گجرات پولیس نے سنگین وارداتوں اور نوسربازی کیلے استعمال ہونیوالی سمز کی جعلی رجسٹریشن کابڑا نیٹ ورک کیسے پکڑا ؟تفصیلات جان کر آپ بھی دم بخود رہ جائیں
گجرات(خصوصی رپورٹ،مرزا نعیم الرحمان)تقریبا ڈیڑھ ماہ قبل حکومت پنجاب نے خداداد صلاحیتوں کے مالک اور برطانیہ سے اپنی اعلی تعلیم حاصل کرنیوالے ایک ایسے درویش صفت پولیس آفیسر کو گجرات جیسے اہم سیاسی اور صنعتی ضلع میں پولیس کا سربراہ مقرر کیا جس نے ایک انتہائی قلیل عرصہ میں نہ صرف پولیس کا قبلہ درست کر دیا بلکہ جرائم کا گراف بھی تیزی کے ساتھ کم ہوا۔شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کے شعر کا یہ مصرعہ گجرات پر صادق آتا ہے کہ "زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی" فوج کو جرنیل لڑاتے ہیں اور پولیس کی کارکردگی کا عروج و زوال اسکے کپتان کی کارکردگی سے وابستہ ہوتا ہے لیکن یہ امر مصدقہ ہے کہ جو پولیس افسران خلق خدا کی خدمت کرتے ہیں وہ براہ راست خداوند کریم کی خوشنودگی کا سبب بنتے ہیں اور لوگوں کی دعائیں بھی حاصل کرتے ہیں۔
دعا عبادت کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے اور بالخصوص وہ دعا جو کوئی کسی کے لیے کرتا ہو اس میں بڑی ہی تاثیر ہے ۔عمر فاروق سلامت کو پہلی ہی ملاقات میں ملنے والے انکی صلاحیتوں کے معترف ہو جاتے ہیں، ویسے تو یہ پاکستانی معاشرے کا کلچر ہے کہ اپنے مطلب کے لیے ہر کسی کی منہ پر تعریف اور کمر کے پیچھے اسکے نقائص نکالے جاتے ہیں، جسے بادی النظر میں غیبت قرار دیا جاتا ہے اور غیبت کرنیوالوں کو نبی کریم ﷺ نے اپنی امت سے خارج قرار دیاہے۔ خداوند کریم عمر فاروق سلامت کو ایک لمبی زندگی عطا فرمائے کیونکہ ایسے عاجز خدا ترس دوستوں کے دوست، بھائیوں کے بھائی اور ماتحتوں کے لیے سایہ شفقت پنجاب پولیس میں انتہائی نایاب ہیں، یہ گجرات کے عوام کی خوش بختی ہے کہ انہیں عمر فاروق سلامت جیسا آفیسر عوامی خدمتگار کے طور پر میسر ہے جن کا شب و روز عوام کی خدمت کرتے ہی گزر رہا ہے ،کبھی وہ سبزی اور فروٹ منڈی میں قیمتوں کا جائزہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں تو رات گئے کسی گلی محلے یا سڑک پر گشت کرتے ہوئے سادہ لباس میں اور باوردی پولیس کی کارکردگی چیک کرتے ہیں، اچانک کسی تھانے میں پہنچ جاتے ہیں، لوگوں کی داد رسی کیلئے انہوں نے خصوصی اہتمام کر رکھا ہے ،اب کسی کو سفارش یا چٹ کی ضر ورت نہیں پڑتی بلکہ ہر کسی کا کام میرٹ پر ہوتا ہے، عین ممکن ہے کہ اگر کسی کا کام نہ ہوا ہو تو میرے ان خیالات و جذبات سے اختلاف بھی کرے مگر کہتے ہیں کہ ہر شخص کو آئینے میں اپنا ہی چہرہ نظر آتا ہے۔ تنقید کرنے والے اگر میرٹ کے لغوی معنی پر غور کریں تو انہیں یہ محسوس ہو جائے گا کہ واقعی انصاف تو وہ ہے جو نظر آتا ہے ۔
کامیابیوں کا اگر ذکر کیا جائے تو ڈیڑھ ماہ کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے صبح سے شام اور شام سے صبح ہو جائے کسی کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کر کے انسان دراصل ایک ایسا فریضہ سر انجام دیتا ہے کہ اتنی محنت و مشقت کے ساتھ کام کرنیوالا مزید اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتا ہے۔ بلاشبہ ڈی پی او عمر فاروق سلامت کی کارکردگی کو عوام تک پہنچانے میں پی آر او برانچ کا جو کردار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو پنجاب کے تمام اضلاع میں سے گجرات کارکردگی کے حوالے سے نمبر ون ہے ۔عمر فاروق سلامت جیسے افسران کی تعیناتی پر خداوند کریم کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے جو چند ہی لمحے تک حقائق تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ،جنہیں لمبی چوڑی تفتیش کرنیکی ضرورت نہیں پڑتی، اگر یوں کہا جائے کہ برطانیہ میں انکے گزرے ہوئے ایک تعلیمی سال نے انکی ذات میں نکھار پیدا کیا تو بے جا نہ ہو گا ۔ان کی قیادت میں لاتعداد اشتہاری مجرمان گرفتار ہوئے تو دوسری طرف سوشل میڈیا دو رحاضر میں معلومات تک رسائی حاصل کرنے کا ایک فوری اور موثر ذریعہ بن چکا ہے، اسکے مثبت استعمال نے دنیا کا جہاں ایک گلوبل ولیج بنا کر رکھ دیا ہے، وہیں منفی استعمال معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنیکا سبب بن رہا ہے، سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس کی بھر مار، بلیک میلنگ اور جعلسازی کی داستانیں آئے روز منظر عام پر آتی ہیں مگر اب بلیک میلرز، جرائم پیشہ افراد موبائل سمز کے ذریعے ایسے ایسے گھناؤنے فعل سر انجام دے رہے ہیں جنہیں سن کر انسان کی عقل دھنگ رہ جاتی ہے ۔
گجرات پولیس نے چند یوم قبل قتل، اغواء برائے تاوان، دہشت گردی جیسی سنگین وارداتوں اور نوسربازی کیلے استعمال ہونیوالی سمز کی تیاری اور جعلی رجسٹریشن کرنیوالے ایک ایسا بڑا نیٹ ورک پکڑا ہے جو اگر نہ پکڑا جاتا تو جعلی سمز نہ صرف جرائم پیشہ افراد بلکہ ملک دشمن عناصر بھی استعمال کر کے مذموم مقاصد میں کامیابی حاصل کر سکتے تھے ۔پولیس کو منگوال کے قریب رہائش پذیراس مشکوک گینگ کی اطلاع ملی، جن کی حرکات و سکنات پر نگرانی کے بعد مشکوک پایا گیا ،گجرات پولیس کے سربراہ عمر سلامت نے تھانہ ڈنگہ کے ایس ایچ او فراست اللہ چٹھہ کو مذکورہ مشکوک افراد کی خفیہ طو رپر نگرانی کرنے کی ذمہ داری سونپی، ایس ایچ او تھانہ ڈنگہ فراست اللہ چٹھہ نے ڈی پی او گجرات عمر سلامت کے حکم پر اپنی ٹیم جس میں سب انسپکٹر طاہر زمان، سب انسپکٹر وقار محسن،سب انسپکٹر فہد الرحمن‘ کانسٹیبلان شازم، رمیز وغیرہ شامل تھے کے ہمراہ اس پانچ رکنی مشکوک گینگ کی خفیہ طو رپر نگرانی کا عمل شروع کر دیا کئی یوم تک مسلسل ملزمان کی ریکی کے دوران ہوشرباانکشافات سامنے آئے پولیس کو تحقیقات میں معلوم ہواکہ مذکورہ پانچ رکنی گینگ مختلف طریقوں سے مختلف کمپنیوں کی موبائل سمز کی جعلی رجسٹریشن کرانے‘ اور انہیں جرائم پیشہ افراد و نوسربازوں کو فروخت کرنے کے مکروہ عمل میں براہ راست ملوث ہیں۔
مذکورہ گینگ کے اراکین کے ذریعے فروخت ہونیوالی موبائل سمز کو جرائم پیشہ اور نوسر باز افراد قتل،ڈکیتی،دہشت گردی جیسے سنگین جرائم کیلئے استعمال کرتے ہیں، ملزمان کی گرفتاری کیلئے پولیس پارٹی تشکیل دی گئی جس نے منگوال میں آپریشن کیا مگر ملزمان پولیس کو دیکھتے ہی اپنا سامان چھوڑ کر مختلف سمتوں میں بھاگ نکلے۔ پولیس نے ملزمان کا تعاقب کر کے 2 کو گرفتار کرلیا جن کے 3ساتھی گنجان آبادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فر ار ہونے میں کامیاب ہو گئے، گرفتار ملزمان محمدارشاد ولد تاج محمد قوم جٹ سکنہ چک لال ڈھڈی اور بشارت علی عرف ببو ولد ظفر اقبال قوم جٹ واہگہ سکنہ چک ورسیاں ضلع پاکپتن کے قبضے سے دوران تفتیش پولیس نے 4عدد سم ایکٹیویشن ڈیوائسز،جاز سم 140عدد،،جاز IMSE 60عدد،،4 عدد موبائل فون،زونگ سم کٹی ہوئی 100عد د،زونگ سم نئی 15عدد،،ٹیلی نار کی IMSE 51عدد،،ایک عدد پولی تھین بیگ جس میں سیلیکان کی پٹیاں،پولی تھین گلوز،ٹریسنگ پیپر،،ایک عدد پارسل ٹی سی ایس،ایک عدد پلاسٹک ڈبی معمولہ پاؤڈر برنگ سرخ،،ایک عدد پولی تھین پیکٹ معمولہ 18عدد سلیکان پر تیار شدہ فنگر پرنٹس، یو ایس بی ایک عدد ٹیوب لائٹس بکس برنگ سرخ،ایک عدد شاپر برنگ نیلا معمولہ قینچی،کٹر، پیکنگ،ٹیپ،ڈائری،سرخ رجسٹر،ماؤس،چیک بک،پرنٹر،تین عدد کیمیکل والی بوتلیں حتی کہ انتخابی فہرستیں بھی برآمد کیں۔
مذکورہ گینگ انتہائی منظم انداز سے بلواسطہ یا بلاواسطہ موبائل کمپنیوں کیساتھ منسک ہو کر آسانی سے سم ایکٹیویشن ڈیوائسز اور غیر رجسٹرڈ شدہ سمز کے علاوہ آئی ایم ایز حاصل کر لیتا جس کے بعد ووٹر لسٹوں اور نادرا ریکارڈ کے ذریعے علاقہ کے لوگوں کی معلومات حاصل کی جاتی، حاصل شدہ معلومات سے ایسے افرادبالخصوص خواتین کا انتخاب کیا جاتا جن کی عمریں پچاس سال سے زائد ہوں ،ملزمان ایسے افراد کی نادرا کے ذریعے فیملی ہسٹری بھی حاصل کرلیتے ہیں ،اسی طرح ان منتخب افراد کے فنگر پرنٹس کی تصاویر بھی نادرا کے ریکارڈ سے حاصل کی جاتی، جس سے ایک خاص کیمیکل پراسیس کے ذریعے جعلی فنگر پرنٹس تیار کئے جاتے ہیں۔ بعد ازاں ان فنگر پرنٹس کی مدد سے سم ایکٹیویشن ڈیوائسز کو استعمال کرتے ہوئے ان خواتین کے نام پر سمز رجسٹر کرلی جاتیں، بعد ازاں رجسٹرڈ شدہ سمز مختلف قسم کے جرائم پیشہ افراد مہنگے داموں خریدکر جرائم مثلاً فیک جاز کیش،ایزی پیسہ اکاؤنٹس،فراڈ،ڈکیتی،راہزنی،دہشت گردی،اغواء برائے تاوان اور جعل سازی سے شہریوں کو لوٹنے میں استعمال ہوتیں۔
اس گھناؤنے دھندے میں ملوث تمام لوگ شناخت چھپانے اور پولیس کی نظروں سے بچنے کیلئے چند دنوں بعد اوقات چند گھنٹوں میں اپنے واٹس اپ نمبر ز سوشل میڈیا پر بدلتے رہتے ،ملزمان سوشل میڈیا کے ذریعے ہی ایک دوسرے سے رابطہ میں رہتے اور مختلف کاموں مثلاً ڈیوائسز حاصل کرنا،نادرا ریکارڈ حاصل کرنا،ووٹر لسٹیں حاصل کرنے کے لئے پیسوں کا لین دین جعلی جاز کیش یا ایزی پیسہ اکاؤنٹس کے ذریعے ہی کرتے تھے، ملزمان مختلف علاقوں میں کرائے کے مکانات کو محفوظ ترین ٹھکانہ تصور کرتے، جہاں سے و ہ اپنے مکروہ دھندے کو چلاتے تھے مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ گجرات پولیس نے اس خطرناک گینگ کا سراغ لگا کر ملزمان کو دھر لیا جن سے مزید اہم انکشافات کی توقع ہے۔ ڈی پی او گجرات کے پی آ او چوہدری اسد گجر اور پی ایس او عمران سوہی سمیت انکی ٹیم جو حالات واقعات اور اہم مقدمات کی پیش رفت سے ہمیشہ اپنے باس کو بروقت آگاہ رکھتی ہے کی کارکردگی کو نہ سراہا جائے تو زیادتی ہو گی۔ مذکورہ گینگ کی گرفتاری بلاشبہ ٹیم ورک کا نتیجہ اور بڑی کامیابی ہے ،گجرات پولیس کے کمانڈر عمر سلامت ڈی پی او گجرات نے گینگ کی گرفتاری پر چھاپہ مار اور تحقیقاتی ٹیم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے گروہوں کا ٹارگٹ بنیادی طور پردیہاتوں کی بزرگ خواتین اور سادہ لوح لوگ ہوتے ہیں جن کو یہ فری سمز،فری گھی یا دیگر انعامات کا لالچ دیکر کر ان سے انکی شناخت یعنی فنگر پرنٹس حاصل کر لیتے ہیں جو بعد ازاں دھوکہ دہی سے انکے نام پر رجسٹر کی گئی سمز سنگین قسم کے جرائم میں استعمال کرتے ہیں، اس قسم کے مشکوک عناصرکی فوری نشاندہی کر کے عوام ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں۔