سعودی شاہی خاندان بڑی آزمائش میں مبتلا

سعودی شاہی خاندان بڑی آزمائش میں مبتلا
سعودی شاہی خاندان بڑی آزمائش میں مبتلا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات ہمیشہ ہی پُر خلوص اور پُر جوش رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات شاہ فیصل مر حوم کے دور ہی سے مضبوط اور خوشگوار چلے آرہے ہیں۔ سعودی عرب کی سر زمین پر مکہ اور مدینہ کا ہونا اِس ریاست کی توقیر میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ پاکستان میں لوگ مذہبی لگاؤ کی وجہ سے سعودی حکمرانوں کے ہمیشہ تابعدار رہے ہیں۔ اور یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ جب بھی پاکستان میں نئی حکومت قائم ہوئی ہے تو نو منتخب وزیر اعظم نے سعودی عرب کے حکمر انوں سے ملنے اور عمرہ کی سعادت کو دوسرے تمام امور پر تر جیح دی ہے۔ سعودی عرب نے ہر وقت پاکستان کو ایک مُسلم برادر مُلک سمجھ کر تعاون کیاہے۔صدر ضیاء سے لیکر مشرف اور شریف خاندان تک سعودی عرب کے حکمرانوں نے اپنی محبت کا ا ظہار کیا ہے۔ پاکستان کو جب بھی مالی مُشکلات کا سامنا ہوا ہے۔ سعودی عرب نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر پاکستان کی مدد کی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب کو عزت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ بُرے حالات میں بھی سعودی عرب نے برادرانہ محبت کا ثبوت دیا ہے۔ لیکن پاکستان نے بھی تما م تر مُشکل حالات کے باوجود سعودی عرب کی د فاعی اور سیاسی طور پرمدد کی ہے۔ اِس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے بد ترین مالی دور میں سے گُزر رہا ہے ۔ لیکن سعودی عرب نے پاکستان کو مالی بھنور سے نکالنے کے لئے ۶ ارب ڈالرز دینے کا وعدہ کیا ہے۔ چھ ارب ڈالرز میں سے تین ارب ڈالرز کیش کی صورت میں جبکہ باقی تین ارب ڈالزر خام تیل کی شکل میں دئے جائیں گے۔ جو کہ ایک سال کی مُدت کے ہیں لیکن معاہدے کی مُدت کو تین سال تک بڑھایا بھی جا سکتا ہے۔
سعودی عرب پاکستان کی مُشکلات سے بخوبی آگاہ ہے۔ سعودی عرب کی قیادت کو علم ہے کہ پاکستان افغان جنگ کی وجہ سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ اِس کے علاوہ پاکستان نے ا یٹم بم بنا کر دُنیا کی تمام استعماری طاقتوں کو حیران کر دیا ہے۔ لہذا دُنیا کی تمام قوتیں پاکستان کو نیچا دکھانے کے لئے اُس پر ہر قسم کا دباؤ ڈالتی ہیں۔ شائید یہی وجہ ہے کہ سعودی عر ب ہر وقت پاکستان کی مالی مدد کرنے کے لئے مستعد رہتا ہے۔ اور پاکستان کو مُشکل حالات میں اپنا حلیف اور محافظ تصور کرتا ہے۔ سعودی عرب خام تیل کی وجہ اور مقد س مقامات کے با عث مُسلم اور غیر مُسلم دُنیا میں ایک منفر د مقام رکھتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے پچھلے کئی سالوں سے داخلی اور خارجی مشُکلات کا شکار ہے۔یمن سے اِس کے تعلقات نہایت کشیدہ ہو چُکے ہیں۔ بلکہ سعودی عر ب دوسرے خلیج ممالک کے تعاون سے حو ثیوں کے خلاف با قاعدہ جنگ لڑ رہا ہے۔ ایران سعودی عرب سے دُشمنی نکالنے کے لئے حوثیوں کی ہر طرح سے مدد کرتا ہے حو ثیوں نے سعودی حکومت کو گرانے کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کیا ہے۔ لیکن ابھی تک وُہ اپنی اس کوشش میں ناکام رہے ہیں۔
امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات بھی کافی پُرانے ہیں۔ امریکی کمپنی آرامکو سعودی خام کو نکالنے اور تیل کو صاف کرکے دُنیا میں پہنچانے کی ذمہ دار ہے اور عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ امریکی فوج شاہی خاندان کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے صدر نے حالیہ دنوں میں بیان دیا تھا کہ سعودی حکومت امریکی فوج کے بغیر دو ہفتہ تک بھی
ا قتدار میں نہیں رہ سکتی۔ بظاہر یہ بیان مضحکہ خیز لگتا ہے لیکن کُچھ نہ کُچھ سچائی اس میں ضرور موجود ہے۔ ان تمام باتوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کل سعودی عرب کے شاہی خاندن کے ستارے گردش میں ہیں۔ داخلی اور خارجی سازشوں نے سعودی حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ گُزرے دو ہفتوں سے سعودی عرب کے صحافی جمال خشوگی کی وجہ سے سعودی عرب کی حکومت زیرِعتاب ہے۔ترک صدر نے تو کھل کر بتادیا ہے کہ خشوگی کے ساتھ کس نے کیا کیا ہے ۔ جمال خشوگی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وُہ سعودی حکومت کے بد ترین نقاد تھے۔چندسالوں سے امریکہ میں مقیم تھے اور امریکی روز نامہ واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ تھے۔
دُنیا کے ممالک میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد نے سفارت خانے میں اُس کو ایک سازش کے ذریعے قتل کروایا ہے۔ سعودی عرب نے مذکورہ صحافی کی پُر اسر ا گُمشدگی پر حیرت کا اظہار کیا۔ بعد ازاں ترکی کی حکومت کے استفسار اور یورپی ممالک کے ساتھ امریکہ کے دباؤ پر اُس کے قتل کی تصدیق کی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے جمال خشوگی کے قتل پر حیرت کا اظہار کیا اور تفصیل میں کہا کہ جمال خشوگی کی سعودی سفارت خانہ میں جھڑپ ہوئی، نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور اس کے دوران بد قسمتی سے جمال خشوگی کا قتل ہوگیا جو کہ افسوس ناک ہے۔ سعودی عرب کی حکومت نے اِس افسوس ناک قتل پردُکھ کا اظہار کیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ معاملے کی غیر جانبدارنہ انداز میں تفتیش کی جائے گی۔تُرکی کی حکومت اس و اقعہ کی تحقیق کے لئے اپنے ذرایع اور وسائل استعمال کر رہی ہے۔
کہا جاتا ہے برطانیہ سے پندرہ افراد پر مشتمل سعودی دستہ بطور خاص قتل کرنے اور جمال خشوگی کی لاش کوٹھکانے لگانے کے لئے تُرکی پہنچا تھا۔ اطلاعات کے مُطابق۔ تُرکی حکومت کے پاس تمام حساس قسم کی تفصیلات موجود ہیں۔ جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکومت کے ایما پر یہ قتل عمداً کیا گیا ہے۔ اور اس قتل کے پیچھے سعودی ولی عہد کا ہاتھ ہے۔ عین ممکن ہے کہ سعودی عرب کے یورپ اور امریکہ سے تعلقات کو خراب کرنے کے لئے یہ سازش رچائی گئی ہو۔ لیکن اِس ساری داستان سے سعودی عرب کے شاہی خاندن کی سیاسی زندگی پر گہرے منفی اثرات پڑے ہیں۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب نے سرمایہ کاری کے لئے بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی ہے لیکن امریکہ، بر طانیہ اور فرانس جیسے ممالک نے شرکت کرنے سے انکار کر دیا ہے جب تک کہ سعودی عرب کی حکومت جمال خشوگی کے بارے میں پُوری اور تسلی بخش رپورٹ جاری نہیں کر تی۔ امریکہ اور دوسرے ممالک نے سعودی عرب کے وضاحتی بیان کو مُسترد کر دیا ہے۔ اُن کا مُطالبہ کیا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت جمال خشوگی کے قتل کے بارے میں ذمہ داری قبول کرے اور لاش کو مزید تفتیش کے لئے تُرکی کی حکومت کے حوالے کرے۔ کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ سعودی عرب کی حکومت اِس قتل کو چھُپانے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ جو کہ قوامِ عالم کو منظور نہیں۔ سعودی عرب کے حُکمران اس وقت سیاسی اور ا خلاقی طور پر بین الاقوامی دباؤ کا مُقابلہ کر رہے ہیں۔ ایران ، تُرکی، قطر، یمن اور دوسرے مخالف ممالک سعودی عرب کوسیاسی طور پر تنہا کرنے کے لئے اپنی کوششیں تیز کرہے ہیں۔ لیکن سرمایہ کاری کی کانفرنس میں امریکہ اور دسرے ممالکی کی عدم شرکت سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مذکورہ مما لک کے علاوہ چین، رُوس اور دوسرے ممالک سعودی عرب میں سرمایہ کاری کرنے کئے بے تاب ہیں۔ امریکی حکومت کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ سعودی عرب کے تیل کے ذخائر کسی بھی مُلک کو اپنی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ اگر امریکہ اور یورپ سعودی عرب سے آنکھیں بدل سکتا ہے تو سعودی حکومت بھی امریکی تعلقات پر از سر نو غور کر سکتی ہے۔ تاہم اس لڑائی میں تمام فریقوں کی فراست اور سفارتکاری کا زبر دست امتحان ہے۔ اُمید ہے سعودی عرب کا شاہی خاندان اس آزمائش سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -