لینڈ ریکارڈ کے کنٹریکٹ ملازمین کے اثاثوں میں اضافہ، تحقیقات شروع
لاہور (عامر بٹ سے)بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پی ایم یو ،لینڈ ریکارڈ انفامیشن مینجمنٹ سسٹم میں تعینات کنٹریکٹ ملازمین کے اثاثہ جات کروڑوں سے تجاوز کر گئے ،پی ایم یو ہیڈ کوارٹر سمیت صوبے بھر کے اراضی ریکارڈ سینٹر میں تعینات کنٹریکٹ ملازمین کا موٹر بائیکس سے شروع ہونے والا سفر 40-40لاکھ کی قیمتی گاڑیوں ،عالیشان کوٹھیوں ،بھاری بھرکم بینک بیلنس اور بیرون ملک کے دوروں تک جا پہنچا ،قومی احتساب بیورو کے آرڈینس 27Aاور محکمہ اینٹی کرپشن کے قوانین کی شق 5Cکی روشنی میں تحقیقات لازم قرار دے دی گئیں ،ڈی جی نیب اور ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب سے فوری نوٹس لے کر پی ایم یو میں تعینات ملازمین کے اثاثہ جات کی تحقیقات کرنے کی اپیل کر دی گئی ۔شہری نے واضح ثبوتوں کے ساتھ درخواست محکمہ اینٹی کرپشن میں جمع کروا دی،محکمہ اینٹی کرپشن میں تحقیقات شروع کر دی گئیں۔روزنامہ پاکستان کو ملنے والی معلومات کے مطابق شہری سرفراز حسین نے محکمہ اینٹی کرپشن میں درخواست دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ بورڈ آف ریونیو کے شعبہ پی ایم یو ،لینڈ ریکارڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم ادارے میں بدعنوانی ،کرپشن ،رشوت وصولی،اختیارات کے ناجائز استعمال ،ورلڈ بینک کے مہیا کردہ فنڈز میں خورد برد ،لیپ ٹاپ ،کمپیوٹر آلات سے وابستہ سامان سے لے کر اراضی ریکارڈ سینٹر میں استعمال ہونے والے سامان کی خریداری میں جہاں بڑے پیمانے کی بے ایمانی اور غبن عروج پر ہے وہاں انتظامی اور سرکاری عہدوں پر تعینات افسران کنٹریکٹ ملازمین کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں ،موجودہ چیئرمین پی اینڈ ڈی جہانزیب احمد خان کی عدم دلچسپی اور مانیٹرنگ کے غیر فعال سسٹم نے بھی رہی سہی کسر نکال دی ہے۔اس کے علاوہ پی ایم یو کے ہیڈ کوارٹر میں تعینات متعدد کنٹریکٹ ملازمین 2007میں تعیناتی کے وقت موٹر سائیکل پر آتے تھے آج ان کی 40-40لاکھ کی قیمتی گاڑیوں ،عالیشان کوٹھیوں ،بھاری بینک بیلنس اور بڑھتے ہوئے اثاثہ جات کی مثال کہیں دیکھنے کو نہیں مل رہی ۔ پی ایم یو میں تعیناتی کے مراحل سے لے کر موجودہ حال تک نہ تو کسی ملازم کو ڈیکلیریشن آف اثاثہ جات کی چھان بین یا تصدیق کی پریکٹس کروائی گئی ہے ،پی ایم یو میں بعض جونیئر اور کنٹریکٹ ملازمین کی جانب سے ایک سال کے دوران امریکہ ،انگلینڈ،دبئی اور سعودی عرب میں وزٹ معمول بن چکے ہیں اور پی ایم یو ہیڈ کوارٹر میں بعض کنٹریکٹ ملازمین کی جانب سے بیرون ملک دورے اور وزٹ روٹین کا حصہ بن چکے ہیں اور بعض ملازمین اپنے غیر قانونی طور پر بنائے گئے اثاثہ جات کو محفوظ کرنے کے لئے بیرون ملک روپوش ہونے کی تیاریاں بھی مکمل کر رہے ہیں جبکہ اس وزٹ کے دوران بیرون ملک قیمتی فلیٹس اور اپارٹمنٹس کی خریداری کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔ شہریوں سمیت بورڈ آف ریونیو کے بعض انتظامی افسران نے بھی لینڈ ریکارڈ انفارمیشن سسٹم میں جاری بدعنوانیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس ضمن میں مطالبہ کیا ہے کہ نیب کے آرڈینس 27Aاور محکمہ اینٹی کرپشن کے سیکشن 5Cکے تحت صوبے بھر میں تعینات اے ڈی ایل آر سروس سنٹر انچارج ،پروفیشنل نیٹ ورک سسٹم مینجر ،پرچیزنگ ڈیپارٹمنٹ او آئی سی صاحبان سمیت پراجیکٹ مینجمنٹ پنجاب کے اثاثہ جات کی فوری تحقیقات جاری کرنی لازم ہو چکا ہے ،دوسری جانب پی ایم یو میں تعینات افسران کا کہنا تھا کہ کرپشن کی شکایات پر کارروائیاں کی جارہی ہیں ،الزامات بے بنیاد ہیں ،اثاثہ جات کی تحقیق ہونا ضروری ہے ہم خود اس بات پر متفق ہیں ۔محکمہ اینٹی کرپشن کے ترجمان نے کہا شہری کی درخواست پر تمام تر تحقیقات میرٹ پر ہوں گی ،تمام ملازمین کو اپنے اثاثہ جات کی تفصیل دینا ہو گی ،عدم تعاون پر قانون حرکت میں آئے گا۔