اپوزیشن کا حلالہ
بالآخر مولانا فضل الرحمٰن کی ثالثی کی کوششیں رنگ لانے لگی ہیں جوں جوں زرداری صاحب کے گرد نیب اور ایف آئی اے کا گھیرا تنگ ہورہا ہے توں توں زرداری صاحب کے دل میں بھی ن لیگ کے لئے نرم گوشہ بڑھتا جارہا ہے۔ نواز شریف اور شہبازشریف کے بعد زرداری صاحب اور انکی بہن فریال تالپور صاحبہ کسی بھی وقت قانون کی گرفت میں آسکتی ہیں۔ بے نامی اکاؤنٹس کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور انکے ڈانڈے اومنی گروپ سے مل رہے ہیں ۔ یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔دوسری طرف سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کی موجودگی بھی تفتیشی اداروں کے لئیے کمزوری کا باعث بن رہی ہے۔
تحریک انصاف تبدیلی کی علمبردار بن کر سامنے آئی تھی مگر ابتدائی دو ماہ میں کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے جبکہ ڈالر کی اڑان نے روپیہ کی قدر کو مزید گرا دیا ہے۔ خان صاحب بھی بہت سارے یو ٹرن بیانات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ قرض لئیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اسکے لئے آئی ایم ایف اور سعودی عرب سے مذاکرات چل رہے تھے، سعودی عرب نے کچھ یقین دہانیاں کروائی ہیں مگر جمال خشوگی کے قتل کو لے کر اسے شدید عالمی دباؤ کا سامنا ہے ۔دنیا بھر میں جمہوریت کے علمبردار امریکہ اور یورپی یونین اس معاملے کو لے کر سعودیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ اس لئیے اکثر ممالک نے سعودیہ میں ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہے ۔سعودیہ سے امداد لینے کے بعد ہمارے ایران کے ساتھ تعلقات کہاں کھڑے ہونگے یہ ملین ڈالر کا سوال ہوگا ۔
یہ تو بیرونی محاذ ہے مگر دوسری طرف اندرونی محاذ بھی گرم ہو رہا ہے وہ کیا کہتے ہیں کے باسی کڑھی میں بھی ابال آرہا ہے۔ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کمزور نظر آئی ہے عمران خان کے چہرے کو ایک طرف کر دیں تو حکمران جماعت کا حال اپوزیشن سے بھی گیا گزرا ہے ۔ رہی سہی کسر فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان کے بیانات پورے کر دیتے ہیں۔
ن لیگ میں تقسیم بڑھ رہی ہے نوازشریف اور مریم نواز رہائی کے باوجود احتجاج کے موڈ میں نہیں ہیں اور شہبازشریف کی گرفتاری پر بھی اسی طرح احتجاج کی�آ جارہا ہے جیسا انکی گرفتاری پر شہبازشریف نے کیا تھا۔ عنقریب خواجہ سعد رفیق بھی گرفت میں آ سکتے ہیں ۔گرفتاری سے بچنے کے لئے وہ فی الحال عبوری ضمانت پر باہر ہیں ۔
اُدھراپوزیشن الائنس کن نکات پر بن سکتا ہے۔ ابھی صورتحال واضح نہیں ہے زرداری صاحب بھی اپنے معاملات کی وجہ سے ن لیگ کو سافٹ کارنر دے رہے ہیں ۔ اب کس نے کس کو کون سے شہر میں گھسیٹنا ہے اور کس نے ہرن کا گوشت کھلانا ہے ، ایک طرف خواجہ آصف صاحب اپنے ہم نام آصف زرداری صاحب کو عظیم لیڈر قرار دے رہے ہیں تو دوسری طرف میاں نوازشریف صاحب انکشاف کر رہے ہیں کے انکے علم میں ہی نہیں تھا کہ انکی حکومت میں آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات قائم ہوئے ہیں۔
محمود خان اچکزئی اور اسفندیار ولی خان خاموش نظر آرہے ہیں ۔بس کالا باغ ڈیم اور افغانستان کے حوالے سے انکے بیانات کبھی کبھی سامنے آجاتے ہیں۔مگر دوسری طرف مولانا فضل الرحمٰن جو کہ اپوزیشن کا نکاح تو ٹوٹنے سے نہیں روک سکے ، مگر مفادات کی سیاست کو لے کر وہ اپوزیشن کا حلالہ کروانے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے ۔شاید اپوزیشن تو کوئی احتجاجی تحریک نہ چلا سکے مگر مہنگائی کا طوفان اور غیر مقبول فیصلے جلد یا بدیر عوام کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔خلائی مخلوق کیا کیا دیکھے گی آخر کار خدائی مخلوق کو اپنے معاملات خود سنبھالنے ہونگے
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
قرضوں کا سود ادا کرنے کے لئے قرضے لینے کا عمل کہاں رکنے ہے،مہنگائی کے بم گرا کر عوام کو مزید تنگدست بنایا جارہا ہے بھینسیں اور گاڑیاں نیلام کرنے سے واقعی عا م آدمی پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ہاں اسٹیل مل۔ پی آئی اے۔اور ریلوے جیسے ادارے جو خسارے سے بھرپور ہیں اگر ابتدائی طور پر انہیں ہی بہتر بنا لیا جائے جو کہ ممکن نظر نہیں آتا ہے تو انہیں شفاف طریقے سے پرائیوٹائز کر دیا جائے تا کہ اقتصادی صورتحال کچھ بہتر ہو سکے۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔