روس۔ پاکستان مشترکہ جنگی مشق!

روس۔ پاکستان مشترکہ جنگی مشق!
روس۔ پاکستان مشترکہ جنگی مشق!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پرسوں (22اکتوبر2018ء ) روس کی سپیشل فورسز (کمانڈوز) کا 70جوانوں اور افسروں پر مشتمل ایک فوجی دستہ صبح سویرے پاکستان پہنچا۔ یہ دستہ، پاکستان کی سپیشل فورسز (ایس ایس جی) کے ساتھ مل کر دو ہفتوں تک انسدادِ دہشت گردی کی مشقوں میں حصہ لے گا جس میں زبانی اور عملی ٹریننگ کے مختلف پہلو زیرِ تربیت لائے جائیں گے۔ دو برس پہلے اس روس۔ پاکستان مشترکہ عسکری مشق کا نام دروزبا (Druzhba)رکھا گیا تھا۔ رشین زبان کے اس لفظ کا مطلب ہے ’’دوستی‘‘ ۔ اور چونکہ یہ اس نوع کی تیسری ایکسرسائز ہے اس لئے اس کو ’’دروزبا تھری‘‘ (Druzhba-III) (یا دوستی۔ سوم) کا نام دیا گیا ہے۔


دو برس پہلے 2016ء میں دونوں ملکوں کی مسلح افواج کے کمانڈروں نے فیصلہ کیا تھا کہ اس طرح کی مشترکہ مشقیں ہر سال باری باری ایک دوسرے کے ہاں منعقد کی جائیں گی۔ چنانچہ ستمبر/ اکتوبر 2016ء میں پہلی بار روسی ٹروپس پاکستان آئے اور 24ستمبر سے لے کر 10اکتوبر تک یہ مشقیں کی گئیں۔2017ء میں پاکستانی عسکری دستہ (Contingent) روس گیا اور دو ہفتوں تک مصروفِ ٹریننگ رہا۔ اس کا نام ’’دوستی دوم‘‘ رکھا گیا۔ اب یہ ’’دوستی سوم‘‘ ایکسرسائز پاکستان میں پبی (Pabbi) کے کوہستانی علاقے میں کی جائے گی۔


اس طرح کی مشترکہ پروفیشنل عسکری مشقوں کے کئی فائدے ہوتے ہیں۔بالخصوص اس مشق میں پہلا فائدہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کی افواج چونکہ اب تک ایک دوسرے کے لئے اجنبی رہی ہیں اور ہم نے گزشتہ 70برس تک مغربی دنیا کی افواج ہی سے دوستی رکھی جو کبھی یگانگی اور کبھی بیگانگی کی صورت اختیار کرتی رہی اس لئے امید کی جاتی ہے اب یہ بیگانگی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔


پاکستان آرمی کا بیشتر اسلحہ، امریکہ اور یورپی ممالک سے خریدا گیا۔ علاہ ازیں روس سے بھی ٹی سیریز کے ٹینک اور ائر فورس کے لئے ایم آئی۔17قسم کے ہیلی کاپٹر وغیرہ بھی پاکستان استعمال کرتا رہا۔1960ء کی دہائی میں روسی ساخت کی بعض APCs اور نرم گاڑیاں (مثلاً جاذ اورگاذ)بھی پاکستان نے روس سے حاصل کیں۔ لیکن 1971ء کی پاک بھارت جنگ نے یہ سارا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ اس دور میں انڈیا کا 90فیصد اسلحہ اور گولہ بارود روسی ساختہ تھا۔روس نے (جو تب سویت یونین کہلاتا تھا) ہمارے مشرقی بازو کو پاکستان سے الگ کرنے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے اپنے ایسٹرن ونگ کی علیحدگی میں روسی کردار کے جواب میں 1980ء کی دہائی میں افغان جہاد کے دوران یہ قرض اتارا۔


اسی دہائی میں پاکستان نے جوہری اہلیت بھی حاصل کر لی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جس ملک کے لئے ہم نے افغان جہاد منظم کیا اور مجاہدین کو ٹریننگ دی تو اس کے بدلے میں امریکہ (اور سارا مغرب) پاکستان کے جدید ملٹری انفراسٹرکچر کو کھڑا کرنے میں ہماری مدد کرتا لیکن ایسا نہ ہوا اور یہ کارِ خیر چین نے انجام دیا۔ پاک آرمی کے لئے الخالد اور الضرار ٹینک وغیرہ ،پاک فضائیہ کے لئے ایک ہمہ مقصد، ہمہ موسمی لڑاکا طیارہ مثلاً JF-17 اور پاک بحریہ کے لئے پہلا وارشپ ’’معاون‘‘ پروڈیوس کرنے میں ہماری مدد کی۔ ٹیکسلا، کامرہ اور کراچی شپ یارڈ میں جو کارخانے وغیرہ لگائے گئے وہ پاکستان کے دفاع میں سنگِ میل ثابت ہوئے۔ علاوہ ازیں پاکستان کو جوہری وارہیڈز اور میزائل ٹیکنالوجی میں بھی اگر کسی ملک نے کوئی مدد کی تو وہ ویسٹرن کلب کا ممبر نہیں تھا!


1990-91ء میں سوویت یونین نے رضاکارانہ اپنی زیرِ قبضہ اور زیرِ کفالت 15ریاستوں کو آزاد کردیا اور خود کو رشین فیڈریشن کہلانے لگا۔ مغربی کلب نے سمجھا کہ اب چونکہ روس کو ٹھکانے لگایا جا چکا ہے تو سرد جنگ کا خاتمہ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ اب روس کبھی بھی انہیں آنکھیں نہیں دکھا سکے گا۔۔۔ لیکن اسے بسا آرزو کہ خاک شدہ!
نئی ہزاری کا آغاز ہوا تو امریکہ، دنیا کی واحد سپر پاور تھی۔ اس نے اپنی یک قطبی حیثیت کے پیش نظر نجانے خود کو کیا سمجھا لیکن جب نو گیارہ ہوا اور امریکہ کے پندار کوایک زبردست ٹھیس لگی تو معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے یہ ناقابلِ یقین معرکہ انجام دیا، وہ کبھی کسی بڑی یا عالمی جنگ میں شامل ہی نہیں ہوئے تھے۔ امریکی صدر بش جونیئر واحد عالمی قوت ہونے کے زعم میں افغانستان پر چڑھ دوڑے۔ الزام لگایا گیا کہ افغانستان کے یہی کوہ و دمن تھے جہاں القاعدہ نے نو گیارہ کی پلاننگ کی۔ چنانچہ امریکہ نے پہلے افغانستان کو کارپٹ بمباری سے زیر کیا اور پھر عراق کا رخ کیا۔۔۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔


پھر دنیا نے کچھ برس بعد ایک اور ناقابلِ یقین منظر دیکھا۔۔۔ پاکستان نے امریکہ کے دوغلے پن کو بھانپ کر اس کا جواب بھی انہی سکوں میں دیا اور مزید یہ کہ 17,16 برسوں کے درمیان پاک فوج نے80ہزار جانوں کی قربانی دے کر پاکستان میں دہشت گردی کے آسیب کو شکستِ فاش دی۔۔۔ بھارت کو پاکستان کی یہ کامیابی کیسے ہضم ہو سکتی تھی۔ اس نے عالمی عسکری توازن کو بدلنے کی ٹھانی اور امریکہ کی ایما پر روس سے قطع تعلق کرکے مغربی دنیا کے عسکری اسلحہ خانوں کا رخ کیا۔ فرانس، امریکہ اور اسرائیل نے اسے خوش آمدید کہا اور بھارتی آشاؤں کی تکمیل میں پیش پیش رہنے لگے۔۔۔۔ اس سزیو اور اجمال کی ساری تفصیل بھی اکثر قارئین کے علم میں ہے۔


یہی وقت تھا کہ پاکستان نے بھی امریکہ کے سامنے اپنی پہلے والی خوئے جی حضوری پر تین حرف بھیجے اور چین اور روس کے ساتھ مل کر اس ریجن کا عسکری توازن تبدیل کر دیا۔ امریکہ اب بھی ’’ڈومور‘‘ کی رٹ لگائے جا رہا تھا۔ ناچار ہمارے آرمی چیف کو برملا کہنا پڑا کہ مغربی دنیا اس خطے کے سٹرٹیجک عسکری توازن کی تبدیلی کا ادراک نہیں کر رہی!
چین کے سی پیک (CPEC) پراجیکٹ نے بھی اس نئے ورلڈ ملٹری آرڈر کی تبدیلی میں ایک اہم رول ادا کیا۔ روس دیکھ رہا تھا کہ انڈیا اب اپنا سارا اسلحہ اور ایمونیشن مغربی دنیا (اور اسرائیل) سے خریدنے لگا ہے اس لئے اس نے بھی اپنے دیرینہ اتحادی سے سرد مہری کا فیصلہ کر لیا۔۔۔ اب ایک طرف امریکہ۔۔۔ انڈیا۔۔۔ افغانستان۔۔۔ اور جاپان ہیں تو دوسری طرف چین۔۔۔پاکستان۔۔۔ روس۔۔۔ اور ایران ہیں۔ یہ گویا دو نئے پاور بلاک ہیں جن میں کل کے حریف آج کے حلیف بن رہے ہیں۔


روس کو اب بحیرۂ عرب اور بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی نظر آرہی ہے۔ وسط ایشیائی ریاستیں جو لینڈ لاکڈ ہیں، ان کا وزن بھی پاکستان کے پلڑے میں گرتا معلوم ہو رہا ہے۔ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ یہ ’’دروزبا ایکسر سائز‘‘ آگے چل کر صرف پاکستان اور روس کے درمیان ہی نہیں رہے گی، بلکہ اسی میں نہ صرف چین، ایران بلکہ وسط ایشیائی ریاستوں کی مسلح افواج بھی شامل ہو جائیں گی اور جب سی پیک مکمل طور پر آپریشنل ہوگیا تو اس ایکسر سائز کا سکوپ مزید وسیع اور ہمہ جہت ہو جائے گا اور اس میں صرف آرمی ہی نہیں بلکہ ائر فورس اور نیوی کے دستے بھی شامل ہو جائیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف نیول فورسز کے اتحاد کا تجربہ تو پاکستان کو کئی برسوں سے ہو رہا ہے۔ لیکن جب گوادر کی بندرگاہ ایک بحری مستقر(Base) میں تبدیل ہو جائے گی تو آنے والے وقت میں پاکستان کی حیثیت موجودہ سٹیٹس سے اوپر اٹھ کر بہت آگے نکل جائے گی!۔۔۔انشاء اللہ!!


ان ’’دروزبا‘‘ مشترکہ مشقوں میں پاکستان کو روسی اسلحہ جات کے تکنیکی کیف و کم سے بھی آگاہی حاصل ہوگی، طرفین کو ایک دوسرے کی زبان جاننے کا موقع بھی ملے گا اور بین الاقوامی سطح پر جدید ترین اسلحہ جات سے روشناسی بھی ہوگی۔ انڈیا کے پاس آج بھی کئی رشین ہیوی ویپن سسٹم موجود ہیں جن کی تفہیم اب پاکستانی فوج کے لئے اجنبی نہیں رہے گی اور وہ خلا جو انڈین ملٹری کے رشین اسلحہ جات کی شناخت اور ان کے آپریشنل پہلوؤں سے عدم شناسائی کے بارے میں موجود تھا، وہ بتدریج کم سے کم ہوتا چلا جائے گا!


حال ہی میں انڈیا نے روس سے ایس (S-400)400 فضائی دفاعی نظام خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ انڈیا، چین کے بعد دوسرا ملک ہے جس نے یہ سسٹم خریدا ہے اور 5ارب ڈالر رشین ٹکسال میں ڈالے جا رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ روس اس خطے کی سٹرٹیجک تبدیلیوں سے بے خبر ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ’’دروزبا۔ سوم‘‘ یا تو ملتوی کردی جاتی یا اس کا حجم کم دیا جاتا۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ دونوں تبدیلیاں صورت پذیر نہیں ہوئیں۔ یہ مشقیں جس علاقے میں ہو رہی ہیں، اس کی ٹیرین روس کی کوہستانی ٹیرین سے ملتی جلتی ہے۔ پبی (Pabbi) کا علاقہ سطح سمندر سے 1400میٹر بلند ہے اور گزشتہ برس پاکستانی دستے کو جس روسی علاقے (شمالی کاکیشیا) میں جانا پڑا تھا تو اس کی بلندی بھی سطح سمندر سے 2300میٹر تھی۔ یعنی دونوں ارضی قطعات میں مماثلت تھی(اور ہے)۔


سرد جنگ کے ایام میں (1960ء سے 1990ء تک) روسی اور پاکستانی افواج کے درمیان جو کشیدگی موجود رہی اس کی برف اب آہستہ آہستہ پگھلنے لگی ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر نے انڈیا کو اس خطے کی چودھراہٹ کا جو لالی پاپ دے دیا تھا تو اس کے پیش نظر، پاکستان، روس کو اس ریجن کا ایک اہم کردار/کھلاڑی سمجھتا ہے اور نیز افغانستان کے مسئلے کے حل کے لئے روس اور پاکستان دونوں ایک ہی صفحے پر ہیں!
روس دوسری جنگ عظیم کا ہیرو ہے اور اس جنگ کے بعد عسکری ٹیکنالوجی کا سُپر ہیرو بھی ہے۔ اس سے معاملہ کرنے میں ہمیں دیر ضرور لگے گی۔ روس ان عالمی قوتوں میں ہے جو جو سیاست اور اقتصادیات کے تال میل کو خوب سمجھتی ہیں،اس لئے پاکستان کو روس کے ساتھ انٹر ایکشن کرتے وقت بہت سی باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا اور بالخصوص صبر اور انتظار کی خُو ڈالنی پڑے گی۔


ہمیں یہ بھی چاہئے کہ اپنے آپ کو پوٹن کے لباس میں فِٹ کرکے سوچیں کہ ہم نے آگے آنے والے وقت میں کیا کرنا ہے۔ آف کورس، ہم پوٹن کا عسکری لباس تو نہیں پہن سکتے لیکن ایسا تصور کرنے میں کیا حرج ہے؟۔۔۔ ہمیں چاہئے کہ روس کو اس مقام پر لے آئیں جہاں اس کے بین الاقوامی اقتصادی سٹیک اس کو مجبور کردیں کہ وہ پاکستان کا ساتھ دینے میں پیش پیش رہے!

مزید :

رائے -کالم -