بتایا جاتا ہے کہ راولپنڈی سازش کیس نامی بغاوت کا منصوبہ اس وقت کے میجر جنرل اکبر خان نے تشکیل دیا تھا۔جنہوں نے1947میں کشمیر کی جنگ میں جنرل طارق کے فرضی نام سے پاک فوج کی قیادت کی تھی۔سازش کے الزام میں پاکستان کے صف اول کے شاعر فیض احمد فیض‘ سجاد ظہیر اور جنرل اکبر کی اہلیہ نسیم شاہنواز بھی گرفتار ہوئیں۔بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان اور اس وقت کے سیکرٹری دفاع(بعد ازاں صدر) میجر جنرل سکندر مرزا‘ لیاقت علی خان کی حکومت کے وفادار رہے۔جنرل اکبر اور فیض احمد فیض کو طویل مدت کی سزائیں ہوئیں۔ان کے وکیل1957میں وزیر اعظم بننے والے بنگالی سیاستدان حسین سہروردی تھے۔1953میں قادیانیوں کیخلاف تحریک کے دوران لا ہور کی طرح راولپنڈی میں بھی خونریز ہنگامے دیکھنے میں آئے۔6 مارچ 1953 کو راولپنڈی میں قادیانیوں کی عبادتگاہوں اور پرنٹنگ پریس پر ہجوم نے حملے کر کے آگ لگا دی۔ان کی دکانوں اور مکانوں کو لوٹ لیا گیا۔اسی روز جنرل اعظم خان نے لا ہور میں مارشل لاء لگا دیا۔مارشل لاء حکام نے’’پمفلٹ قادیانی مسئلہ‘‘ کو اشتعال انگیز قرار دے کر جماعت اسلامی کے بانی اور امیرمولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا عبدالستارنیازی کو سزائے موت سنادی مگر بعد میں یہ سزا عمر قید میں تبدیل اور پھر یہ سزا ختم کر دی گئی۔جماعت اسلامی کی قیادت میں احتجاج کے نتیجہ میں اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمدنے مارچ1953میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں ممتاز دولتانہ اور17اپریل1953کو وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر دیا۔1968میں صدر ایوب خان نے اپنا عشرہ ترقی منایا جس پر7نومبر1968کو این ایس ایف نے راولپنڈی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کیا۔حکومت کیخلاف نکالی گئی اس ریلی پر پولیس نے فائرنگ بھی کی جس میں3طلباء جاں بحق ہوئے جس پر طلباء کے ملک گیر حکومت مخالف مظاہرے اور تحریک سول نافرمانی شروع ہو گئی۔دیگر شہروں کی طرح راولپنڈی میں1977میں بھی عام انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی جانب سے مبینہ انتخابی دھاندلیوں پر ہنگامے شروع ہو گئے۔1980کی دہائی میں ضیاء مخالف تحریک میں بینظیر بھٹو و دیگر رہنماؤں نے راولپنڈی و دیگر شہروں میں احتجاجی ریلیوں کی قیادت کی۔ 10اپریل1988کو سانحہ اوجڑی کیمپ میں موجود وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہدخاقان عباسی کے والد اس وقت کے وفاقی وزیر صنعت و پیداوار خاقان عباسی سمیت1300افراد جاں بحق ہوئے ۔ 2007ء کی وکلاء تحریک میں راولپنڈی کے وکلاء کا نمایاں کردار رہا۔جون2012میں تاجروں سمیت ہزاروں افراد نے غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کیخلاف راولپنڈی میں مظاہرے کئے۔جہاں تک دہشتگردی کے واقعات کا تعلق ہے26فروری2002کو راولپنڈی میں اہل تشیع کی مسجد شاہ نجف پر دہشتگرد حملہ میں11نمازی جاں بحق ہوئے۔11دسمبر2003کو اس وقت کے صدر پرویز مشرف کو ایک بم دھماکے میں اڑا دینے کی ناکام کوشش کی گئی جس کے چند روز بعد ہی25دسمبر کو ایسی ایک اور کوشش بھی ناکام رہی۔28فروری2008کو سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی کی امام بارگاہ پر خود کش حملے میں3نمازی جاں بحق ہوئے۔6جولائی2007کو اپنے طیارے پر دہشتگردوں کی سب مشین گن سے فائرنگ کے باوجود پرویز مشرف بال بال بچ گئے۔ 4دسمبر2007کو راولپنڈی چھاؤنی میں خود کش دھماکے میں25افراد جاں بحق ہو گئے۔ 30 اکتوبر 2007کو پرویز مشرف کے کیمپ آفس سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر پولیس چوکی پر خود کش حملے میں7افراد جاں بحق ہو گئے۔یہ چوکی سابق چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل طارق مجید کی رہائش گاہ کے قریب تھی ۔ 24ستمبر2007کو اوجڑی کیمپ کے باہر کھڑی آئی ایس آئی کے ملازمین کو لے جانے والی بس سے خود کش حملہ آور نے کار ٹکرادی جس کے نتیجہ میں28افراد جاں بحق ہوئے جبکہ جی ایچ کیو میں داخل ہونے کی کوشش کے دوران چوکی پر شناخت کیلئے روکے جانے والے خود کش بمبار نے خود کو اڑا لیا جس کے نتیجے میں ایک سکیورٹی اہلکار اور ایک راہگیر جاں بحق ہو گئے۔27دسمبر2007کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ عام کے وقت خود کش حملے میں سابقہ وزیر اعظم بینظیر بھٹو سمیت20افراد جاں بحق ہوئے۔4فروری2008کو جی ایچ کیو کے قریب خود کش موٹر سائیکل سوار نے گاڑی آرمی میڈیکل کالج کے طلباء اور عملے کو لے جانے والی بس سے ٹکرا دی جس میں10افراد جاں بحق ہوئے۔اسی برس25فروری کو آرمی کور کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل مشتاق بیگ بھی جی ایچ کیو کے قریب اپنے ڈرائیور اور محافظ سمیت قتل کر دئے گئے۔26مارچ کو پیرودہائی کے بس اسٹینڈ پر خود کش حملے میں14افراد جاں بحق ہوئے۔20اگست2009کو پولیس کی ایک گشتی گاڑی کے قریب بم دھماکے میں4پولیس اہلکاروں سمیت8افراد جاں بحق ہوئے۔10اور11اکتوبر2009کے درمیان جی ایچ کیو پر دہشت گرد حملہ میں5کمانڈرز‘6فوجی اور3مغوی جاں بحق ہوئے جبکہ8حملہ آور بھی مارے گئے۔2نومبر2009کو راولپنڈی میں ایک بینک کی شاخ کے باہر خود کش بم دھماکے میں35افراد جاں بحق ہوئے۔4دسمبر2009میں عسکری مسجد راولپنڈی چھاؤنی پر دہشت گرد حملے میں40نمازی شہید ہوئے جن میں17بچوں کے علاوہ ایک میجر جنرل‘ ایک بریگیڈئر‘2لیفٹیننٹ کرنل‘ ایک میجر اور کئی فوجی شامل ہیں۔9فروری2000کو معروف سیاسی رہنما شیخ رشید قاتلانہ حملہ میں بچ گئے تا ہم اس واقعہ میں ان کے3محافظ جاں بحق ہوئے۔20نومبر2012کو قصر شبیر مسجد کے قریب جلوس پر خود کش حملے میں22افراد جاں بحق ہوئے اور2013کے دوران10محرم الحرام کو فوارہ چوک راولپنڈی کے قریب فرقہ ورانہ فسادات میں10افراد جاں بحق ہوئے۔21جنوری2014کو جی ایچ کیو کے قریب خود کش حملہ میں7فوجیوں سمیت14افراد جاں بحق ہوئے جن میں3بچے بھی شامل تھے جبکہ اس حملہ میں33افراد زخمی بھی ہوئے۔ 14اگست 2014کو عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہر القادری نے حکمران جماعت کے خلاف تاریخی دھرنا دیا جس کا عرصہ 126دن پر محیط تھا ۔ یہ احتجاج پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ دنوں پر مشتمل ہے جو مسلسل کیا گیا۔ اس دوران اس احتجاج پر قابو پانے کے لئے اس وقت کے اسلام آباد کے آئی جی پولیس آفتاب احمد چیمہ اور ایس ایس پی اسلام آباد محمد علی نیکوکارہ کو حکم دیا گیا مگر دونوں سی ایس پی افسران نے احتجاج کو روکنے کی بجائے معذرت کر لی اور کام کر نے سے انکار کر دیا جس کی پاداش میں آفتاب احمد چیمہ کو جبری ریٹائر کر دیا گیا جبکہ محمد علی نیکو کارہ بھی اس وقت معطل ہیں ۔ان دنو ں اسلا م آبا د کے حا لا ت پھر ا نتہا ئی خرا ب ہیں اور قا نو ن نافذ کر نے وا لے تما م ادارو ں کو ایک بار پھر اس احتجاج سے جو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان2 نومبر کو کرنے جا رہے ہیں،شدید خدشات لاحق ہیں۔اس دھرنے کے حوالے سے ملک بھر سے فورس اکٹھی کر کے اسلام آباد بھجوا دی گئی ہے اور آپریشن کی تیاریاں بھی مکمل کر لی گئی ہیں ۔گزشتہ آپریشن میں ناکامی کے باعث اس وقت 3 آئی جی سمیت متعدد اعلیٰ پو لیس افسران یہ سب کچھ نہ کر نے کی پا دا ش میں تبد یل کر دئے گئے تھے ۔اب اسلام آباد میں آئی جی پولیس طارق مسعود یاسین ہیں جو حکمران جماعت کے انتہائی اہم پیارے تصور کئے جاتے ہیں جبکہ پنجاب میں آئی جی پولیس پنجاب مشتاق احمد سکھیرا ہیں۔ ان دونوں پولیس افسران کو اس احتجاج پر قابو پانے کے لئے ابھی سے ٹاسک سونپ دیا گیا ہے ۔اب دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔اسلام آباد کا ماحول ایک بار پھر سیاسی نقطہ نظر سے بہت گرم ہو گیا ہے ۔اب لوگوں کی نظریں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ بیورو کریسی پر بھی لگی ہوئی ہیں ۔