نگاہوں کی حفاظت!
گناہ آنکھوں سے سرزد ہوتے ہیں انہیں گناہوں کا مرتکب ہونے سے بچائیں
نگاہ کو قابو میں کئے بغیر باطن کی اصلاح ممکن نہیں
حضور نبی کریمؐ کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اچانک کسی نامحرم عورت پر نظر پڑجائے تو اسے فورا ًہٹانے کا حکم دیا ہے
حافظ محمد ابراہیم نقشبندی
آنکھیں اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہیں کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔اسی آنکھ سے ہم دنیا کی رنگینی، اس کی لطافت اور ہر چیز کا حسن و جمال دیکھتے ہیں اور جو آنکھوں سے محروم ہو جائے پوری دنیا اس کے سامنے تاریک ہو جاتی ہے حتیٰ کہ اس کا اپنا گھر، اپنا جسم اور اپنی جائیداد سب پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اس پس منظر میں غور کیا جائے تو آنکھ والوں کے لئے بڑی عبرت و نصیحت ہے مگر کم ہی لوگ ہیں جو اللہ کی نشانیوں میں غوروفکر اور عبرت و نصیحت تلاش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب آنکھ جیسی عظیم نعمت دی ہے تو اس کے کچھ حقوق بھی ہیں، نبی ؐ کا فرمان ہے: ”یعنی تمہارے اوپر آنکھوں کے حقوق ہیں۔“ (صحیح البخاری:1874)
آنکھوں کا حق یہ ہے کہ اسے آرام پہنچائیں، اس کے ذریعہ قدرت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرکے اس کے خالق کی و حدانیت پر ایمان لاکر خالص اسی کی بندگی بجا لائیں، آنکھوں کو نقصان پہنچانے والی چیزوں سے دور رکھیں، ان کو شہوتوں اور فحش کاموں سے بچائیں،ان بیش قیمت آنکھوں سے صرف جائز چیزوں کو دیکھیں اور راہ چلتے آنکھوں کا حق یہ ہے کہ نگاہ نیچی کرکے چلیں مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا کے زمانے میں آنکھوں سے جتنے گناہ آج سرزد ہوتے ہیں، اتنے پورے جسم سے نہیں ہوتے ہوں گے۔ اسی احساس نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کیا شاید کوئی نصیحت پکڑنے والا نصیحت پکڑلے۔ آنکھوں کی نعمت کا حقیقی احساس اور ان کا صحیح استعمال کرے، شاید بہت سارے لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ زنا کا صدور جس طرح شرمگاہ سے ہوتا ہے،آنکھوں سے بھی ہوتا ہے اور آنکھوں کا زنا بدنگاہی یعنی فحش یا حرام چیزوں کو دیکھنا ہے۔ بدنگاہی کا حاصل یہ ہے کہ کسی غیر محرم پر نگاہ ڈالنا، بالخصوص جبکہ شہوت کے ساتھ نگاہ ڈالی جائے، چاہے وہ غیر محرم حقیقی طور پر زندہ ہو، اور چاہے غیر محرم کی تصویر ہو۔ اس پر بھی نگاہ ڈالنا حرام ہے اور بدنگاہی میں داخل ہے۔
بدنگاہی کا عمل نفس کی اصلاح کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ عمل انسان کے باطن کے لئے اتنا تباہ کن ہے کہ دوسرے گناہوں سے یہ بہت آگے بڑھا ہوا ہے، انسان کے باطن کو خراب کرنے میں اس کا بہت دخل ہے۔جب تک اس عمل کی اصلاح نہ ہو اور نگاہ قابو میں نہ آئے، اس وقت تک باطن کی اصلاح کا تصور تقریباً محال ہے۔ حدیث شریف میں حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا: ”یہ نظر ابلیس کے تیروں میں سے ایک زہر آلود تیر ہے،(مجمع الزوائد، ج 8ص63) یہ تیر جو ابلیس کے کمان سے نکل رہا ہے اگر کسی نے اس کو برداشت کرلیا اور اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ باطن کی اصلاح میں اب بڑی رکاوٹ کھڑی ہو گئی، اس لئے کہ انسان کے باطن کو خراب کرنے میں جتنا دخل اس آنکھ کے غلط استعمال کا ہے شاید کسی اور عمل کا نہ ہو۔
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ؐ سے اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں دریافت کیا، یعنی اچانک کسی نامحرم عورت پر نظر پڑجائے تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟ تو آپ ؐ نے مجھے حکم دیا کہ میں ادھر سے نگاہ پھیر لوں۔(صحیح مسلم: 5644)۔نیز بدنگاہی انسان کی عبادت کی حلاوت کو ختم کر دیتی ہے اور اس کا ذہن مختلف گندے خیالات کی آماجگاہ بن جاتا ہے، جس سے اس کی خانگی زندگی شدید متاثر ہوتی ہے اور خیر و برکت سے محروم بھی ہو جاتی ہے۔
موجودہ زمانہ میں بد نظری کا ایک عظیم سیلاب ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ ہر جگہ فحش مناظر عام ہو گئے ہیں، بازار، مارکیٹ، دکانیں، سڑکیں، چوراہے، مکانات کی دیواریں حتیٰ کہ روز مرہ کی استعمال کی چیزیں بھی فحش تصاویر سے آراستہ ہوتی ہیں، یہاں تک کہ اخبارات و رسائل بھی اس کی زد سے بچ نہیں سکے جس کی وجہ سے آج کل ایک شریف اور دین دار آدمی کا اخبارات پڑھنا راستوں میں چلنا، بازاروں میں جانا بالکل دشوار ہو گیا ہے اور اس پرستم یہ کہ اس وبا اور سیلاب پر بند لگانے کی فکر کے بجائے ہر کوئی اپنی دنیا چمکانے کی غرض سے فحش تصاویر اور عریاں پوسٹر آویزاں کر کے ا س برائی کو بڑھاوا دے رہا ہے،اس فواحش کی کثرت کا برا نتیجہ یہ ہوا کہ آج کل نہ چاہتے ہوئے بھی، بہت سے افراد بد نظری میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو بعد میں بڑے گناہوں کا سبب بنتی ہے۔پھر اس گناہ کو ہلکا سمجھنا اوراس پر جمے رہنا اور بھی زیادہ مضر ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒاپنے وعظ میں ارشاد فرماتے ہیں:اب اگر اس نعمت کا صحیح استعمال کروگے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں تم کو اس پر ثواب بھی دوں گا، مثلا اس آنکھ کے ذریعہ محبت کی نگاہ اپنے والدین پر ڈالو۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو صالح اولاد محبت کی نظر سے اپنے والدین کو دیکھے تو اسے ہر نگاہ پر اللہ تعالیٰ ایک مقبول حج کا ثواب بخشتا ہے، لوگوں نے پوچھا: اگر دن میں سو مرتبہ دیکھے تو؟ فرمایا: تب بھی، اللہ بہت بڑا ہے اور بڑا پاکیزہ ہے (یعنی ہر مرتبہ دیکھنے کا ثواب حج مقبول کی صورت میں دے گا(الجامع لشعب الایمان للبیہقی: 10/245)
حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی نے لکھا ہے کہ صرف بدنظری ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر گناہ سے بچنے کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں: (1)انسان اللہ تعالیٰ سے اس گناہ سے دور رہنے کی دعا کرتا رہے۔(2)اور اپنے عمل و ہمت سے اس کام سے دور رہے۔
اگر ان میں سے ایک چیز ہے اور ایک چیز نہیں ہے۔ یعنی صرف دعا کرتے رہو اور ہمت نہ کرو تو کام نہیں چلے گا۔ مثلاً ایک آدمی مشرق کی طرف بھاگا جا رہا ہے اور دعا کر رہا ہے کہ اے اللہ! مجھے مغرب کے فلاں مقام پر پہنچا دے، تو دعا کیسے قبول ہو گی، پہلے ضروری ہے کہ اپنے رخ کو مغرب کی طرف کرے اور پھر دعا کرے، ورنہ وہ دعا نہیں بلکہ مذاق ہے۔اس لیے ہمیں دونوں کام کرنے چاہئیں بعد میں اس کا نتیجہ برآمد ہوگا۔ بس یہی نسخہ بدنگاہی سے بچنے کے لیے کافی ہے اور ساری طاعات (فرمانبرداری) کو حاصل کرنے کا بھی یہی نسخہ ہے۔
یہ بدنگاہی کا عمل نفس کی اصلاح کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ عمل انسان کے باطن کے لئے اتنا تباہ کن ہے کہ دوسرے گناہوں سے یہ بہت آگے بڑھا ہوا ہے۔جب تک اس عمل کی اصلاح نہ ہو اور نگاہ قابو میں نہ آئے، اس وقت تک باطن کی اصلاح کا تصور محال ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عظیم گناہ سے ہم سب کو بچائے اور ان نصائح پر ہمیں اور تمام مسلمانوں کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
final
