آصف زرداری سوچ لیں
پاکستان پیپلزپارٹی نے پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی آڑ میں دوبارہ سے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی طرف رجوع کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ وہ دلیل لے کر آئی ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے خلاف حکومتی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں بغاوت کے بعد وہاں تبدیلی نوشتہ دیوار ہے،چنانچہ پنجاب میں بھی یہی صحیح وقت ہے۔رانا ثناء اللہ نے پیپلز پارٹی کو پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے پچیس حکومتی اراکین کی حمائت کا بندوبست کرکے بتانے کا پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ نون لیگ تیار ہے!
یادش بخیر سینٹ انتخابات میں بلاول بھٹو نے پی ڈی ایم سے بالا بالا بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ ساز باز کرکے جھٹ پٹ صادق سنجرانی کو چیئرمین اوریوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنوانے کے بعداپنے نام جاری ہونے والے شو کاز نوٹس کو پھاڑ کر پی ڈی ایم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کو شش کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کی جرأت کیسے ہوسکتی ہے کہ انہیں شو کاز نوٹس جاری کرے۔ چنانچہ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کے راستے جدا ہوگئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیابلاول بھٹو ایک زیر التوا شوکاز نوٹس کا جواب دے کرپی ڈی ایم میں واپس آئیں گے یا پھر اس کا تذکرہ گول کئے بغیر ہی پنجاب میں لاکھوں کے مجمع سے خطاب کا شوق پوراکریں گے؟دوسری جانب ایسے ہی سوال کا سامنا شاہد خاقان عباسی اور مولانافضل الرحمٰن کو بھی کرنا پڑے گااگر انہوں نے بھی اس پہلو سے صرف نظرکرتے ہوئے پیپلز پارٹی کو دوبارہ سے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر جگہ دی۔
اس سے بھی قبل جب پی ڈی ایم میں اتفاق پایا جاتاتھا کہ اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دے کرمڈٹرم انتخابات کی راہ ہموار کی جائے، یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے سندھ اسمبلی اور قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے سے انکار کردیا تھا اور آصف زرداری اپنی بے چارگی کا رونا روتے بیان دیا تھا کہ ان کا ایک ہی بیٹا ہے جس کا ڈومیسائل بھی پنجاب کا نہیں ہے، وہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی مول نہیں لے سکتے۔ جناب آصف زرداری سے گزارش ہے کہ ایک مرتبہ پھر سوچ لیں کیونکہ ان کے برخودارکے حالات اب بھی وہی ہیں جوپہلے تھے اور جب اس لاچارگی کی آڑ میں ان کو وصیت میں ملنے والی پیپلز پارٹی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عوامی غم و غصے کی راہ میں دیوار بن گئی تھی۔
اور....اس سے بھی کہیں پہلے 2018کے عام انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی کے امیدواران پنجاب میں پی ٹی آئی کی جیت کو یقینی بنانے کے لئے اپنے ووٹروں کو کہتے پائے جاتے تھے کہ سینے پر بیج چاہے تیر کا لگا کر رکھو مگر ووٹ بلے کو ڈال دو۔سچ پوچھئے توعوام کو پی ٹی آئی ایسا انمول تحفہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کی ہی دین ہے۔ اس لئے اب وہ کس منہ سے عوام کی سگی بنتی ہے اور مہنگائی کے خلاف انہیں اکساتی ہے۔ کہیں یہ پیپلز پارٹی کی کوئی نئی چال تو نہیں!
چلئے فرض کرلیتے ہیں کہ نون لیگ اور مولانا فضل الرحمٰن ایک مرتبہ پھرسے جانتے بوجھتے دھوکاکھاتے ہوئے پنجاب میں تحریک عدم اعتماد لے آتے ہیں اور یہاں کامیابی کے بعداسلام آباد میں دھرنا دے کرمرکزی حکومت کو بھی چلتا کرتے ہیں، اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پیپلزپارٹی اگلے عام انتخابات میں پی ٹی آئی سے اتحاد رچا کر پھر سے پی ڈی ایم کا منہ نہیں چڑائے گی؟
اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس قدر بگڑی ہوئی ملکی معیشت کے سامنے کون مائی کا لال اس کالک کو اپنے منہ پر ملنے کے لئے تیار ہوگا جو پی ٹی آئی نے اپنی نالائقی اور نااہلی کے نتیجے میں بڑی محنت سے اکٹھی کی ہے۔ کون سا ایسا ماہر معیشت ہوگا جو 174روپے کا ایک ڈالر والی معیشت کو مہنگائی کے منہ سے آناً فاناً نکال لے گا، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب کورونا وائرس کا پانچواں ویریئنٹ بھی سر اٹھانے کوتیارکھڑاہے؟
حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے معیشت کووہیں لا کھڑا کیاہے جہاں پیپلز پارٹی نے 2013کے انتخابات سے قبل بدترین لوڈ شیڈنگ کی شکل میں لا کھڑا کیا تھا اور نون لیگ حکومت کی ساری توانائی بجلی کے منصوبے لگانے اور ڈالر کو لگام ڈالنے میں صرف ہوگئی تھی۔ ان حالات میں تو بلاول بھٹوہی دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہر کسی کو نظر آرہاہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت آرہی ہے، حالانکہ سب کو تو یہی نظر آرہا ہے کہ وہ اتنے ذوق و شوق سے پنجاب کا دورہ نہیں کرتے جس خشوع و خضوع سے امریکہ بھاگے جاتے ہیں۔ اقتدار لینے کے لئے بیرونی سہاروں پر ان کا انحصار ایسے ہی رہا تو وہ دن دور نہیں جب عمران خان کی طرح وہ بھی مودی سے ملاقات کرتے نظر آئیں گے۔پیپلز پارٹی والے بھی بادشاہ لوگ ہیں کہ اپنی باری توپی ٹی آئی کو دے دی اور اب شفاف انتخابات کے مطالبے کوگدلا کرنے کے درپے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ پاکستان میں چوتھا مارشل لاء نہیں لگے گا!
مشرف کی باقیات سے پوچھنا تو بنتا ہے کہ پی ٹی آئی کو اقتدار میں لا کر سوائے ان کے کندھوں پر ترقی کے فیتے لگنے کے عوام کو کیا ملا ہے؟ ملک کو کیا ملاہے؟ دیکھا جائے تو یہ بھی بڑی بات ہے کہ ملک ہے تو موج مستی ہو رہی ہے وگرنہ ان سے پوچھئے جودہائیوں سے ایک وطن کی خواہش میں جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھا رہے ہیں۔ جہاں تک جناب آصف زرداری کی بات ہے توان سے یہی گزارش ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر سے سوچ لیں کہ وہ صدر مملکت بن جانے کے بعد اب کون سے عہدے کی تمنا دل میں رکھتے ہیں؟ ٭