موزونیء طبع اور کالماتی چیلنج
فنونِ لطیفہ کی تحسین کے لئے موزونیء طبع ایک خداداد صفت ہے۔ یہ صفت کسی شعوری کوشش سے ہاتھ نہیں آتی۔آج تک کوئی انسان یہ نہیں سمجھ سکا کہ فنونِ لطیفہ کی تحسین کی آمد کس ذریعے اور وسیلے سے ہوتی ہے۔ وہ دروازہ کون سا ہے جو شاعری، مصوری، سنگتراشی یا موسیقی کی آمد کا در کھولتا ہے۔ ہندوستان کی ساز و آواز کی دنیا میں اور بھی کئی شخصیات ہوں گی لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انڈیا کی فلمی صنعت میں نوشاد اور رفیع کی انٹری کیسے ہوئی اور یہ بھی کہ کیا یہ محض اتفاق تھا؟
محمد رفیع کے آباؤ اجداد کا پیشہ موتراشی تھا۔ یہ پروفیشن ہماری روزمرہ کی زندگی میں کوئی زیادہ باوقار پیشہ تصور نہیں کیا جاتا۔ اس بات سے قطع نظر کہ ہم میں سے ہر شخص (عورت ہو یا مرد) اس کو موتر اشی کی ضرورت پڑتی ہے۔ آپ اپنے سر کے بالوں کو یکسر کھلا نہیں چھوڑ سکتے وگرنہ آپ پر کسی سادھو یا گیانی دھیانی کا گمان گزرے گا۔ جو لوگ اپنے سر یا اپنی داڑھی کی موتراشی نہیں کرواتے ان کی شکل و صورت گویا بگڑ جاتی ہے۔ محمد رفیع بھی لاہور میں 12،13 سال کی عمر تک اپنے آبائی پیشہ یعنی موتراشی سے منسلک رہے…… کسے خبر تھی کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ وہ گائیکی کی ایک نئی دنیا تخلیق کریں گے۔
ہم اپنی گلیوں اور بازاروں میں کبھی کبھی کئی لوگوں کو کوئی فلمی گیت گنگناتے یا گاتے ہوئے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ ان کی آواز واقعی دلکش ہوتی ہے لیکن اس دلکشی کو نکھارنے اور سنوارنے کا کام بہت مشکل بلکہ ٹیڑھا اور ترچھا ہوتا ہے۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ یہ بتا سکوں کہ صوت و صدا کی دنیا میں دلربائی پیدا کرنے کا کام فطرت خودبخود کرتی ہے یا اس کے لئے کسی محنت مشقت (ریاض) کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
ایک اور وجہ جو سِل کو دِل بنا دیتی ہے وہ ایک اور خداداد صفت ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کی زندگی پر نظر ڈالئے۔ ماں باپ دونوں اَن پڑھ…… قرآن خوانی جو اقبال کی والدہ کو ایک تصویر میں کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں وہ آج بھی ہمارے گھروں کی بڑی بوڑھیاں کرتی ہیں۔ اقبال کی والدہ نے قرآن خوانی اپنی والدہ سے یا کسی مدرسے میں کسی خاتون قاری سے پڑھی اور سیکھی ہوگی لیکن اسے تقلید سے زیادہ کسی اور نام سے یاد نہیں کیاجا سکتا۔ آج ہمارے بھی ہزاروں مسلمان قاری، ماہِ رمضان میں نمازِ تراویح کے دوران قراتِ فاخرہ کا ورد کرتے ہوئے سنے جاتے ہیں۔ لیکن یہ قرأت ایک تقلیدی روش ہے۔ یعنی ایک شخض سے سنی اور دوسرے کو یاد کروا دی گئی۔اس میں ایجادی پہلو کوئی نہیں ہوتا۔
اقبال کے استاد مولوی میر حسن نے بھی جب اقبال کو درسِ قرآن دیا تھا تو ان کی کلاس میں دوسرے درجنوں شاگرد اور بھی ہوں گے لیکن قرآن خوانی اور قرآن فہمی کا جو شعور اقبال کو عطا ہوا، وہ کتنے اور لوگوں کے نصیب میں لکھا گیا؟…… تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ اقبال کی قرآن فہمی زیادہ سے زیادہ ایک روائتی روش تھی؟…… میرے ناقص خیال میں ایسا نہیں تھا…… ہاں البتہ اس کا آغاز مولوی میر حسن کی طرف سے ہوا لیکن اس میں نکھار کی جو جلوہ گری بعد میں چشمِ فلک نے دیکھی وہ ہرگز ہرگز روائتی روش نہیں تھی۔ اس میں اقبال کی ساری سوجھ بوجھ، سارا علم و فن اور فنِ شاعری کی تمام نزاکتیں، لطافتیں اور درخشانیاں شامل تھیں!
بعض حضرات اسد اللہ غالب کی شاعری اور ان کے فن کو بھی اسی زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ یہ عطیہء خداوندی تھا اور اس میں غالب کی اپنی انفرادی کوشش و کاوش کا دخل اگر تھا بھی تو بس برائے نام تھا…… شاید یہ بات درست ہو لیکن میری سمجھ کے مطابق غالب کو فنِ شعر گوئی کا فطری سلیقہ تو سارے کا سارا خدا کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ ان کی سوانح کا مطالعہ کریں تو اس میں کوئی ایسی نادر بات نظر نہیں آتی جو غالب کو غالب بنا گئی…… ان کا ایک فارسی شعر ہے:
غالبِ نام آورم، نام و نشانم مپرس
ہم اسد اللہ ام و ہم اسد الہیم
اس اسد اور اسدالہائی میں جو فرق ہے میں اس کی تفصیل بتا کر قارئین کا وقت ضائع نہیں کروں گا۔ اسد اللہ تو غالب کا وہ نام تھا جووالدین نے رکھا تھا لیکن اسدالہائی وہ فن تھا جو غالب کو ان کے خانوادے کی طرف سے عطا نہیں ہوا تھا۔
یہی بات علامہ اقبال کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ ان کے آباؤ اجداد کشمیری پنڈت تھے۔ ان کا خاندان کب مسلمان ہوا اور کب اس میں اقبال جیسا نابغہء روزگار پیدا ہوا، یہ کام ان محققین کا ہے جو خاندانی اور دودمانی خصائص کی ابتداء اور انتہاء کا ادراک کرنے کے پیشے سے منسلک ہیں۔
اقبال کا ایک فارسی شعر یہ بھی ہے:
ز شعرِ دلکشِ اقبال می تواں دریافت
کہ درسِ فلسفہ می داد و عاشقی و رزید
اس کا ایک مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ فلسفہ اور شعر دونوں کا آپس میں کوئی میل ملاپ نہیں۔ فلسفہ تو ایسے سوالات کو تخلیق کرتا ہے جو کسی شے کی ابتداء سے لے کر اس کے ارتقاء اور اس کی انتہاء تک کی تدریجی داستان بیان کرتے ہیں۔ یہ ایک مربوسط سلسلہء خیال ہے جس کی توضیح پر درجنوں کتابیں موجود ہیں لیکن شعر کیسے نازل ہوتا ہے، کہاں سے آتا ہے، کیسے پروان چڑھتا ہے اور اس میں سوز و ساز کی لطافتیں کہاں سے جنم لیتی ہیں، اس کا سراغ اب تک کوئی فلسفہ دان، ماہرِ امراضِ دماغ یا طبیب و حکیم نہیں لگا سکا۔ یہ صرف اردو شاعری تک محدود نہیں۔ دنیابھر کی زبانوں میں آج تک جو تحقیقاتی کاوشیں کی گئی ہیں ان کا ماحصل یہی ہے کہ یہ ایک ایسا عطیہء خداوندی ہے جس کی پیدائش و افزائش کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔
کہا جاتا ہے کہ اقبال کے بڑے بھائی جو MES (ملٹری انجینئرنگ سروس) میں ایک اوورسیر تھے (بعد میں آفیسرپرموٹ ہو گئے)ان کو اردو یا فارسی کا کوئی بھی شعر پڑھنا نہیں آتا تھا۔
جہاں تک موزونیء طبع کا سوال ہے تو یہ کسی شعوری محنت سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ ہاں اس میں نکھار لایا جا سکتا ہے لیکن یہ نکھار تبھی ممکن ہے جب یہ ”آمد“ کی عطا ہو، ”آورد“ کی نہیں!
مولانا الطاف حسین حالی ایک معروف شاعر اور مورخ تھے۔ ان کے نام سے ہم سب واقف ہیں۔ لیکن ان کے اشعار میں دلگدازی کا عنصر تقریباً نایاب تھا، البتہ دلفریبی ضرور پائی جاتی تھی۔ ان کی ایک مشہور غزل کا مطلع ہے:
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوبتر کہاں
اب ٹھیرتی ہے دیکھئے جا کر نظر کہاں
اس غزل کا ایک اور شعر ہے:
اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیشِ عشق
رکھی ہے آج لذتِ زخم جگر کہاں
لیکن اسی غزل کا ایک اور شعر یہ بھی ہے جو مقطع ہے:
حالی،نشاطِ نغمہ و مے ڈھونڈتے ہو اب
آئے ہو وقتِ صبح، رہے رات بھر کہاں
اردو ادب کے اکثر نقاد حضرات کا خیال ہے کہ حالی کے تمام کلام (بشمولِ مسدسِ حالی) میں صرف ایک یہی شعر ہے جس کی وجہ سے ان کو شاعر کہا جا سکتا ہے۔ وگرنہ وہ ایک ایسے نثرنگار تھے جس کی نثر ردیف اور قافیے میں مقید کہی جا سکتی ہے۔
اخباری کالم کے طول و عرض کا دامن چونکہ نہایت تنگ ہے اس لئے کسی بھی نکتے کو کسی شرح و بسط سے قرطاس پر بکھیرا نہیں جا سکتا۔کالم نگار کو اسی لئے اشاروں کنایوں سے کام لینا پڑتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اشارات و جزئیات کو تفصیلات و توضیحات کی جگہ رکھ کر شرحِ آرزو کرنی پڑتی ہے جو سیاسی امور و معاملات کو پابندِ و ضاحت کرتے ہوئے ایک نہایت ادق ایکسرسائز بن جاتی ہے۔ ذرا سا اِدھر اُدھر نکلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ”یارانِ باصفا“ اس کا مطلب کسی اور طرف لے جاتے ہیں …… اسی لئے یہ ایک نہائت مشکل کالماتی چیلنج ہے!
