ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی ناکامی ’’پرویز خٹک فیکٹر‘‘ ختم ہونے کا نتیجہ

ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی ناکامی ’’پرویز خٹک فیکٹر‘‘ ختم ہونے کا ...
ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی ناکامی ’’پرویز خٹک فیکٹر‘‘ ختم ہونے کا نتیجہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تجزیہ : قدرت اللہ چودھری 

خیبرپختونخوا (کے پی کے) ایسا صوبہ ہے جہاں تحریک انصاف نے دوسری مرتبہ حکومت بنائی ہے، پہلی حکومت سازی اور اب کی بار حکومت تشکیل دینے میں ایک بڑا بنیادی فرق یہ ہے کہ 2013ء کے انتخاب میں صوبے میں تحریک انصاف کو سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں تھی اور اس نے جماعت اسلامی اور آفتاب شیرپاؤ کی قومی وطن پارٹی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائی، جماعت اسلامی نے تو بعض امور پر خصوصاً خیبر بینک کے معاملے پر اختلافات کے باوجود آخر تک حکومت کا ساتھ دیا اور 2018ء کے الیکشن سے چند ہفتے پہلے حکومت چھوڑی تاہم قومی وطن پارٹی کا تحریک انصاف کے ساتھ سارا سفر غیر ہموار ہی رہا، پہلے تو قومی وطن پارٹی کے ایک مشیر اور ایک وزیر پر بد عنوانی کا الزام لگایا گیا لیکن کرپشن کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی پھر جب انہی وزراء کو دوبارہ شریک حکومت کر لیا گیا تو یہ بات ثابت ہو گئی کہ کرپشن کا الزام محض بہانہ تھا، تاہم دوسری مرتبہ اس جماعت کو اس وقت حکومت سے الگ کر دیا گیا جب اسلام آباد کا دھرنا اٹھایا گیا اب کی بار یہ کہا گیا کہ قومی وطن پارٹی حکومت کی سیاسی ترجیحات میں اس کا ساتھ نہیں دے رہی اس لئے اسے الگ کیا جاتا ہے، قومی وطن پارٹی نے دھرنوں میں شرکت نہیں کی تھی اور اس معاملے سے الگ تھلگ رہنے کا اعلان کیا تھا۔
2018ء کے انتخاب میں خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی اس کے امیدواروں نے بڑے بڑے معرکے سر کئے سراج الحق کو تحریک انصاف کے امیدوار نے 40 ہزار ووٹ سے ہرا دیا، اسفند یار ولی کو بھی تحریک انصاف کے امیدوار نے شکست دے دی، خود عمران خان نے بنوں میں سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی کو شکست دی۔ درانی کی شکست بہت سے باخبر حلقوں کے لئے حیران کن تھی الیکشن سے پہلے ان کی کامیابی کے امکانات ظاہر کئے جا رہے تھے لیکن جب درانی غیر متوقع طور پر ہار گئے تو خیال ظاہر کیا گیا کہ پارٹی مقبولیت کی لہر نے یہ سب ممکن بنایا، مولانا فضل الرحمٰن کو بھی اسی باعث شکست ہوئی حیران کن حد تک اس لہر کے باوجود مولانا کے جواں سال صاحبزادے اسد محمود کامیاب ٹھہرے اب ضمنی انتخاب میں اکرم درانی کے صاحبزادے زاہد درانی نے عمران خان کی جیتی ہوئی نشست پر کامیابی حاصل کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مقبولیت کی یہ لہر آہستہ آہستہ اترنا شروع ہو گئی ہے تحریک انصاف بنوں کے علاوہ سوات اور اٹک کے ضمنی انتخابات ہار چکی ہے اب پشاور میں بھی تحریک انصاف کی جیتی ہوئی نشست پر اے این پی کے امیدوار صلاح الدین جیت گئے ہیںیہ نشست شاہ فرمان کے گورنر بننے سے خالی ہوئی تھی۔ اس سے پہلے وزیر اعلیٰ محمود خان کے آبائی علاقے سوات میں تحریک انصاف کو شکست ہو چکی ہے اور بنوں میں عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشست بھی ایم ایم اے جیت گئی۔ اگر چہ کے پی کے میں تحریک انصاف کو نہ تو اب کسی جماعت کے تعاون کی ضرورت ہے اور نہ ہی دوتہائی اکثریت کی وجہ سے ان کی جماعت کی حکومت کو کوئی خطرہ ہے لیکن یہ سوال بہرحال اہمیت رکھتا ہے کہ حکومت میں آنے کے ساٹھ دن کے اندر اندر ایسی کیا تبدیلی آ گئی تھی کہ تحریک انصاف کو ضمنی انتخاب کے چار حلقوں میں شکست ہو گئی صوبے کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے صوبے میں تحریک انصاف کی کامیابی کا سہرا اگر کسی ایک شخص کے سربندھتاہے تو وہ صرف پرویز خٹک ہیں جس کا انہیں خود بھی احساس ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عام انتخابات میں پارٹی کی کامیابی ان کی حکومت کی کامیابیوں کی رہینِ منت ہے یہی وجہ ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ انہیں دوبارہ وزیر اعلیٰ بنایا جائے لیکن عمران خان ان کی جگہ جس رکن اسمبلی کو وزیر اعلیٰ بنانا چاہتے تھے پرویز خٹک اس کے خلاف تھے بالآخر قرعہ فال سوات کے محمود خان کے نام نکل آیا پرویز خٹک نے اسے اپنی کامیابی سمجھا انہیں خود وزیر دفاع بنا دیا گیا لیکن ضمنی انتخاب میں صوبے سے پرویز خٹک فیکٹر نکل جانے کی وجہ سے پارٹی کو جو شکستیں ہو رہی ہیں پارٹی کو اس پر ضرور غور کرنا چاہئے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ صوبے کے ووٹروں نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے صوبے کا ووٹر ویسے بھی احتساب کرنے میں دیر نہیں لگاتا اور اس نے ماضی میں بھی مقبول جماعتوں کو ہرانے میں کردار ادا کیا ہے ۔
14اکتوبر کے ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد پارٹی کے ایک رہنما نے تسلیم کیا تھا کہ اٹک اوربنوں میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو شکست پارٹی کی صفوں میں اختلافات کی وجہ سے ہوئی ایک دوسرے سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ پارٹی نے ٹکٹ دیتے وقت نظریاتی امیدواروں کا خیال نہیں رکھا اور نام نہاد ’’الیکٹ ایبلز‘‘ کو ٹکٹ دے دیئے گئے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے تاہم انہیں یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہئے تھی کہ یہی ’’نام نہاد الیکٹ ایبلز‘‘ تھے جو عام انتخابات سے ڈیڑھ دو ماہ پہلے قطار اندر قطار پارٹی میں شامل ہو رہے تھے اور پارٹی کی قیادت پارٹی کے ٹپکے ان کی گردنوں میں ڈال کر اظہار مسرت کرتی تھی یہی الیکٹ ایبلز تھے جن کی وجہ سے پارٹی کی حکومت کا قیام ممکن ہو سکا کیونکہ جنوبی پنجاب میں تو بیشتر وہ لوگ تھے جو دوسری جماعتوں کو خیر باد کہہ کر روشن مستقبل کی امید پر تحریک انصاف میں آئے تھے اب یہ نام نہاد کیسے ہو گئے اب دیکھنا ہو گا کہ اگلے ضمنی انتخابات کب اور کہاں ہوتے ہیں اور ان کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اس وقت تک ویسے بھی پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہو گا اور ریلیف کے منتظر عوام شادکام یا مایوس ہو چکے ہوں گے اور ایسے ہی موڈ میں نئے فیصلے کریں گے۔
پرویز خٹک فیکٹر

مزید :

تجزیہ -