آغا شورش کاشمیری، صاحبِ اسلوب شاعر، بیباک صحافی اور بے مثال خطیب
آغا شورش کاشمیری ایک جامع الصفات انسان تھے۔ وہ بیک وقت صاحبِ اسلوب ادیب وشاعر، بے باک صحافی اور بے مثال خطیب تھے ،انہوں نے اس وقت خارزارسیاست میں قدم رکھا،جب ہندوستان انگریز قوم کا غلام تھا۔ وہ تحریکوں کا دور تھا، مولاناظفرعلی خان نے اپنی تنظیم مجلس اتحاد ملت کے پلیٹ فارم سے مسجد شہید گنج کی بازیابی کے لئے تحریک شروع کررکھی تھی۔ آغاصاحب بھی اس تحریک کے دست وبازوبن گئے۔ قیدوبند کی آزمائش کا بڑے حوصلے اور دلیری کے ساتھ سامناکیا،لیکن تھوڑے عرصے ہی میں انہیں اندازہ ہوگیاکہ تحریک کے اصل مقاصد کچھ اور ہیں۔ چنانچہ وہ مجلس احرارِاسلام سے وابستہ ہوگئے، جس کے قائدرئیس الاحرار مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ تھے ۔احرارمسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان سے ہم آہنگ نہ ہوسکے ۔البتہ انہوں نے حصول آزادی کی جنگ پورے خلوص اورجذبے کے ساتھ لڑی اور بے پناہ قربانیاں دیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد احرار نے پاکستان کی عز ت وحرمت پرکٹ مرنے کا اعلان کیا۔
آغا شورش کاشمیری نے آزادی کے ایک سال بعد ہفت روزہ چٹان جاری کیا،جوپاکستانی صحافت میں حق گوئی کا استعارہ بن گیا۔ آغاصاحب اپنے قلم اور زبان سے حکومتوں کے آمرانہ رحجانات پر کھل کر تنقید کرتے، نہ کبھی حکمرانوں کی دھمکیوں کوخاطر میں لاتے اور نہ کبھی کسی حلقے کی ستائش سے متاثرہوتے۔ وہ جوصحیح سمجھتے اور جس کام میں ملک وقوم کی فلاح دیکھتے اس کی تائید کرتے۔ ان کے اداریے جہاں عالمانہ خیالات کانمونہ ہوتے، وہاں قاری کو انشاپردازی کالطف بھی دیتے تھے ۔ادب میں بھی آغاصاحب نے اپنی انفرادیت کا لوہا منوایا، خاص طورسے خاکہ نگاری میں ممتاز مقام حاصل کیا۔حسین شہید سہروردی، حمید نظامی اور میاں افتخارالدین کے خاکے ان کی زندہ رہنے والی تحریریں ہیں۔ ان کی سوانحی کتب پسِ دیوارِ زنداں ،بوئے گل نالۂ دل دودِچراغِ محفل، تمغہ خدمت اور موت سے واپسی ایسی کتابیں ہیں، جن کے مطالعہ کے بغیر قبل ازتقسیم اور بعدازتقسیم کی سیاست کے پیچ وخم کی پوری تفہیم نہیں مل سکتی۔ادب کے حوالے سے ان کے دوسفرنامے ’’یورپ میں چارہفتے اور شب جائے کہ من بودم‘‘ بھی قابل ذکرہیں۔موخرالذکرکاتوہرجملہ ایک خاص سانچے میں ڈھلا ہوا ہے اور رُوح میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔ قافیے کا التزام ان کی تحریر کو چارچاند لگا دیتا ہے ۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
*عربوں کے خون میں کبھی طیش تھا،اب عیش سما گیاہے۔
*عربوں میں دوہی چیزیں عرب رہ گئی ہیں: ایک زبان اور دوسرااذان۔
*میں سوچ رہاتھایہ کتاب اسی نرس کے نام منسوب کروں، لیکن پھرخیال آیاکہ عورتیں انتساب کے لئے نہیں ،حجاب کے لئے ہوتی ہیں ۔
آغاشورش مذہبی اور سیاسی سٹیجوں پر لب کشاہوتے تو مجمع گھنٹوں گوش برآواز رہتا۔نادر تشبیہات اور ارفع خیالات کا ایک آبشار بہہ رہا ہوتا اور سامعین کو مسحور کئے رکھتا۔موضوع سے مطابقت رکھنے والے اشعار تو اس کثرت اور روانی کے ساتھ پڑھتے کہ سامعین جھوم جھوم اُٹھتے۔ اگست 1970ء میں آغاشورش گجرات تشریف لائے اور ڈیڑھ گھنٹہ تک خطاب کیا۔ اتفاق سے وہ تقریر میرے حافظے میں محفوظ رہ گئی۔ اس وقت ان سے پہلے علامہ احسان لٰہی ظہیر نے اپنی خطابت کا سماں باندھ دیا تھا۔ آغا صاحب نے خطبہ مسنونہ کے چند الفاظ ادا کرنے کے بعد تقریر کا آغا ز کیا، فرمانے لگے :
صدرِگرامی منزلت ،بزرگانِ محترم اور عزیزانِ ملت! مجھ سے پہلے میرے عزیز بھائی حافظ احسان الٰہی ظہیر نے جس قہروغضب کے انداز میں اپنے خیالاتِ عالیہ کا اظہار کیا ہے اور جس روانی اور طغیانی سے اپنی موجوں سے آپ کے دامنِ سماعت کو دھونا چاہا ہے، میں اس میں مزید کوئی اضافہ نہیں کرسکتا، اپنا اپنا انداز، اپنا اپنا ڈھب،اپنا اپنا رُخ اپنے اپنے تیور اور اپنا اپنا اسلوب ہوتا ہے اور آدمی اپنے جذبات کو اس سانچے میں ڈھال کرپیش کرتا ہے۔ آج جب میں یہاں آرہا تھا یا جب یہاں کے دوست مجھے بار بار دعوت دینے کے لئے جاتے تھے، بات چیت کرتے تھے، گفتگو کرتے تھے اور ہمارے ان بھائیوں کے متعلق جوہماری مخالف صف میں ہیں، ان کی حکائتیں بیا ن کرتے تھے تو ظاہر بات ہے جو باتیں وہ بیان کرتے تھے میں ان کو سنتا تھا، لیکن آویزۂ گوش نہیں بناتا تھا، بس یوں سمجھتا تھا کہ صرصرکی ایک موج آتی ہے اور نکل جاتی ہے، جہاں تک حافظ صاحب کا تعلق ہے تو مجھے ان کے جذبے میں، ان کی خطابت میں، ان کے ولولے میں اور ان کے ایمان میں رتی بھر شبہ نہیں، وہ مدینہ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں، بڑے عالم اور فاضل آدمی ہیں، مستقبل اب انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہے، ہم لوگ تواب چراغ سحری ہیں:
جی کاجانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا
اور
کھو چکاجوجوش طاقت اب ملے دشوار ہے
حشرمیری صحت اب گرتی ہوئی دیوارہے
ایک قافلہ، بہت پُرانا قافلہ جو کبھی چلاتھا، یہاں گجرات ہی سے چلا تھا اور ایک شخص اٹھا تھا دیوانہ، جس کے بالوں کے ساتھ کائنات بھی جُنبش کیا کرتی تھی، اس قافلے کا ایک بچھڑا ہوا مسافر میں بھی ہوں، وہ قافلہ اپنی منزل پر پہنچ گیا ہے اور میں منزل کے قریب آگیا ہوں۔ آج یہاں گجرات کے بڑے ذہین لوگ بیٹھے ہیں، فطین لوگ بیٹھے ہیں، (چھتوں کی طرف دیکھتے ہوئے ) حسین لوگ بیٹھے ہیں، نازنین بیٹھے ہیں اور مہ جبین بیٹھے ہیں تو میرا بھی جی چاہتا ہے کہ ایسی باتیں کہتا جاؤں کہ بقول حفیظ:
میرے چُپ رہنے کی عادت جس کا رن بدنام ہوئی
اب وہ حکایت عام ہوئی ہے سنتاجاشرماتاجا
یا باالفاظِ بیدم:
رہیں گی بعد میرے بھی یوں ہی رسوائیاں میری
جو چُپ رہوں گاتو دنیا کہے گی داستاں میری
اب ان دونوں کومربوط کرنے کے بعد فانی کے اس شعر کی طرف آئیے :
اے اہل حشر ہے کوئی نقادِ سوزِدل
لایا ہوں دل کے داغ نمایاں کئے ہوئے
آغا صاحب کی تشریف آوری سے تھوڑے ہی دن پہلے پیپلز پارٹی کے رہنما مولانا کوثر نیازی بھی گجرات آئے تھے اور آغا صاحب کے خلاف دل کے پھپھولے پھوڑ کر چلے گئے تھے، چنانچہ پہلے تو حافظ احسان الہٰی ظہیرمولانا کوثر نیازی کے خلاف خوب گرجے برسے، پھر آغا شورش نے بھی چند جملے اسی پس منظر میں کہے۔ فرمایا:
’’حافظ جی نے اگر ان کے بارے میں سخت سی باتیں کہی ہیں تو آخر ان کو حق تو پہنچتا ہے کہ جب ان کے دوستوں کی، ان کے رفیقوں کی اور ان کے ہم سفروں کی توہین کی جائے گی، اہانت کی جائے گی تو جب تک انسان آگ، ہوا اور مٹی کا بنا ہوا ہے، اس کو غصہ آئے گا اور وہ ایسی باتیں کہہ جائے گا، لیکن میرا معاملہ تو بقول ناسخ کے ہے:
ان کو آتا ہے پیار پر غصہ
مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے
اگر ہم میں گناہ نہ ہوتے، عصیاں شعاری نہ ہوتی تو پھر رحمتہ اللعالمینؐ کے تشریف لانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
آغا صاحب تقریر کے دوران جب دیکھتے کہ مجمع کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہوگیا ہے تو اچانک کوئی نہ کوئی پھلجھڑی چھوڑ دیتے۔ کسی نے آغا شورش کاشمیری زندہ باد کا نعرہ لگایا تو فرمانے لگے: یار آپ کے نعروں کا بھی کیا اعتبار! یاد ہے،جب میں سہروردی کے ساتھ آیا تھا تو آپ لوگوں نے ہاتھ اٹھا کر کہا تھا ہم آپ کے ساتھ ہیں تو میں نے کہا تھا، یار تمہارے تو گھڑوں نے کبھی وفا نہیں کی، ہم سے کیسے کرو گے‘‘! (سوہنی کے کچے گھڑے کی طرف اشارہ ہے)
کالم کی تنگ دامنی آڑے آتی ہے ورنہ تقریر کا باقی حصہ بھی اہلِ ذوق کی نذر کرتا۔ دل سے دُعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آغا شورش کی خدمات کو شرفِ قبولیت بخشے اور انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین!