فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر543

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر543
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر543

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور کے اس قدیم تہذیبی مرکز اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں۔ کیسی کیسی نادر روزگارہستیاں یہاں ڈیرے ڈالے ہوئے تھیں۔
ان ٹھکانوں اور ڈیروں پر نہ صرفلاہور کے بلکہ تمام برصغیر کے عظیم موسیقاروں اور گائکوں کی محفلیں جما کرتی تھیں۔ یہ سب اب خواب و خیال ہو کر رہ گئیں۔ بقول غالب
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاق نسیاں ہوگئیں
گئے سنہرے دنوں کا رونا رونے والے اور بھی لوگ ہیں۔ پچھلے دنوں معروف کالم نویس عبدالقادر حسن صاحب نے بھی اپنے ایک کالم میں کچھ پرانی یادیں تازہ کی ہیں۔ عبدالقادر حسن پرانے صحافی اور کالم نگار ہیں۔ کسی زمانے میں رپورٹنگ اور ادارت کرتے تھے اب سمٹ کر صرف کالم نگار بن کر رہ گئے ہیں لیکن اس حیثیت سے بھی بہت ممتاز ہیں۔ لگ بھگ ہمارے ہی ہم عمر ہیں۔ ہم جن دنوں نوائے وقت اور آفاق میں کام کرتے تھے اسی زمانے میں عبدالقادر حسن صاحب نے اصلاح کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام شروعکیا تھا پھر صحافت کا شوق انہیں لاہور کھینچ لیااور اس کے بعد سے لاہور ہی کے ہو کر رہ گئے۔ صحافت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے دورمیں کچھ عرصے روزنامہ ’’امروز‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ اس اعتبار سے وہ مولانا چراغ حسن حسرت جیسے نادر روزگار کے گدی نشین کہے جا سکتے ہیں کہ ’’امروز‘‘ کے آغاز میں مولانا چراغ حسن حسرت ہی اس کے مدیر تھے۔ ان کے بعد کئی لوگوں نے یہ گدی سنبھالی جن میں احمد ندیم قاسم صاحب بھی شامل ہیں۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر542پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عبدالقادر حسن کے کالم کا عنوان ہے۔ ’’غیر سیاسی باتیں‘‘ لیکن اس کالم میں سیاسی تذکروں، تبصروں اور بو قلمیوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بہت مقبول کالم ہے۔ اس کے عنوان سے عبدالقادر حسن کی جدت طبع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سیاست کے علاوہ دنیا کے اور بھی بہت سے موضوعات اس کالم کی زینت بنتے رہتے ہیں اس لیے یہ غیر سیاسی لوگوں میں بھی بہت دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے کیونکہ موضوع کوئی قید نہیں ہے اس لیے اشہب خیال جس طرح کا بھی رخ کرلے عبدالقادر حسن اسی طرف گھوڑے دوڑا دیتے ہیں۔
۔۔۔
چھوٹے چھوٹے مفادات اور خود غرضیوں کے ایندھن سے دہکتی ہوئی سیاست کی آگ پر پانی چھڑکئے یا اسے کچھ دیر کے لیے ڈھانپ دیجئے اور ستار، سارنگی اور طبلے کے سروں اور دھنوں کا ذکر سنئے جو میں نے ابھی ابھی پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں سنی ہیں۔ ایک جادو جگایا گیا، طلسمات کی دنیا آباد کی گئی۔ جسم و جاں گداز ہوگئے ، پگھل گئے قطرہ قطرہ بن کر جذبات کی تپتی ہوئی لوح پر گرتے رہے۔ مدتوں بعد ستار اور سارنگی کا ملاپ دیکھا، سنا۔ فارسی کا ایک مصرع بار بار یاد آیا
زخمہ برتار رنگ جاں می زنم
ترجمہ نہیں کروں گا ییہ صرف اس لیے ہے کہ جو فارسی کے اس شعر کی آسان مگر پر کیف اور درد ناک کیفیت کو محسوس کر سکتے ہیں کہ ستار کے تاروں کو چھیڑنے پرجب رگ جاں پر ضرب پڑتی ہے تو پھر کیا ہوتا ہے؟ عالی کیف رکھنے والی موسیقی کی محفلیں اب ختم ہوگئیں۔ سازوں سے آشنا ہاتھ گم ہوگئے یا بوڑھے ہوگئے اور وہ آوازیں جو ان سازوں سے چمک اٹھتی تھیں اب شاذ ہی سنائی دیتی ہیں۔ میں نے کبھی ایسی آوازیں سنی تھیں۔ لاہور کے باغ جناح تھیڑ میں حیات محمد خان سال بہ سال میٹھے موسم میں یہاں موسیقی کا میلہ منعقد کرتے تھے۔ یہاں میں نے اختری فیض آباد، مختار بیگم، استاد سلامت علی ، نزاکت علی اور نہ جانے کن کن استادان فن کی زیارت کی تھی اور رات بھر ایک نہ ختم ہونے والی حیرت کے ساتھ دیکھا تھا۔
پھر میں نے وہ محفل بھی دیکھتی تھی جب استاد بڑے غلام علی خان نے مادام نور جہاں کو اپنی شاگردی میں لیا تھا۔ بس یہ ایک رسم سی تھی لیکن خان صاحب پر ایسا موڈ طاری ہوا اور انہوں نے کچھ وقت کے لیے آواز کا ایسا جادو جگایا کہ مادام کے صحن کے پھول اور پتے بھی دم بہ خود ہوگئے اور وہ خود بے سدھ سی ہوگئیں۔
اس سے ایک بہت پرانی یاد تازہ ہوئی۔ وقت کا یہ عظیم موسیقار دو وقت کی روٹی کے لیے لاہور کی ایک معروف مغنیہ عنایت بائی ڈھیرو والی کا استاد بن گیا۔ میں ان دنوں لاہور آیا تو استاد کی تلاش میں اس مغنیہ کے گھر جا پہنچا۔ یہ دونوں موسیقار دوبار میرے گاؤں مجرا کر چکے تھے۔صرف پانچ سو روپے لاہور آنے جانے کے خرچ کے عوض میں جو کوٹھوں کے آداب اور رسومات سے بالکل نا آشنا تھا اس آراستہ کمرے میں داخل ہوگیا جہاں اس وقت ریاض ہو رہا تھا۔ استاد سارنگی لیے ہوئے تھے اور عنایت بائی گا رہی تھی لیکن غلط گا رہی تھی۔ استاد نے اسے روک کر خود گانا شروع کر دیا اور پھر یہ بھول گئے کہ وہ صرف مغنیہ کی ایک غلطی کو درست کرنے کے لیے صحیح گا کر اسے تعلیم دے رہے ہیں۔ وہ گاتے چلے گئے اور عنایت بائی روتی چلی گئی۔ اس کے پاس ستار تھا جس پر اس کی انگلیاں کانپ رہی تھیںَ کچھ یاد نہیں اس سحر انگیز کیفیت میں کتنا وقت گزر گیا۔ تو اس وقت چونکا جب کسی نے مجھ سے پوچھا کہ میں کون ہوں؟
پھر ان ہی دنوں کی بات ہے کہ خاں صاحب ہیرا منڈی کے چوک میں ایک چوبارے میں مقیم تھے۔ ان کے بھائی استاد برکت علی خاں بھی وہیں تھے۔ایک بوڑھی طوائف جو غالباً خاں صاحب کی جوانی سے ان کی واقف تھی ایک لڑکا لے کر حاضر ہوئیں۔ مٹھی سے کچھ رقم نکال کر خاں صاحب کی نذر کی اور عرض کیا کہ اس سے طبلہ سننے کی زحمت گوارا فرمائیں۔ لڑکے نے جوڑی آراستہ کی اور حضرت امیر خسرو کا ایجاد کیا ہوا یہ ساز بجانا شروع کیا۔ کچھ دیر کے بعد جب لڑکے نے ہاتھ روکا تو بوڑھی طوائف نے خاں صاحب کی طرف دیکھ کر کچھ عرض کرنا چاہا تو انہوں نے کہا ’’غلطی تو کبھی کبھار استاد قادر بخش سے بھی ہو جاتی ہے۔ یہ مشق جاری رکھے۔‘‘
یہ اذن پا کر طوائف کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ دعائیں دیتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی لیکن خاں صاحب نے اسے بٹھا لیا اور جوانی کی باتیں شروع کر دیں کہ جب وہ بوسکی کا کرتہ پہن کر بازار سے گزرتے تھے تو ان کے معاصرین ان سے کتنا جلتے تھے۔ صدقے جاؤں آپ کے اس عہد جوانی کے اور ان محفلوں کے جن میں آپ کے سامنے کسی کو بلند آواز سے بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی اور بڑے بڑے آپ سے اجازت لے کر گانا شروع کرتے تھے۔
یہ باتیں سنتے ہوئے خاں صاحب گنگنانے لگے اور پھر سر منڈل اٹھا کر گانا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک دوسری کوٹھری سے آواز آئی ’’او الو کے پٹھے۔‘‘
خاں صاحب نے پھر سر لگایا مگر جواب نہ ملا۔ دو تین بار سر بدلنے کے بعد اس کوٹھری سے ’’ہوں‘‘ کی آواز آئی تب خاں صاحب نے راگ کے اگلے سروں کو چھیڑا۔ یہ ان کے والد اور استاد کی آواز تھی۔
یہ موسیقی کے درویش لوگ تھے۔ ہانڈی کے ڈھکن پہ گھی اور مرچ مسالا بازار سے لایا جاتا تھا۔ گوشت کے چند ٹکڑے اور تھوڑی سی سبزی، سالن تیار ہوتا تو تنور سے روٹی آتی اور موسیقی کے یہ بادشاہ کھانا کھاتے۔ا لبتہ رات کے کھانے سے پہلے خاں صاحب کچھ شغل کرتے اور اس دوران میں عموماً اپنے گانے کے پرانے معرکوں کا ذکر کرتے اور نوابوں، مہاراجوں کا جو ان کو انعامات سے بھر دیا کرتے تھے۔ وہ بیش قیمت انعامات آواز کی طرح ہواؤں میں اڑا دیئے گئے۔ سوائے اس ایک قیمتی انگوٹھی کے جو خاں صاحب کی ایک انگلی میں موجود تھی اور جس پر ان کے کسی شاگرد کی نظر ضرور ہوگی کہ وہ کب اس سے خوش ہوتے ہیں۔
جید موسیقاروں کا یہ سنہری سلسللہ اب قریب قریب ختم ہو چکا ہے۔ صرف ان کی یادیں باقی رہ گئی ہیں۔ کبھی کبھار کوئی آواز سنائی دے جاتی ہے اور کبھی کسی ساز سے کوئی نغمہ پھوٹ پڑتا ہے لیکن اسے نہ کوئی سننے والا ملتا ہے اور نہ کوئی سمجھنے والا۔ ریڈیو ان لوگوں کی مستقل سیوا کرتا تھا پھر ٹی وی آیا تو ان لوگوں کو اس چھوٹی اسکرین پر بھی کام ملتا رہا۔ دو وقت کی روٹی تو کیا چلتی کچھ نہ کچھ مدد ہو جاتی تھی مگر اب موسیقی ہی بدل چکی ہے۔ سر کی اس نئی دنیا میں ان پرانے لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ حیرت ہوئی جب ٹی وی کا یہ پروگرام دیکھا۔
از کجا می آید ایں آواز دوست۔‘‘
یہ عبدالقادر حسن کی کچھ یادیں ہیں۔ بہت با ذوق انسان ہیں مگر صحافت کے خار زار میں پہنچ کر بڑے بڑے لہولہان ہوجاتے ہیں اور پھر خاص طور پر کالم نگار جنہیں ہر روز کالم لکھنا پڑتا ہے اور عموماً حالات حاضرہ، سیاسی امور اور سیاست والوں کے تذکرے کے بعد یہ مختصر کالم ختم ہو جاتا ہے۔
عبدالقادر حسن کو موسیقی سے رغبت ہے۔ کلاسیکی ادب کے بھی شائق ہیں۔ انہوں نے جوانی میں عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی جب کہ لوگ ان کو مردہ اور بے کار زبانیں سمجھ کر انگریزی کواپنا قبلہ بنا رہے تھے۔ اب تو نہ ایسی محفلیں ہیں اور نہ ہی فراغت۔ وہ دن گئے جب ان محفلوں کے لیے ہم سب کے پاس وافر وقت ہوا کرتا تھا۔ ہر نمائش ہر مشاعرہ، موسیقی کی ہرمحفل، ادبی مجالس میں حاضری دینا فرض سمجھ کر ادا کیا جاتا تھا۔ اچھی کتابیں تلاش کرنا اور ان کا مطالعہ کرنا زندگی کی ایک بنیادی ضرورت تھی۔ اچھی فلمیں دیکھنا سب سے بڑی تفریح تھی۔ پرانی کتابوں کی دکانوں پر گھنٹوں مطلب کی کتابیں تلاش کرتے تھے۔ کئی کئی کتابوں کا تو وہیں کھڑے کھڑے مطالعہ کر ڈالتے تھے۔ خصوصاً نئی کتابوں کا مطالعہ کرنے کا یہ ایک پسندیدہ طریقہ تھا۔ قیمتی کتابوں کو خریدنے کی استطاعت نہیں تھی حالانکہ زیادہ سے زیادہ چار پانچ روپے میں کوئی کتاب مل جایا کرتی تھی مگرجب کتابوں کے ڈھیرے بھری ہوئی دکانوں میں ہر موضوع پر بے شمارکتابیں موجودہوں فیصلہ کرنے کا حوسلہ نہ وہ اور اتنی بہت سی کتابیں دامن دل کھینچ رہی ہوں تو پھر یہ بھی ایک طریقہ تھا مطالعہ کرنے کا۔ ان دنوں پرانی کتابوں کی دکانوں پر بہت سے بزرگوں اور پرانے لوگوں سے ملاقات ہو جاتی تھی مگر علیک سلیک کے علاوہ بات کرنے کی فرصت نہ ہوتی تھی۔ نئی کتابوں کی دکانوں کے اندر قدم رکھنے کے لیے بڑے حوصلے اور دل گردے کی ضرورت تھی۔(جاری ہے)

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر544 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں