اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 64
اس محسن کش ، ننگ انسانیت بادشاہ نے اپنے اتالیق او تاریخ فلسفہ کی مشہور شخصیت فلسفی سنیکا کا محض اس لئے خود موت کے گھاٹ اتار دیا تھا کہ یہ درد مند فلسفی نے اسے ظلم کے بجائے انسانوں سے پیار محبت کی تلقین کرتا تھا۔ نیرو نے اپنے ہاتھ سے اس کی کلائی کی رگ کاٹ ڈالی اور اسے حکم دیا کہ مجھے نیک کاموں کی تلقین کرو۔ میں نیرو کے پہلو میں ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ فلسفی سنیکا کی کلائی سے گرم گرم خون ابل رہا تھا۔ جب خون جمنے لگتا تو نیرو آگے بڑھ کر قہقہے لگاتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اس کی کلائی پر گرم پانی انڈیلنے لگتا مگر آفرین ہے اس عظیم اور نیک دل فلسفی پر کہ وہ آخری دم تک نیرو کو نیکی کی تلقین کرتا رہا۔ اگرچہ اس کا یہ فعل کسی حبشی کو اس خیال سے بار بار غسل دینے کی کوشش تھی کہ اس کا رنگ سفید ہوجائے گا لیکن اس ثابت قدم دانشور نے اپنا فرض ادا کیا اور جسم سے سارا خون بہہ جانے کے باعث مرگیا۔ اس بدنام زمانہ بادشاہ نے اپنے لئے جو شان دار محل بنوایا اس کی کھڑکیوں اور دروازوں پر سونے کی چادریں چڑھی ہوئی تھیں اور اس کی چھتوں سے بوقت ضرورت عطر کی پھواریں گرا کرتی تھیں۔
آخر ایک روز میری باری بھی آگئی۔ اس روز نیرو کے خونی سرکس میں درندگی کے مظاہرے جاری تھے۔ موت کے قیدیوں کو بھوکے درندوں کے آگے محض ایک چاقو دے کر پھنکا جا رہا تھا اور درندے انہیں چیر پھاڑ رہے تھے۔ ہزاروں کا مجمع نعرے بلند کر رہا تھا۔ نیرو ہاتھ میں جام لئے قہقہے لگا رہا تھا۔ میں اس کے پہلو میں سرکس کی منڈیر کے ساتھ لگا کھڑا تھا۔ معمول کی طرح میرے پہلو میں زہر میں بجھا ہوا خنجر لگا تھا۔ جب موت کے سارے قیدے چیرے پھاڑے جا چکے تو غلام ان کی بچی کھچی لاشوں کے ٹکڑے تماشاگاہ سے رتھوں میں بھر کر لے گئے۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 63پڑھنےکیلئے یہاں کلک کریں
میرا خیال تھا کہ یہ خونی تماشا اب ختم ہوچکا ہوگا۔ لیکن ایک اور تماشا ہونے والا تھ۔ نیرو نے بگل بردار کو اشارہ کیا۔ اس نے بگل بجا دیا۔ اس کے ساتھ ہی تماشا گاہ کی کوٹھری کالوہے کا دروازہ اوپر اٹھ گیا اور ایک انتہائی خوبصورت اور جوان عیسائی لڑکی کی میدان میں اتارا گیا اس نے اپنے ہاتھ میں صلیب تھارکھی تھی۔ اس کے سنہری بال کھلے ہوئے تھے۔ اگرچہ موت کے خوف سے اس کے قدموں میں لرزش تھی مگر حسین چہرے پر عقیدے کا جلال تھا۔ نیرو کے حکم سے ہی تماشا گاہ کی بالکل سامنے والی کوٹھری کا دروازہ اوپر اٹھا دیا گیا۔ اس کوٹھری کے اندر سے ایک چھ سات روز کا بھوکا شیر غراتا گرجتا لڑکی کی طرف بڑھا۔ شدت بھوک سے شیر کی سرخی مائل زرد آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔ اس سے پیشتر میں نے کئی انسانوں کو بھوکے درندوں کا شکار ہوتے دیکھا تھا اور میرے دل پر اتنا زیادہ کبھی اثر نہیں ہوا تھا لیکن اس سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں اور پر جلال چہرے والی عیسائی لڑکی کو بھوکے شیر کے آگے بے بس کھڑے دیکھ کر میری اندر ایک دھماکہ سا ہو ا۔ میں نے کمر سے خنجر کھینچ کر نکالا اور منڈیر پر سے تماشا گاہ میں چھلانگ لگا دی۔ یہ دیوار ڈیڑھ منزل اونچی تھی۔ میں نے زمین پر لگتے ہی ایک قلابازی کھائی اور خوف سے لرزتی ہوئی لڑکی کے آگے جا کھڑا ہوا شی رنے اچھل کر مجھ پر حملہ کردیا۔ لوگ مارے حیرت و جوش کے اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ شہنشاہ نیرو یہ معاملہ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا غلام اس کے شکار کی جان بچانے کی جرات بھی کر سکتا ہے مگر اب مجھے اس کی پروا نہیں تھی۔ میں نے عیسائی لڑکی کی جان بچانے کا عزم کر رکھا تھا۔
جونہی شیر نے مجھ پر چھلانگ لگائی میں نے ایک ہاتھ سے اس کا جٹا دھاری سر پکڑ کر خنجر سے اس کا پیٹ چاک کر دیا۔ شیر کی انتڑیاں باہر نکل آئیں۔ خنجر کے ساتھ لگے زہر نے اس کے جسم کو مفلوج کر دیا۔ ورنہ وہ دوسری بار مجھ پر حملہ آور ہوتا۔ شیر تماشاگاہ کی ریت پر بے حس و حرکت پڑا تھا اور اس کے جسم سے خون ابل ابل کر ریت میں جذب ہو رہا تھا۔ میں نے عیسائی لڑکی کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’ گھبراؤ نہیں۔ میں تمہیں ان درندوں سے نکال کر لے جاؤں گا۔ ‘‘ وہ اب بھی خوف زدہ تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اب ہم دونوں کو روم کے سیاہ فام گلیڈی ایٹر آکر بھالوں اور تلواروں سے قیمہ قیمہ کردیں گے۔ میں نے شہنشاہ نیرو کی طرف دیکھا۔ وہ اپنی شاہی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا اور میری طرف قہر بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ سارے امرا اور درباری دم بخود تھے۔ نیرو نے ایک چیخ مار کر کہا۔ ’’ ان دونوں کی کھال اتار کر ان پر کتے چھوڑ دو۔ ‘‘ اس حکم کے ساتھ ہی دو سیاہ گھوڑوں والا رتھ برق رفتاری سے دیوار کے دروازے میں سے نکل کر ہماری طرف بڑھا۔ اس رتھ پر دو ہٹے کٹے زرہ پوش گلیڈی ایٹر سوار تھے۔ وہ برچھے لہرا رہے تھے میں نے عیسائی لڑکی سے کہا۔
’’ بھاگنا مت ۔ اپنی جگہ پر کھڑی رہنا۔ ‘‘
جونہی رتھ میری طرف آیا میں ایک طرف ہٹ گیا اور زمین سے اچھل کر میں نے ایک زرہ پوش گلیڈی ایٹر کو نیچے گرا لیا لیکن اس دوران عیسائی لڑکی خوف کے مارے ایک طرف کو بھاگی۔ دوسرے گلیڈی ایٹر نے رتھ اس کے اوپر چڑھا دیا۔ میرے کانوں میں اس کی چیخ کی آواز آئی۔ میں اس کی طرف بڑھا۔ وہ زمین پر دہری ہو کر پڑی تھی اور گلیڈی ایٹر نے اس کے سینے میں برچھا گھونپ دیا تھا۔ میں یہ الم انگیز منظر برداشت نہ کر سکا اور بپھرے ہوئے شیر کی طرح دوسرے گلیڈی ایٹر پو جھپٹا میرے ہاتھ میں اب خنجر بھی نہیں تھا۔ اس نے برچھا دونوں ہاتھوں میں تھام کر میری سرپر مارا تو برچھا ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد میں نے پہلے گلیڈی ایٹر کی طرح اسے بھی اس کی فولاد کی زرہ کے اندر ہی یوں کچل کر رکھ دیا جیسے اس پر کوئی بھاری چٹان آن گری ہو، لوگوں پر ایک دہشت چھا گئی تھی۔ کسی انسان میں اتنی طاقت نہیں ہو سکتی تھی جس کا میں نے مظاہرہ کیا تھا۔ نیرو گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ مجھے کوئی مافوق الفطرت ہستی سمجھ کر وہاں سے باہر نکلنے لگا تو لوگوں نے اس کے خلاف نعرے نگانے شروع کر دیئے۔ عوام پہلے ہی اس کے مظالم سے تنگ آچکے تھے۔ اب انہوں نے میری طاقت کے مظاہرے کو آسمانی معجزہ سمجھا اور نیرو کے خلاف بغاوت کردی۔ تماشا گاہ میں ایک ہنگامی بپا ہوگیا۔ نیرو کے محافظ اسے تلواروں کی چھاؤں میں نکال کر محل کی طرف بھاگ گئے۔
میرے سامنے سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والی پرجلال عیسائی لڑکی کی لاش پڑی تھی۔ میں نے اس کی لاش کو اٹھایا اور رتھ میں رکھ کر تماشاگاہ سے باہر نکل آیا۔ لوگ مجھے کوئی دیوتا سمجھ کر نعرے لگا رہے تھے مگر ان کے درمیان سے نکل کر شہر کی بڑی سڑک پر سے ہوتا ہوا روما کے قدیمی قبرستان میں آگیا۔ میں عیسائی لڑکی کو عزت و احترام کے ساتھ دفن کرنا چاہتا تھا۔ میرا دل غم سے بوجھل تھا میری ساتھ گویا آسمان پر جھکے ہوئے بادل بھی غم زدہ تھے اور ہلکی بوندا باندی کے ساتھ اپنے آنسوؤں کا نذرانہ پیش کر رہے تھے۔ میں نے صنوبر کے ایک گھنے درخت کے نیچے عیسائی لڑکی کے لئے قبر کھودی اور اسے دفن کرنے کے بعد وہی صلیب اس کی قبر کے سرہانے لگا دی تھی جو اس نے تماشا گاہ میں داخل ہوتے وقت ہاتھوں میں تھام رکھی تھی۔
شہر میں واپس آیا تو وہاں بغاوت ہوچکی تھی۔ لوگوں نے شاہی محل پر دھاوا بول کر جگہ جگہ آگ لگا دی تھی۔ اسی روز شام کے وقت تاریخ کے بدنام ترین اور درندہ صفت بادشاہ نیرو کو قتل کر دیا گیا۔ بعد میں مجھے جن واقعات کا علم ہوا وہ یوں کہ جب شاہی محل پر حملہ ہوا تو نیرو منہ سرڈھانپ کر خفیہ راستے سے محل سے نکل بھاگا۔ لوگ اسے تلاش کر رہے تھے۔ وہ شہر سے دور اپنے ایک وفادار غلام کے گھر میں جا چھپا لیکن بپھرے ہوئے لوگ یہاں بھی پہنچ گئے۔ نیرو نے اپنے غلام سے کہا کہ یہاں میری لئے ایک قبر کھودو ۔ پھر نیرو نے خنجر نکال کر خود کشی کرنی چاہی مگر حاصلہ نہ ہوا اور ڈر گیا۔ وہ دیوار کے ساتھ لگ گیا ۔ خنجر کی نوک اپنے پیٹ پر رکھی اور غلام سے کہا کہ وہ اس خنجر کو اس کے پیٹ میں گھونپ دے۔ غلام نے ایسا ہی کیا۔ نیرو پیٹ پر ہاتھ رکھے لڑکھڑاتا ہوا گر پڑا۔ اتنے میں لوگ تلواریں اور برچھے لہراتے اندر آگئے۔ انہوں نے نیم جاں نیرو پر وار کرنے شروع کر دیئے نیرو کے ہونٹوں سے جو آخری جملہ نکلا وہ یہ تھا کہ ’’ آج ایک فن کار دنیا سے اٹھ رہا ہے۔‘‘ کاش ایسے ’’ فن کار ‘‘ دنیا میں کبھی پیدا نہ ہوں۔ ‘‘ (جاری ہے)