اپنی ماں کے شوہر سے شادی کرنے والی پاکستانی لڑکی نے سپریم کورٹ کے ججوں کو مشکل میں ڈال دیا
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ نے ہری پور میں اپنی ماں کے شوہر سے شادی کرنے والی پاکستانی لڑکی کے مقدمے میں خیبر پختونخوا کے سوشل ویلفیئر کے محکمے کو خاتون افسر تعینات کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت تین ہفتے تک ملتوی کر دی ہے۔
نجی ویب سائٹ ’پاکستان 24‘ کے مطابق جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ہری پور کی شیر بانو کی اپنی بیٹی سمیرا کو حوالے کرنے کی درخواست کی سماعت کی۔ درخواست گزار خاتون نے موقف اختیار کر رکھا ہے کہ اس کی نوعمر بیٹی سے اس کے شوہر وارث شاہ نے شادی کی اور اس کو ساس سسر نے زبردستی اپنے پاس رکھا ہوا ہے جبکہ درخواست گزار کی بیٹی سمیرا وارث نے عدالت کو بتایا کہ میری ماں جھوٹ بول رہی ہے، مرضی سے شادی کی اور خوش ہوں، وارث نے میری ماں کو طلاق دے کر مجھ سے شادی کی۔
خیبرپختونخواہ کے سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وارث شاہ اس وقت جیل میں ہے اور اس کا ٹرائل اگلے ہفتے سے ہری پور کی مقامی عدالت میں شروع ہوگا اور عدالت نے تین ماہ کا وقت دیا ہے لیکن جلد مکمل کر لیا جائے گا۔ جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ لڑکی سمیرا کے مطابق وہ ساس سسر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، کیا اس حوالے سے معلومات لی گئی ہیں؟ سرکاری وکیل نے کہا کہ ڈسٹرکٹ پولیس افسر ہری پور سے رابطہ کر کے عدالتی حکم کا بتایا تھا، وہ معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اس دوران اگر اس کے ساتھ کچھ غلط ہو گیا تو کیا ہوگا؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ علاقے سے ابھی کسی ایسے انتہائی اقدام کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ لڑکی کی عمر کیا ہے، وکیل نے بتایا کہ لڑکی 9 نومبر 1999ءکو پیدا ہوئی اور ابھی 19 سال کی ہوئی ہے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ ملزم خاوند ابھی تک جیل میں ہے، کیا لڑکی ساس سسر کے ساتھ محفوظ ہے؟ اس کا وہاں رہنا درست ہوگا؟۔ لڑکی سمیرا نے جواب دیا کہ وہ عزت سے، سکون سے اور خوشی سے رہ رہی ہے۔
لڑکی جانب سے مثبت جواب ملنے پر جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ اس گھر میں اور کون رہتا ہے؟ لڑکی کی ماں نے جواب دیا کہ وارث شاہ کا بھائی آصف بھی رہتا ہے۔ لڑکی نے جواب دیا کہ وہ نہیں رہتا، وہ شادی شدہ ہے اور اپنی بیوی بچوں کے ساتھ جہاں اس کی ورکشاپ ہے اسی پلازے میں رہتا ہے ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ گھر میں ساس سسر کے علاوہ ایک نند اور بچے رہتے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے سمیرا کے ساس اور سسر سے کہا کہ آپ لوگوں نے اپنے بچوں کی اتنی ساری بیویاں جمع کر رکھی ہیں، قصہ کیا ہے؟
عدالت میں ملزم وارث شاہ کی دوسری بیوی ثناءشاہ پیش ہوئی اور بتایا کہ وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ اسی گھر میں رہتی ہے اور سمیرا بھی وہیں رہائش پذیر ہے۔ عدالت کے پوچھنے پر ثناءشاہ نے کہا کہ خاوند نے اجازت لے کر دوسری شادی کی تھی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یہ پہلا کیس میرے سامنے آیا ہے جس میں شوہر کی دوسری شادی سے پہلی بیوی خوش ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ کفالت کون کرتا ہے؟ آمدن کے ذرائع کیا ہیں؟۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ملزم وارث شاہ اور اس کے والد کی ہری پور میں موٹر سائیکل رکشہ سپیئر پارٹس کی دکان ہے اور ہول سیل ڈیلر ہیں۔ درخواست گزار خاتون شیر بانو نے اس موقع پر مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے کاروبار میں میرے بچوں کا پیسہ لگایا ہوا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ نئی درخواست اور دستاویز کس چیز کی ہے؟ خاتون نے بتایا کہ گزشتہ سماعت کے بعد عدالت کے باہر ان لوگوں نے مجھے مارا ہے اور انہوں نے باہر جا کر مٹھائی بھی بانٹی ہے کہ سپریم کورٹ نے باپ کے ساتھ سوتیلی بیٹی کے نکاح کو جائز قرار دیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے خاتون سے خاموش رہنے اور آواز نیچی رکھنے کی تاکید کی اور کہا کہ ہم کیس کو دیکھ رہے ہیں، کیا نکاح نامے میں پہلے سے شادی شدہ ہونے کا ذکر کیا تھا؟ سرکاری وکیل نے دوسری شادی کا نکاح نامہ پڑھ کر کہا کہ وہاں اس خانے میں لکیر لگائی گئی ہے، اس کا مطلب ہے کہ نہیں بتایا۔ جسٹس قاضی فائز نے ملزم وارث شاہ کے والد واجد شاہ سے کہا کہ آپ کا بیٹا غلط آدمی لگتا ہے، آپ نے اس کی کیسی تربیت کی؟ کیا اس نے نکاح نامے میں جھوٹ بولا؟۔ والد کے خاموش رہنے پر جسٹس قاضی فائز نے دوبارہ پوچھا تو واجد شاہ نے کہا کہ اس عورت نے بھی۔۔۔
جسٹس قاضی فائز نے اس کو سختی سے ٹوکتے ہوئے کہا کہ دوسرے پر انگلی نہ اٹھائیے جو پوچھا ہے اس کا جواب دیں۔ واجد شاہ نے کہا کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ سمیرا میرے بیٹے کی بیوی ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ شادی گناہ تو نہیں ہے، کرنی ہے تو سچ بول کر کرو، ہم ہر کام کر لیں گے لیکن سچ نہیں بولیں گے۔ اس دوران لڑکی سمیرا نے عدالت میں اونچی آواز میں بولنے کی کوشش کی تو جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ شاید آپ کو اللہ کے ہاں بھی بچ جانے کا کوئی طریقہ معلوم ہو۔ جسٹس قاضی فائز نے واجد شاہ سے پوچھا کہ کیا اپنے بیٹے کے کردار سے مطمئن ہیں؟۔ واجد شاہ نے تین بار پوچھے جانے کے بعد کہا کہ مطمئن نہیں ہوں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ جس وقت وارث شاہ نے سمیرا سے نکاح کیا یہ کم عمر تھی، اٹھارہ سال پورے ہونے میں ڈیڑھ ماہ باقی تھا۔ جسٹس قاضی فائز نے ملزم وارث شاہ کے والد واجد شاہ سے پوچھا کہ کیا آپ کی بیٹی ہے؟ کنواری ہے؟ کیا چاہیں گے اس کے ساتھ ایسا ہو، آپ خوش ہوں گے؟ اپنی بیٹی کیلئے ایک اور دوسروں کی بیٹیوں کیلئے الگ پیمانہ ہے۔ سمیرا نے عدالت میں روتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کی تو جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہم یہ کر سکتے ہیں کہ کسی ایک فریق کو جیل بھیج دیں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ ایک تو پہلے ہی جیل میں بیٹھا ہوا ہے۔
سرکاری وکیل نے بتایا کہ ملزم وارث شاہ کی ضمانت مسترد کر دی گئی تھی جبکہ سمیرا کی ضمانت منظور کر کے اس کو ساس سسر کے حوالے کیا گیا تھا، اس کو دارالامان بھیجا جائے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آپ کے دارلامان کا بھی کیا حال ہے، وہ کوئی اچھی جگہ نہیں ہے، تایا چچا، ماموں اس کو رکھنا نہیں چاہ رہے۔
اسی دوران سمیرا نے عدالت میں اونچی آواز میں روتے ہوئے کہا کہ سارے جج میری بات نہیں سنتے، میں بھی انسان ہوں، مجھے بھی سنا جائے، سارے اسی (ماں کی طرف اشارہ) کی سنتے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے سخت لہجے میں سمیرا سے خاموش رہنے کو کہا۔ انہوں نے پوچھا کہ کوئی خاتون پولیس اہلکار ہے؟ اس کو لے جا کر جیل میں بند کر دو، اس کی ضمانت منسوخ کر دیتے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے سمیرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی اتنا بڑا نیک کام نہیں کیا کہ اپنی ماں کے شوہر سے شادی کر لی۔
سمیرا نے عدالت میں کہا کہ کوئی غلط کام نہیں کیا، ان کی طلاق ہو چکی تھی۔ پھر روتے ہوئے اونچی آواز میں کہا کہ مجھے اتنا سکون اور خوشی ملی ہے، کیوں مجھے مجبور کرتے ہیں کہ اپنی ماں کے پول کھولوں، میں نے ان کو (ماں کی طرف اشارہ) لوگوں سے غلط کام کرتے دیکھا ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے لڑکی کو خاموش کراتے ہوئے کہا کہ ہم مسئلے کے حل کی کوشش میں ہیں، اس دنیا کا ہی نہیں آخرت کا بھی خیال ہے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ یہ شرعی مسئلہ بھی ہے۔عدالت میں ماں بیٹی کے درمیان کئی بار سخت جملوں اور الزامات کا تبادلہ ہوا جس پر ججوں نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دونوں کو خاموش رہنے کیلئے کہا۔
عدالت نے خیبر پختونخوا کے سوشل ویلفیئر کے محکمے کو ہدایت کی کہ اپنی خاتون افسر تعینات کرے جو دو ہفتے روزانہ دوںوں گھرانوں میں جائے، ان کے پڑوسیوں اور گھر آنے جانے والے مہمانوں کو دیکھے، ان سے بات کر کے ان کی مکمل معلومات حاصل کرے اور اپنی رپورٹ دے۔
سرکاری وکیل نے استدعا کی کہ ہو سکتا سوشل ویلفیئر محکمے کے پاس کوئی ایسی خاتون افسر نہ ہو، عدالت اگر اس میں یہ نرمی کرے کہ خاتون پولیس اہلکار کے ذریعے بھی رپورٹ بنانے کی چھوٹ دے دے تو آسانی ہو جائے گی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ پولیس کا رویہ مختلف ہوتا ہے اس لئے اس کا حکم نہیں دے سکتے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ بہت ہی برا مقدمہ ہے۔
خاتون شیر بانو نے کہا کہ ان لوگوں سے میری دوسری بیٹی کو بھی خطرہ ہے، وہ بیس دن سے اسکول نہیں جا رہی۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ جو بھی کچھ کرنے کی کوشش کرے گا اسے جیل بھیج دیں گے۔