عجیب اضطراب

عجیب اضطراب
عجیب اضطراب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گماں گزرتا ہے سیاسی سفینے نے ساحل کو خیر باد کہا۔بعضے سماع زن اپنی خم گردنوں کو سیدھا کرنے چلے ہیں اور کچھ دف کی دھمال پر اپنا پسندیدہ نغمہ بلند آہنگ الا پا کئے۔بیت رہے شب و روز میں ایسا لگتا ہے جیسے دوسری جانب سے بھی ضبط کے سارے بند ٹوٹ گئے ہوں۔

کچھ تو ڈولتے و ڈگمگاتے سفینہ کا ہچکولا۔۔۔کچھ مخالف مو سیقی کا ہلا گلہ۔۔۔اس پر کچھ معاونین و ناصرین کی شترمرغگی و سرمستی۔۔۔پھر عین بیچوں بیچ اس منظرمیں مخالفین و منحرفین کا محو رقص ہو جانا۔رنگ برنگ ملگجی روشنیوں کے ہالے۔۔۔سیاسی منظر نامے میں کبھی سمٹتے اور کبھی بڑھتے دائرے۔

پرنٹ پریس پر خبر کے پردے میں خواہش کے ہنگامے،الیکٹرونک میڈیا کے پر اسرار اسلوب میں تبصروں کے نام پراپنی نجی بلکہ دلی تجویزیں۔۔۔سب سے بڑھ کر وادی گماں سے خوش گپیوں کے اپنے اپنے تجزیے۔ آخری تجزیے میں دل میں دراڑ در آئے تو ضروری نہیں کہ کلیجہ کٹ جائے،خیالات میں اختلافات ہوں تو لازمی نہیں کہ جدائی کے جادے پر جانکلیں۔


مشرف صاحب کی آمریت میں شریف برادران کے مابین دوریوں کے بیج بونے کی ہزار کوششیں ثمر بار نہ ہوئیں۔بالآخر مسلم لیگ کا پیٹ پھاڑ کر ق لیگ کا سورج مکھی پودا اگایا گیا۔کڑے سمے اور کہر کی راتوں میں تودونوں بھائی سرخرو اور سرفرا ز ہوئے اور آج؟آج قابیل ایسے قاتل کی بسائی ہوئی دنیا میں دونوں دوراہے پر آن کھڑے ہیں۔جی ہاں!وہ جومرزا نوشہ نے غم والم اور اندوہ واندمال حالت میں لخت جگر کے بارے میں بولا تھا:
تاب لائے ہی بنے گی غالب
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
یہاں معاملہ فلک کج رفتار کی مانند الٹ آن پڑا کہ جان نہیں اولاد عزیز ہے۔اب بات بنائے،بوجھ اٹھائے اور ایثاردکھائے بنے گی ورنہ تویہاں قدم قدم پر اعتمادواعتبار کو ٹھیس پہنچتی ہے،گا م گام پر ہر لمحہ ایک رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔

دیکھئے اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ معاملات جہانگیری و جہاں بانی میں دونوں کے درمیان سب اچھا نہیں۔بہر حال یہ بھی غنیمت ہے کہ فریقین و طرفین کی جانب سے یہ بات واضح انداز میں کہی نہیں جاتی۔تصادم نہیں تعاون کی حکمت عملی بہت اچھی لیکن آخر کب تک؟ قیامت تک؟امہات مصیبت یہ کہ جادوگروں کی جانب سے تو مسئلے کاادراک کیا نہیں جاتا، شایداسی لئے معاملہ الجھتاجائے اوررنگ کھلتا جائے ہے۔


حالیہ ایام میں عجیب اضطراب عود آیا ہے کہ بس دلوں کودھڑکاسا لگا رہتا ہے۔کبھی مصرع پرپھڑکتی گرہ لگتی ہے،کہیں مضموں اور زمیں بدل کراسی ردیف و قافیہ میں کلام موزوں کیا جاتا ہے۔

مقام اطمینان کہ تان بالآخر دستوری برتری پر ٹوٹا کئے کہ یہاں آ کر توہر کسی کا جھکتا ہے سر۔گویا’’مومن نے اس زمین کو مسجد بنا دیا‘‘۔کہنے اور کرنے میں زمین وآسمان کا فرق ہے ،قول اگر فعل پر عمل پیرا نہ ہو تو پھر سب کہانیاں ہیں بابا!آئینی بالا دستی اور اقتصادی بہتری کی باتیں بہتر پرآئین کی امین مخلوق سے یہ سلوک کیسا؟حساب فہمی کے عارضے نے اعتدال و تحمل کو آخر کیوں بھلا دیا؟سوچا چاہئے کہ آخر کس چیز نے جھگڑے کو اس کی حدوں سے بڑھا دیا؟کیکر کے پیڑ سے کبھی انگور کے گچھے نہیں توڑے گئے اور کوئلے کی کمائی کالک کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔


وحشتوں کے بہاؤاور افواہوں کے اندھیاؤمیں افراد تو کجا قبائل و ملل بھی بند گلی میں آ پھنستے ہیں۔مصالحت کے نقیب اور تعاون کے علمبرداروں کو خبر کرو کہ سپاہ و شاہ کے دلوں میں اگر دوری ہو تو میدان کبھی ہاتھ میں نہیں رہتا۔زوال کی ہلا مارنے والی شدت سے اگر آج سیاسی نظام دو چار ہے تو یہ بے سبب اور عبث نہیں۔جادوگروں کے جنتر منتر کاتوڑ تو خیر آج بھی نہیں۔اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو کہ کچھ مٹی کے مخمور پتلے ہیں جن پر یہ پھونکا گیا۔اوروں کو توچھوڑیئے زرداری صاحب پر بھی اس کے اثرات ہنوز دیکھے جا سکتے ہیں۔وہ بادشاہ گر آدمی ہیں اور باتوں باتوں میں باغ لگانا ان کی پرانی ریت رہی۔

گاہے ماہے وہ دھیمے لہجے میں قطرہ کو قلزم اور جمنا کو جوہڑ باور کرانے لگتے ہیں۔پارلیمانی سیاسی نظام کو لاحق امراض نئے نہیں کہ اس کی جڑیں ماضی کے دور میں ملتی ہیں۔اِ دھر اور اُدھر کے رہنماؤں کو الگ رکھیئے کہ یہ تو شروع سے ہی شفا یابی کے لئے کوئی نہ کوئی نسخہ شفا آزمایا کئے۔

حد یہ کہ میر تقی میر کے لونڈے بھی دعوائے مسیحائی جتاتے رہتے ہیں۔آدمی پریشاں خیالی میں سوچتااور پھر حیراں و سرگرداں رہ جاتا ہے کہ الٰہی ماجرا کیا ہے۔چارہ گر مریض کو دوا دیتے نہیں تھکتے اور کمبخت بیمار ہے کہ اچھا ہوتانہیں۔مریض اچھا نہ ہوتو پھر ایسے مسیحا کا کیا علاج!


جاننااور ماننا چاہئے کہ پاکستان کے مستقبل کوسنی سنائی خوش گپیوں اور بے اصل خوش فہمیوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔اس کا اول و آخر مقدر جمہوری نظام کے استقلال اور استمرار میں مضمر ٹھہرا۔ٹی وی پر ٹانگیں پھیلائے بیٹھے نابالغ دانشور وں کی بات دوسری رہی جو کسی ٹیکنو کریٹ یا کوئی منصف یا پھر مارشل مسیحا کی راہ تکا کئے۔جنرل ایوب سے مشرف تک کتنے لوگ آتے جاتے رہے،ایک ایسا مسیحا جو ان کی آرزؤں کی تسکین کرے یا ان کی امانیات کو سیراب کردے۔۔۔ان کے ہاں اس کا انتظار آج بھی باقی و برقرار ہے۔قیاس چاہتا ہے کہ صور اسرافیل پھونک دیا جائے گا اوریہ لوگ پھر بھی انتظار میں پائے جائیں گے۔

مزید :

کالم -