نئی بساط بچھ چکی ہے!!!

نئی بساط بچھ چکی ہے!!!
نئی بساط بچھ چکی ہے!!!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی تھی کہ عمران خان پاکستان میں برسراقتدار آئیں۔ لیکن چونکہ اس کے برعکس ہوا , لہذاٰ پاکستانی داخلی اور خارجی سیاسی شطرنج کی بساط پر نئے مہرے بچھا دئیے گئے ہیں۔داخلی وخارجی محاذ پر عمران خان کو ناکام بنانے کیلیے بھرپور کوششیں ہورہی ہیں۔ خارجہ امور کودیکھا جائے تو عمران خان کے پہلی بار دورہ سعودی عرب کے دوران اقتصادی پیکج نہ ملنے کی بڑی وجوہات میں سے ایک ایسی ہی کاوش کا ہاتھ تھا ۔ اسی طرح چین کی سعودی عرب کو سی پیک میں شامل کرنے کے حوالے سے مختلف رائے بھی کچھ ایسے ہی مہروں کی کارستانی ہوسکتی ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کیلیے سعودی اقتصادی پیکج رکوا دیاگیاتھا۔ اور عمران خان حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکج کیلیے مذاکرات کا آغاز کرنا پڑا لیکن اب سعودی عرب کے دورے کے بعد تیل کا جو اعلامیہ جاری ہوا ہے،اسکے محرکات و مضمرات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے ۔بہرحال یہ یاد رکنا ہوگا کہ سعوری عرب بھی امریکہ دباو کاشکار ہوتا ہے۔سعودی عرب کی امریکہ سے قربت ہی چین کی جانب سے سی پیک میں سعودی شمولیت کے متعلق مختلف رائے کا سبب اہم ہے۔ گویا سعودی امریکہ تعلقات براہ راست یاکستانی مفادات پر ضرب لگانے کی وجہ بنے لہذا ہمیں اس نزاکت پر غور کرنا چاہئے ۔
گزشتہ دنوں سعودی صحافی جمال خشوگی کے پراسرار قتل کے باعث سعودی امریکہ تعلقات میں کافی کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی حکومت کے خلاف دھمکی آمیز بیانات دئیے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے اگلے دورہ سعودی عرب اور پہلے دورہ چین موجودہ صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ عمران خان کے گزشتہ دورہ سعودی عرب کے حوالے سے میڈیا میں شریف خاندان کی رہائی کے لیے ایک مبینہ ڈیل کا بھی چرچا رہ چکا ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہونی چاہیے کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ شریف خاندان کو ایک محفوظ راستہ دلانے کیلیے کوشاں ہے۔ اگر کوئی مبینہ ڈیل ہوئی ہے تو یہ ضرور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی کاوش سے ہوئی ہوگی۔ نئے حالات میں عمران خان کے پاس ایک نادر موقع ہے کہ وہ سعودی عرب کو شریف خاندان کی مدد سے ہاتھ کھینچنے اور احتسابی عمل کے ذریعے لوٹی ہوئی پاکستانی دولت واپس لانے میں معاونت کیلیے قائل کرسکتے ہیں۔
عمران خان کا پہلا دورہ چین بھی خاصی اہمیت اختیار کر سکتا ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ چین کو انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے منفی کردار سے پیدا ہونیوالی صورتحال کا ادراک کروائیں اور چین پاکستانی معیشت کو بحران سے نکالنے میں معاونت کیلیے قائل کریں۔ موجودہ صورتحال میں ہو سکتا ہے کہ چین سی پیک میں سعودی شمولیت کے متعلق اپنی رائے پر نظرثانی کرنے پر بھی آمادہ ہوجائے۔
سعودی امریکہ تعلقات میں حالیہ کشیدگی سے پاکستانی حکومت بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ اب یہ پاکستانی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اس سلسلے میں کس حد تک کامیاب سفارتکاری کرتی ہے۔
اگر داخلی سیاسی صورتحال کو دیکھا جائے تو حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے بعض قائدین پاکستانی اداروں کے حوالے سے ایک جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اور احتساب کو انتقام قرار دے کر احتسابی عمل کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کی ایک منظم کوشش ہورہی ہے۔ ایسے تمام کردار پر انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کا کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں۔ چند دن قبل پاکستانی اسٹاک مارکیٹ کا اچانک کریش ہونا اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی ایک وجہ کچھ بڑی مچھلیوں کی جانب سے اچانک اسٹاک مارکیٹ سے سرمایہ نکالنا بھی ہوسکتی ہے۔ شہبازشریف کی گرفتاری کے فوراً بعد اسٹاک مارکیٹ کا کریش ہونا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ جس کا فوری طور پر نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے در پر جانا پڑا۔ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ یہ ہی تو چاہتی تھی تاکہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے ذریعے پاکستان میں مہنگائی کا طوفان لایا جائے اورعام آدمی کو حکومتی معاشی پالیسیوں کی ناکامی کاتاثردیکرمایوس اور بدظن کیاجائے۔
اقتصادی طورپر ایک مستحکم اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان کسی طورپربھی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں نہیں۔ پاکستان کومعاشی اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلیے بساط بچھ چکی ہے۔ اب دیکھنایہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اوران کی ٹیم درپیش مسائل سے نمٹنے میں کس حدتک کامیاب ہوتے ہیں۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -