کیا حکومت گرانا آسان ہے؟
حیرت ہے کہ ایک طرف حکومت کو گرانے کے لئے مشترکہ کوششوں پر زور دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف یہ بیان بھی داغتے ہیں کہ حکومت کو گرانا ہمارا مقصد نہیں۔ آصف علی زرداری سے مولانا فضل الرحمن کی ملاقات کا مقصد سوائے اس کے اور کیا ہے کہ حکومت کو عدم استحکام سے دو چار کیا جائے، یہی مولانا فضل الرحمن انتخابی نتائج کے فوراً بعد یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اِن اسمبلیوں کو نہیں مانتے، انہیں ختم کرکے فی الفور دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔ اُس وقت تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اُن کی بات نہیں مانی تھی اور اسمبلیوں کو قائم رکھنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا، مگر اب لگتا ہے کہ احتساب کی وجہ سے اِن دو بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا بھی پیمانۂ صبر لبریز ہوچکا ہے، وہ مولانا فضل الرحمن کے نہ صرف ہمنوا بن گئے ہیں، بلکہ اُن کی مدد لینے کا ارادہ بھی باندھ چکے ہیں۔
نجانے آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت سے ملک چل نہیں رہا، وہ ملک کو کیسے چلتا دیکھنا چاہتے ہیں، تمام ریاستی ادارے کام کررہے ہیں، امن و امان کی صورت حال قابو میں ہے، معاشی بحران سے نکالنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان پوری کوشش کر رہے ہیں، قانون کی حکمرانی نظر آرہی ہے، احتساب پوری رفتار سے ہو رہا ہے، پھر ایسی کون سی بات ہے، جو اپوزیشن کو یہ کہنے پر مجبور کر رہی ہے کہ ملک نہیں چل رہا، اب اگر حکومتی وزراء یہ کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی کا یہ سارا زور حکومت گرانے پر اس لئے صرف ہو رہا ہے کہ اپنی مرضی کا احتساب کرانے میں اُن کی سنی نہیں جا رہی۔ وزیر اعظم عمران خان کوئی کمزوری دکھانے کو تیار نہیں اور اپوزیشن کی تمام تر کوشش کے باوجود حکومت احتساب کے موضوع پر کوئی کمیٹی یا مذاکرات کے لئے کوئی لائحہ عمل بنانے کو تیار نہیں۔
ساٹھ دن کی حکومت کو گرانے کا تذکرہ کیوں ہونے لگا ہے، کیا یہ ممکن بھی ہے یا صرف حکومت کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہے؟ اپوزیشن دھاندلی کے الزام کو تو گویا بھول گئی ہے، اُس کا تو ذکر بھی نہیں ہو رہا، اب تو یہ نیا بیانیہ آگیا ہے کہ حکومت سے ملک چل نہیں رہا۔ سب دیکھ رہے ہیں کہ اپوزیشن کی ایک نہیں چل رہی، شاید اُسی بنیاد پر یہ کہا جارہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے، ابتدائی چند ماہ اُسے سنبھلنے میں لگتے ہیں، تاہم ماضی میں کبھی اس بنیاد پر حکومت گرانے کی بات نہیں ہوئی کہ حکمران ملک چلانے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ دھاندلی اور کرپشن دو ایسے پہلو ہیں، جن پر سیاسی تحریکیں چلی ہیں،
مگر یہ پہلی بار سننے کو مل رہا ہے کہ ملک چونکہ حکومت چلا نہیں پا رہی، اس لئے اُس کے خلاف تحریک ضروری ہوگئی ہے، اگر اس أوقف کو درست مان لیا جائے تو آنے والے ادوار میں ہر حکومت کے بارے میں یہ کہہ کر تحریک چلائی جاسکے گی، ملک نہ چلا پانے کا الزام اس قدر مبہم ہے کہ اُس کا کوئی ثبوت بھی طلب نہیں کیا جاسکتا۔ ملک تو چل رہا ہے، اُس میں کون سی رکاوٹ آئی ہے، لیکن اگر کوئی یہ کہہ دے کہ نہیں چل رہا تو اُسے کیسے دکھایا جائے، اب ذرا اس پہلو پر سوچئے کہ موجودہ حالات میں اپوزیشن اگر حکومت کو گرانا چاہتی ہے تو اُس کے پاس کیا آپشنز ہیں۔
سوائے ہارس ٹریڈنگ کے اور تو کوئی راستہ نہیں، عمران خان کے ساتھ جن چھوٹی جماعتوں کی حمایت ہے، اُسے چھین لیا جائے۔ چلو یہ بھی تصور کرلیتے ہیں کہ اپوزیشن عدم اعتماد لاکر حکومت کو گھر بھیج دیتی ہے، اُس کے بعد کیا ہوگا۔ اپوزیشن کیسے وزیر اعظم بنا پائے گی اور وہ حکومت کتنے دن چل سکے گی؟ بات تو ساری مفروضے پر ہو رہی ہے، مگر اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وزیر اعظم کا امیدوار اپوزیشن متفقہ طور پر نامزد نہیں کرسکی تھی۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم بنانا ہوتا تو اُس وقت سنجیدہ کوشش کرتی۔ اب وہ کیسے دو کام کرسکتی ہے، اول حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک لاکے چلتا کرے اور دوم خود حکومت بنائے۔
اُس کے پاس کون سی بڑی عددی اکثریت ہے جس کی بنیاد پر وہ ایک مضبوط حکومت بناسکتی ہے، پھر اُس حکومت کی اخلاقی بنیاد کیا ہوگی، جو احتساب سے بچنے کے لئے ایک حکومت کو گرا کے بنائی جائے گی۔ کیا اُس کے پاس اتنی اکثریت ہوگی کہ وہ نیب کے قانون میں ترمیم کرسکے، کیا احتساب بیورو اب الٹی گھڑی چلا سکتا ہے، سو حکومت گرانے کی جو بے وقت کی راگنی چھڑگئی ہے، اُس میں زیادہ دم خم نظر نہیں آتا، سوائے عدم استحکام پیدا کرنے کے تاکہ حکومت کو مزید کیسز کھولنے سے روکا جاسکے۔
وزیر اعظم عمران خان کی باڈی لینگوئج اور اقدامات سے صاف لگتا ہے کہ وہ اپنے ایجنڈے کو چھوڑنا نہیں چاہتے، انہیں اپنی شخصیت کا تاثر اقتدار سے زیادہ عزیز ہے، وہ صرف حکومت بچانے کے لئے مصلحت کا شکار نہیں ہوں گے۔ 2013ء میں انتخابی دھاندلی کے الزام پر عمران خان نے جو تحریک شروع کی تھی، دھرنا دیا تھا، اُس میں پہلا مطالبہ یہ تھا کہ چار حلقے کھولے جائیں۔ حکومت گرانے کا کوئی ایجنڈا نہیں تھا، پھر دھرنا بھی تقریباً ایک سال بعد دیا گیا تھا، یہاں تو ابھی حکومت کو آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور کوئی مطالبہ رکھنے کی بجائے، حکومت پر ملک چلانے کے قابل نہ ہونے کا الزام لگاکے گھر بھیجنے کی باتیں ہو رہی ہیں، ظاہر ہے عوامی سطح پر ایسے مطالبے کو وہ پذیرائی نہیں مل سکتی، جو حکومت کا پہیہ جام کردے۔
زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ اپوزیشن اپنی تمام تر کوشش کے باوجود ابھی تک کوئی ایسا موثر عوامی احتجاج بھی نہیں کرسکی، جو حکومت کو دباؤ میں لاسکے۔ اُدھر عمران خان ایسے کسی احتجاج سے خوفزدہ نہیں، بلکہ یہ پیشکش کرچکے ہیں کہ اپوزیشن جہاں چاہے دھرنا دے، وہ کنٹینر اور کھانا بھی فراہم کریں گے۔ اپوزیشن نے ایک اچھا أوقف اختیار کرنے کے بعد اُسے چھوڑ دیا ہے، آصف علی زرداری، شہباز شریف، اسفند یار ولی سبھی نے تو کہا تھا کہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیں گے، مگر اب ایسا کیا ہوا کہ اس أوقف کو خیر باد کہہ دیا گیا ہے۔ کیا ان سب کی تاریخ پر نظر نہیں، کیا ایسی ہی مہم جوئی کی وجہ سے جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوتی رہی۔
کیا سمجھ لیا جائے کہ مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کی حکومت ہی پانچ سال پورے کرسکتی ہے، باقی کسی جماعت کی حکومت کو آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی جائے گی، کیا عام انتخابات ایک کھیل ہے، جو ہر روز کھیلا جاسکتا ہے۔ فوج اور عدلیہ اگر جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہیں تو جمہوریت پر شب خون مارنے کے لئے سیاسی جماعتیں کیوں کمربستہ ہوچکی ہیں، یہ درست ہے کہ جمہوریت میں تحریک عدم اعتماد لانا اپوزیشن کا حق ہوتا ہے، مگر اس کا کوئی مضبوط جواز ہوتا ہے۔ برطانیہ میں ایک ووٹ کی اکثریت سے حکومتیں اپنی مدت پوری کرلیتی ہیں، البتہ جب حکومت کا کوئی بہت بڑا اسکینڈل سامنے آجائے تو اچھی خاصی عددی اکثریت کے باوجود تحریک اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے۔
موجودہ حکومت پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں، نہ ہی غیر آئینی اقدامات کی مرتکب ہوئی ہے۔ صرف اس بنیاد پر کہ وہ بقول شخصے سیاسی انتقام لے رہی ہے، اُس نے نیب کے ساتھ ملی بھگت کرلی ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کرا رہی ہے، اس لئے اُسے نہیں رہنا چاہئے۔ حکومت کو معاشی مشکلات درپیش ہیں، جن میں اُس کا کوئی کردار بھی نہیں، بلکہ ماضی کے قرضوں اور اقتصادی بحران نے اُسے گھیر رکھا ہے۔ اس سے نکلنے کے لئے جو اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں، اپوزیشن کو اُن کی حمایت کرنی چاہئے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانا کون سی انہونی بات ہے، کیا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں نہیں جاتی رہیں۔
کیا مہنگائی پہلے کبھی نہیں ہوئی، کیا بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں پہلے کبھی نہیں بڑھائی گئیں، ہر حکومت اپنا اقتصادی ایجنڈا خود بناتی ہے، اپوزیشن اُس پر تنقید ضرور کرسکتی ہے، مگر یہ الزام نہیں دے سکتی کہ وہ ملک چلانے کے قابل نہیں۔ اس لئے اقتدار چھوڑ دے، ایک طرف یہی آصف علی زرداری، نواز شریف، مولانا فضل الرحمن اور دیگر اپوزیشن لیڈر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ منتخب حکومتوں کو آئینی مدت پوری نہیں کرنے دیتی اور آج خود ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ غیر آئینی مداخلت کا خدشہ پیدا ہوسکے۔ اپنی نااہلی کے فیصلے پر نواز شریف نے جو بیانیہ اختیار کیا تھا،
اُس کا بنیادی نکتہ بھی یہی تھا کہ ملک کے کسی منتخب وزیر اعظم کو چلنے نہیں دیا جاتا، اب وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تو اسٹیبلشمنٹ دکھائی نہیں دیتی، بلکہ اُن پر اسٹیبلشمنٹ کا وزیر اعظم ہونے کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ تو کیا بغضِ عمران خان میں نواز شریف بھی اپنا بیانیہ تبدیل کرلیں گے؟ اگر حکومت کے خلاف اپوزیشن کی مہم جوئی جاری رہی تو ایسے بہت سے سوال اُٹھیں گئے، بہتر تو یہی ہے کہ ایسی کسی مہم جوئی سے گریز کیا جائے، جو ملک کے جمہوری عمل کو خطرات سے دو چار کرسکتی ہو، جمہوری استحکام کے جس سفر میں ہم آگے بڑھ گئے ہیں، اب اُسے ریورس گیئر لگانے کی حماقت نہ کی جائے۔