بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن

بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وزیر اعظم عمران خان نے انرجی ٹاسک فورس کے اجلاس میں ہدایت کی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے اور پاور سیکٹر میں چوری اور دوسرے نقصانات (لائن لاسز) کی وجہ سے صارفین پر پڑنے والے اضافی بوجھ کو ہٹانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں،اجلاس میں بجلی چوروں کے خلاف فوری طور پر کریک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ کیا گیا وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کسی دوسرے کی چوری اور سرکاری بدانتظامی کا خمیازہ عوام بھگتیں یہ قابلِ قبول نہیں، وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ بجلی چوری کی روک تھام کے لئے حکومتِ پنجاب کی جانب سے خصوصی ٹاسک فورس بنادی گئی ہے ضلعی سطح پر متعلقہ ڈی سی بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن کی نگرانی کریں گے اس سلسلے میں دوسرے صوبوں کو بھی ہدایت جاری کردی گئی ہے۔بجلی چوری کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے یہ عشروں پر محیط ہے اور مختلف حکومتوں کے ادوار میں بجلی چوری روکنے کی جتنی بھی کوششیں ہوئیں وہ کُلّی طور پر کامیاب نہیں ہوئیں، کہیں کہیں جزوی طور پر وقتی کامیابی ضرور ہوئی لیکن جونہی انتظامیہ کا دباؤ کم ہوا بجلی دوبارہ چوری ہونا شروع ہوگئی، بجلی چوری بعض صنعتی اداروں اور سٹیل رولنگ ملوں میں ہوتی ہے اور یہ ’’کاروبار‘‘ متعلقہ بجلی کمپنیوں کے ملازمین کے تعاون سے چلتا ہے، جہاں ایسا تعاون نہیں ہے وہاں بجلی چوری یا تو سرے سے نہیں ہوتی یا بہت ہی معمولی ہوتی ہے، کسی عام صارف کا بجلی کا میٹر معمول کے مطابق بھی خراب ہوجائے تو اسے اس خرابی کا ذمے دار قرار دے کر بھاری رقم کا ’’ڈی ٹیکٹو‘‘ بل تھما دیا جاتا ہے جو لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ضرور ہوتا ہے اب اگر بجلی کے میٹر کی خرابی میں کسی صارف کا قصور ہے یا نہیں ’’قہر درویش برجانِ درویش‘‘ یہ سزا اسے بھگتنا پڑتی ہے،لیکن جو صارفین اتنے دلیر ہوتے ہیں کہ بجلی کی مین سپلائی لائن پر کنڈے ڈال کر براہ راست بجلی چوری کرتے ہیں اُن سے یا تو صرف نظر کیا جاتا ہے یا پھر چند روزہ کارروائی کے بعد وہ دوبارہ یہی دھندہ شروع کردیتے ہیں بڑی بڑی فیکٹریوں میں بجلی چوری ہو ہی نہیں سکتی اگر عملے کا تعاون اس میں شامل نہ ہو، بجلی چوری کا راستہ بھی یہ عملہ خود ہی تجویز کرتا ہے اور اپنی اس خدمت کا صلہ وصول کرتا ہے، بعض علاقے ایسے ہیں جہاں من حیث الجماعت بجلی چوری ہوتی ہے فاٹا کے علاقوں میں تو بل ہی ادا نہیں کئے جاتے اور یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ جب وہ اتنے دوسرے ٹیکس دیتے ہیں تو پھر بجلی کا بل کیوں؟

اب یہ علاقے صوبے کا حصہ بن چکے ہیں دیکھنا ہوگا کہ ان علاقوں کے ساتھ دوسرے علاقوں والا مساوی سلوک کیا جاتا ہے یا نہیں۔ اسی طرح جاگیر داروں کے زیر اثر بعض علاقے ایسے ہیں جہاں دھڑلے سے بجلی چوری ہوتی ہے اور متعلقہ عملہ اس جانب نگاہِ غلط انداز نہیں ڈالتا، لاہور میں تو ایک بار سٹیل مل مالکان نے باقاعدہ ایک احتجاجی جلوس نکالا جس میں اپنا یہ ’’موقف ‘‘بیان کیا کہ سٹیل کا کاروبار بجلی چوری کے بغیر ایک ماہ بھی نہیں چل سکتا کیونکہ مالکان کو وہی منافع ہوتا ہے جو وہ بجلی چوری کرتے ہیں اگر پوری ایمانداری کے ساتھ بل ادا کریں تو سٹیل مل کا یہ کاروبار خسارے کا سودا ہے۔

پچھلی حکومت نے بجلی چوری کا ایک حل یہ نکالا تھا کہ اُن علاقوں میں لوڈشیڈنگ بڑھا دی تھی جہاں بجلی چوری زیادہ ہوتی تھی یہ بھی ایک طرح سے اظہار بے بسی کا برملا اظہار تھا کہ انتظامیہ بجلی چوری تو نہ روک سکی لوڈشیڈنگ میں اضافہ کردیا گیا جس کی زد میں وہ صارفین بھی آگئے جو دیانتداری سے پورے بل بروقت ادا کرتے ہیں اسی طرح لائن لاسز کی قیمت بھی اُن لوگوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ لائن لاسز بھی بعض صورتوں میں 30 فیصد (یا اس سے بھی زیادہ) ہو جاتے ہیں، چنانچہ بجلی کمپنیاں اپنے نقصانات کے ازالے کے لئے یہ سب بوجھ بھی بل ادا کرنے والوں پر تقسیم کر دیتی ہیں اور جو بل نہیں دیتے وہ نہ تو اپنی استعمال شدہ بجلی کا بل دیتے ہیں اور نہ ہی لائن لاسز کا، اسی لئے وزیر اعظم کو ٹاسک فورس کے اجلاس میں یہ کہنا پڑا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ بجلی چوری کی قیمت بھی بل ادا کرنے والے ادا کریں۔ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ بہت ہی مشکل ٹاسک ہے کیونکہ ماضی میں اکثر دیکھا گیا جس علاقے میں کوئی ٹاسک فورس کارروائی کرنے کے لئے گئی بجلی کمپنی کے اہل کاروں نے ہی چوروں کو پہلے سے خبردار کر دیا اور یوں چھاپہ مار کارروائی کامیاب نہ ہو سکی، اگر کسی جگہ کامیابی ہوئی بھی تو دوسری جگہوں پر ناکامی کا سامنا ہوا یہی وجہ ہے کہ کنڈوں کے ذریعے بجلی چوری دھڑلے سے آج تک جاری ہے اور کوششوں کے باوجود یہ سلسلہ نہیں رک پایا۔ اب اگر موجودہ حکومت بھی یہ کام کرنا چاہتی تو اسے عوام الناس کی طرف سے تعاون حاصل ہونا چاہیے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پکا ہاتھ ڈالا جائے،

نیم دلانہ کارروائیوں کا نتیجہ کامیابی کی صورت میں نہیں نکلتا جیسے پنجاب کی حکومت نے بڑے زور شور سے تجاوزات کے خلاف کارروائیاں شروع کی تھیں جو کہیں کہیں تو کامیاب ہو گئیں لیکن اکثر جگہوں پر ناکامی ہوئی، اس کی وجہ بھی غالباً یہ تھی کہ پہلے سے درست ہوم ورک نہیں کیا گیا تھا جن تعمیرات کو ’’قبضہ گروپوں کے قبضے‘‘ میں ظاہر کیا گیا وہ ان کے جائز قابض تھے۔البتہ وہ سرکاری ملازمین جو ماضی میں قبضہ گروپوں کے ساتھ مل کر قبضے کراتے رہے انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت جانتے ہوئے انتظامیہ کو بعض فہرستیں تھما دیں پہلے انہوں نے قبضے کرنے والوں سے رشوت لی اور پھر انتظامیہ کی نظروں میں سرخرو ہونے کی کوشش کی ایسی کوششوں کا نتیجہ کبھی مثبت نہیں نکل سکتا، اس لئے یہ بات خوش آئند ہے کہ بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے تویہ ضروری ہے کہ ایسی کوئی کارروائی ناکامی سے دوچار نہ ہو۔ اگر اس کا نتیجہ بھی وہی نکلا جیسا ماضی کی کارروائیوں کا نکلتا رہا ہے تو پھر دیانتداری سے بل دینے والوں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔بجلی کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ فی الحال موخر کر دیا گیا ہے لیکن قیمت میں جس پونے چار روپے اضافے کی بات کی جا رہی ہے اگر اس شرح سے قیمت بڑھا دی گئی تو پھر وہ لوگ بھی بجلی چوری کا سوچیں گے جو فی الحال اس لعنت سے بچے ہوئے ہیں۔کیونکہ ایک معقول سطح سے زیادہ مہنگی بجلی کسی بھی لحاظ سے کم آمدنی والے لوگوں کے بس کی بات نہیں رہے گی اس کے لئے ضرورت تو یہ ہے کہ بجلی بنانے کے لئے سستے ذرائع تلاش کئے جائیں، مہنگی بجلی پیدا کرنے کا سلسلہ تدریجاً روک کر سستی بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی ہونی چاہئے جو اس وقت بھی پانی سے بن سکتی ہے اس کے لئے بڑے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے جن سے ماضی کی حکومتوں نے صرف نظر کیا، اب اگر بڑا ڈیم بنانے کا کام ہنگامی بنیادوں پر شروع کر دیا جاتا ہے تو چند برس بعد سستی بجلی کے حصول کی امید کی جا سکتی ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -