انصاف کا خون
آجکل ملک ایک خاص کیفیت سے گزر رہا ہے عموماً ہمارے ہاں انتقال اقتدار کے وقت کچھ ایسا ہی ہوتا ہے عدم استحکام پیدا ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے 70 سال بعد بھی ہم بنیادی ایشوز پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر سکے اور سیاسی استحکام کی منزل حاصل نہیں کر سکے، لہٰذا تقریباً ہر دفعہ حکومت کی تبدیلی کے وقت ملک ایک سیاسی بھونچال سے گزرتا ہے اس وقت بھی عجیب انتشار ہے حکومت ابھی تک مستحکم نہیں ہو سکی۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا معاشرہ کچھ عدم توازن کا شکار ہو گیا ہے۔
اس صورتحال سے ریاست کے ادارے بھی محفوظ نہیں وہ بھی طرح طرح کے الزامات کی زد میں ہیں۔ نیب کچھ زیادہ ہی سرگرم ہو گیا ہے اور سیاستدانوں کے بعد ماہرین تعلیم کو بھی ہتھکڑیاں لگائی جا رہی ہیں۔ سپریم کورٹ بھی کسی حد تک اس صورت حال سے دوچار ہے۔ ابھی پچھلے دنوں لاہور میں جو واقعہ پیش آیا جس میں کچھ وکلاء نے ایک پولیس افسر کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے نوٹس لیا، جس کے نتیجے میں چیف جسٹس اور وکلاء کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوئی، لیکن بہت اچھا ہوا کہ چیف جسٹس نے میرٹ پر سٹینڈ لیا اور وکلاء کے سامنے نہیں جُھکے۔
پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب محترم ثاقب نثار نے خود کہا ہے کہ ہم بھی انسان ہیں اور غلطی کر سکتے ہیں ان کے اس بیان سے مجھے کچھ باتیں کہنے کا حوصلہ ملا ہے۔ ناانصافی کی بھی کئی شکلیں ہیں۔ انصاف میں غیرمعمولی تاخیر بھی ناانصافی کی ایک شکل ہے۔ بدقسمتی سے میں اس ناانصافی کا بھی شکار ہوں اور وہ بھی سپریم کورٹ سے جو انصاف کی آخری اُمید ہے۔ میری ایک سول اپیل 2014ء سے سپریم کورٹ میں دائر ہے، لیکن ابھی تک اُس کی سماعت شروع نہیں ہوئی۔ کیس چالیس بتالیس سال پرانا ہے۔ اس دوران میرا وکیل بھی اس دنیا سے چلا گیا اور مجھے نئے وکیل کی خدمات حاصل کرنی پڑیں۔
خیر اس سلسلے میں لکھنے کو بہت کچھ ہے جس کی کالم میں گنجائش نہیں ۔
چند ہفتے پہلے میں سپریم کورٹ کے ایک غیرمعمولی فیصلے کی زد میں آ گیا ہوں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ میں نے 1998ء میں نیشنل پولیس فاؤنڈیشن سے E-11 میں 500 گز کا ایک پلاٹ الاٹ کروایا تھا، تاہم دو سال کے بعد میں نے وہ پلاٹ بیچ دیا،لیکن کوئی دو ہفتے پہلے ڈسٹرکٹ سیشن جج اسلام آبادکی طرف سے مجھے ایک نوٹس ملا ہے کہ آپ اُس پلاٹ کے سلسلے میں پانچ لاکھ 88 ہزار روپے پولیس فاؤنڈیشن میں جمع کرائیں گویا یہ پلاٹ الاٹ کرا کے میں نے کوئی جرم کیا ہے۔ بہت لوگ حیران ہوں گے کہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ پلاٹ بیچنے کے 18 سال بعد پلاٹ کی قیمت کے سلسلے میں آپ کو اتنی رقم جمع کرانے کا حکم دیا جائے، تو حیران نہ ہوں جناب یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور وہ بھی انصاف کے نام پر، اسے کہتے ہیں ناکردہ گناہوں کی سزا۔
ہوا یوں کہ 2011 ء میں اُس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب نے پولیس فاؤنڈیشن کے معاملات کا سوموٹو نوٹس لے لیا۔ بنیاد یہ تھی کہ پولیس فاؤنڈیشن نے جو رہائشی سکیمیں شروع کی ہیں اس میں اربوں روپے کے گھپلے ہیں اُن مبینہ گھپلوں میں مسلم لیگ کے ایک لیڈر انجم عقیل شامل تھے۔ عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعد یہ رائے قائم کی کہ نیشنل پولیس فاؤنڈیشن نے غیرقانونی ہزاروں پلاٹ الاٹ کئے ہیں جنہیں کینسل کرنے کی ضرورت ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ پولیس فاؤنڈیشن کی رہائشی سکیموں کا مقصد تو پولیس کے ملازمین خصوصاً پولیس کے شہداء کے ورثاء کو سستے پلاٹ مہیا کرنا تھا، جبکہ انہوں نے اور کئی محکموں کے لوگوں کو بھی پلاٹ الاٹ کر دیئے جو غیرقانونی ہے پھر یہ کہ پلاٹ مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر دیئے گئے اور یوں غیرمستحق لوگوں کو فائدہ پہنچایا گیا۔ اس سارے معاملے کا تفصیلی جائزہ لینے کے لئے عدالت نے جسٹس مولوی انوارالحق کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کر دیا۔
کمیشن نے تقریباً چھ ماہ تک غوروفکر کرکے فیصلہ کیا، کیونکہ کچھ لوگوں نے پلاٹ فروخت کر دیئے ہیں، لہٰذا اب کینسل نہیں کئے جا سکتے۔ اس لئے کمیشن نے کسی فارمولے کے تحت اُن پلاٹوں کی قیمت کا ازسرنو تعین کیا اور یوں فالتو رقم الاٹیوں کو جمع کرانے کا حکم دیا جو اوریجنل الاٹی تھے اور انہوں نے مکانات تعمیر کر لئے تھے۔ اُن میں سے اکثر نے یہ جرمانہ ادا کر دیا، کیونکہ اب اُس پلاٹ کی قیمت تقریباً پانچ کروڑ روپے ہو گی، تاہم کچھ لوگوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے تو اوین مارکیٹ سے پلاٹ خریدا تھا اس لئے اگر کوئی ناجائز فائدہ اُٹھایا ہے تو وہ اوریجنل الاٹیز نے اُٹھایا ہے اس لئے یہ جرمانہ اُن پر ڈالا جائے۔ عدالت نے اُن کا یہ مؤقف تسلیم کر لیا بعد میں کچھ اور لوگوں نے عدالت کی توجہ اس طرف دلائی کہ ہم یہ پلاٹ بہت پہلے فروخت کر چکے ہیں۔ اس لئے ہم پر جرمانہ لگانا ناانصافی ہے، لیکن سپریم کورٹ نے اُن کا مؤقف مسترد کر دیا اور حکم دیا کہ رقم جمع کرائیں میں چونکہ 18 سال پہلے پلاٹ فروخت کر چکا تھا لہٰذا نہ میں نے ایسی خبروں کا نوٹس لیا اور نہ ہی مجھے کوئی نوٹس ملا۔اگر میں اس عمل میں شامل بھی ہو جاتا تو پھر بھی نتیجہ یہی نکلنا تھا۔
اب عدالتی فیصلے پر ذرا غور کریں۔ پہلا اعتراض یہ کہ پلاٹ غیرمستحق لوگوں کو الاٹ کئے اس لئے غیرقانونی ہیں پہلی بات یہ کہ اگر یہ غیرقانونی کام ہوا ہے تو نیشنل پولیس فاؤنڈیشن کے ان حکام کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے جنہوں نے یہ غلط پالیسی بنائی اصل جرم تو اُن کا ہے ۔یعنی اب کسی سرکاری ادارے سے کوئی فائدہ لینے سے پہلے پتہ کریں کہ محکمے کی یہ پالیسی قانون کے خلاف تو نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اول تو سینئر پولیس افسروں کا یہاں پلاٹ الاٹ کرانا ہی نامناسب تھا،کیونکہ انہوں نے تو ایک سرکاری افسر کے طور پر اپنے گریڈ کے مطابق فیڈرل گورنمنٹ ہاؤسنگ ایمپلائز فاؤنڈیشن سے پلاٹ لینا ہے۔
یہاں پر بس نہیں اعلیٰ پولیس افسران نے ایک نہیں بیویوں اور بچوں کے نام کئی کئی پلاٹ الاٹ کرائے، کیا یہ قانونی عمل تھا اور پھر اس کیس میں اُن کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔ میری اطلاع کے مطابق اُن کے فالتو پلاٹ بھی کینسل نہیں کئے گئے پھر یہ کہ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے قانونی طور پر صرف وفاقی حکومت کے ملازمین کو رہائشی پلاٹ دینے کی پابند ہے، لیکن کیا فاؤنڈیشن نے اس میں صحافیوں کا کوٹہ نہیں رکھا ہوا، کیا یہ عمل قانونی ہے؟ پھر ابھی حال ہی میں خود سپریم کورٹ نے فاؤنڈیشن کو کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ بار کے ارکان کو بھی پلاٹ فراہم کرے اور اس پر کام ہو رہا ہے، کیا وکلاء کسی طرح وفاقی حکومت کے ملازمین کی تعریف پر پورا اُترتے ہیں۔ اگر صحافی اور وکلاء سرکاری محکمے سے پلاٹ لے سکتے ہیں اور یہ بالکل غیرقانونی نہیں تو پھر پولیس فاؤنڈیشن نے پولیس کے علاوہ سرکاری ملازمین کو پلاٹ الاٹ کرکے کونسا غیرقانونی کام کیا ہے۔ میں بھی وفاقی حکومت کا ایک ملازم تھا۔
اب دوسرے اعتراض کو لیتے ہیں کہ پلاٹ مارکیٹ ویلیو سے کم پر الاٹ کئے گئے ہیں۔ جناب عالیٰ ! وہ کونسا سرکاری ادارہ ہے جو مارکیٹ ویلیو پر سرکاری ملازمین کو پلاٹ الاٹ کرتا ہے۔ایسے سرکاری اداروں کے قیام کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کو کم قیمت پر پلاٹ الاٹ کرے، کیونکہ سرکاری ملازمین اپنی تنخواہ میں مارکیٹ ریٹ پر پلاٹ خرید کر مکان بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ اب فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کیا مارکیٹ ریٹ پر سرکاری افسروں کو پلاٹ فراہم کر رہی ہے۔ جن افسروں کو ایف 14 اور ایف 15 میں پلاٹ الاٹ ہوئے ہیں اُن میں سے بہت سوں نے 50,50 لاکھ روپے فالتو لیکر پلاٹ بیچ دیئے ہیں۔ اس فارمولے کے تحت اُن سے بھی یہ 50 لاکھ روپے وصول کئے جانے چاہیں۔
اب میرے جیسے زیادہ تر ملازمین جنہوں نے پولیس فاؤنڈیشن سے پلاٹ لئے تھے وہ ریٹائر ہو چکے ہیں اب اُن پر اس قسم کا انوکھا جرمانہ ڈالنا کہاں کا انصاف ہے۔ اتفاق سے میری ملاقات ایک ایسے سول سرونٹ سے ہوئی ہے جو بیس پچیس سال پہلے ریٹائر ہو چکے ہیں وہ سخت پریشان تھے، کیونکہ اُن کے بقول اُن کے پاس کوئی اثاثہ بھی نہیں، جسے بیچ کر وہ یہ رقم ادا کر سکیں۔چیف جسٹس صاحب ،جسٹس ایم آر کیانی کے قول کے مطابق اس کیس میں بھی شاید قانونی تقاضا پورا کر دیا گیا ہو، لیکن انصاف کا خون ہوا ہے۔