گندم اور اُس سے متعلقہ مسائل
خوراک کی انسانی زندگی میں جتنی اہمیت ہے، اِس کے بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں۔ابتدائے آفرینش سے تا قیامت یہ مسئلہ حل طلب ہی رہے گا۔۔۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ قیام پاکستان کے وقت سے لے کر اب تک ہم گندم کی پیداواری صلاحیت 3ملین ٹن سے 24/25ملین ٹن تک لے جاچکے ہیں، لیکن آبادی بھی کم وبیش اُسی رفتار سے ہے جس کی وجہ سے گندم اور آٹا ہمارے ملکی ایجنڈے کا ایک مستقل حصہ رہاہے۔شروع کی دہائیوں میں گندم کی کمیابی کا یہ عالم تھا کہ 1967/68ء میں گندم کے ساتھ چری بھی پیسنا پڑی اور 1986تک راشننگ کا نظام چلتا رہا جس کے تحت مخصوص ڈپووں سے راشن کارڈ پر آٹا ملتا تھا۔ 68سال کے اِس عرصے میں گندم کے معاملے میں ہمیں مختلف قسم کے حالات کا سامناکرنا پڑا۔ پہلے 40سال میں اکثر اوقات درآمدی گندم پر انحصار کرنا پڑا۔ پھر ایسا وقت بھی آیا کہ گندم رکھنے کو جگہ نہیں تھی اور محکمہ پنجاب کو63لاکھ ٹن تک گندم سٹور میں رکھنا پڑی۔ اِس سارے اتارچٹرھاؤ کی وجہ میرے نزدیک اُس وقت کی حکومتوں کی پالیسوں کا عمل دخل رہا ہے۔ جو مسلسل عدم تسلسل کا شکار رہیں۔
دراصل حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں، بلکہ کاروبار کو ریگولیٹ کرنا ہوتا ہے جس کے تحت ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ جس سے ایک صحت مند مقابلے کی فضا جنم لے سکے۔ یہ بات اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے کہ جب حکومت کو چینی، آٹے اور چاول پر کنڑول حاصل تھا تو ایسی شکایات سننے میں تھیں کہ چاولوں کی بوریوں سے بیرونِ ملک درآمد کنندگان کو چاولوں کے ساتھ اینٹیں بھی ملیں۔ چینی کا مسٗلہ اِس قدردگرگوں تھا کہ بہن، بیٹی کی شادی کیلئے دس، بیس کلو چینی کیلئے سفارشیں ڈھونڈنا پڑتی تھیں۔ اخبارات آٹے کی خراب کوالٹی کی خبروں سے بھرے رہتے تھے۔ اب بھی حکومتی تحویل میں قومی ادارے مثلاًریلوے، پی آئی اے اور سٹیل ملز کی زبوں حالی اظہر من الشمس ہے۔ گندم اور آٹے کے حوالے سے بھی اگر کچھ مسائل ہیں تو اُس کی وجہ حکومت کی پالیسیاں ہی ہیں۔ پرانے وقتوں میں گندم کی قیمت بین الاقوامی قیمت کے مقابلے میں اتنی کم تھی کہ ہر وقت سمگلنگ کی تلوار لٹکی رہتی تھی ،پچھلی حکومت کے دور میں دیہاتی ووٹ بینک کو ہاتھ میں رکھنے کے لئے گندم کی قیمت کو اس قدر بڑھا دیا گیا ہے کہ 90ڈالر فی ٹن سبسڈی دینے کے باوجود صرف 2لاکھ ٹن گندم کی برآمد ممکن ہو سکی ہے۔
مقامی اور بین الاقوامی قیمتوں میں فرق 125ڈالر سے 150ڈالر تک ہو چکا ہے، لیکن جب سے یہ تجارت آزاد ہوئی ہے۔ اِس نوعیت کے مسائل پھر سننے کو نہیں ملے۔ کوالٹی کے بارے میں شکایات بھی ختم ہو گئیں،لیکن اِ س تجارت کے ساتھ کسانوں کو اُن کی محنت کا پورا معاوضہ ملنے کو یقینی بنانے کیلئے گندم کی امدادی قیمت مقرر کرنا شروع کردی گئی، جو ہرسا ل روپیہ کی قدر کم ہونے اورافراطِ زر کی وجہ سے بڑھتی ہی چلی گئی۔ دراصل آٹا اور گندم سیاسی جنس بن چکی ہیں۔ ہر حکومت اِس کی قیمت میں اضافے کے عوامی ردعمل سے خوف زدہ رہتی ہے۔ اور آٹے کی قیمت کو کم رکھنے کے لئے سبسڈی دیتی ہے۔ ہم جیسے سادہ لوح آدمی سمجھتے ہیں کہ آٹا سستا مل رہاہے، جبکہ اِس سبسڈی سے جو خزانہ خالی ہوتا ہے وہ ہم ہی سے ٹیکسوں کی شکل میں وصول کرلیا جاتا ہے۔ اب بھی حکومت پنجاب زر تلافی کی مد میں950/-روپے فی 100کلو خرچ کررہی ہے۔ یعنی 3250/-روپے میں خرید کردہ گندم کی لاگت 4200/-روپے آتی ہے۔
ہماری صفوں میں حکومت کے بعض ’’ خیرخواہ‘‘ یہ چاہتے ہیں کہ حکومت پنجاب 1200/-روپے فی من گندم کااجرا کرے اور اِس طرح 480/-روپے فی 40کلو گرام سبسڈی برداشت کرتے ہوئے 60ارب کا نقصان کرے۔ کون نہیں جانتا کہ اس قسم کی سبسڈی عوام الناس تک کتنی پہنچتی ہے۔ اِس کے بارے میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ 5-6لاکھ ٹن آٹا افغانستان کو ایکسپورٹ کیا جا سکے۔ دوسرے یہ کہ عوام کو سستا آٹا مل سکے۔ جب اس تجویز کا تجزیہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اول تو افغانستان 5-6لاکھ ٹن کی مارکیٹ ہی نہیں ،کیونکہ ہماری گندم کا ریٹ ، گندم کی بین الاقوامی قیمتوں سے تجاوز کر چکا ہے، جس سے یہ مارکیٹ سکڑ چکی ہے۔ دوسرے یہ کہ دو چار لاکھ ٹن گندم یا اس کی مصنوعات بھیجنے کے لئے ملکی خزانے کو 60ارب کا ٹیکہ لگے گا ۔تیسری بڑی بات یہ کہ اس سارے عمل سے پرائیوٹ سیکٹر کو ایک نہایت غلط پیغام جائے گا۔ جس سال بھی گندم کی فصل اچھی ہوتی ہے۔ حکومت وقت کی شدت سے خواہش ہوتی ہے کہ پرائیوٹ سیکٹر آئے اور اپنا کردار ادا کرے اور اپنی سٹوریج کی استعداد میں اضافہ کرے، تاکہ گندم کی قیمت اتنی کم نہ ہو جائے کہ جس سے ہمارے کسان بھائیوں کو نقصان اٹھانا پڑے ۔ حالیہ دنوں میں اخبارات میں چھپے ہوئے ایک مضمون میں انڈسڑی کے ایک رہنما کی جانب سے اُن کو ذخیرہ اندوز کے نام سے پکارا گیا،حالانکہ فلور ملز گندم دو وجوہا ت کی بنا پر خریدتے ہیں ،نمبر ایک یہ کہ گندم کی کمیابی کے دور میں، جبکہ محکمہ خوراک گندم کا کوٹہ مقرر کر دیتا ہے ۔ اپنی گندم کو اُس کوٹے کے ساتھ ملا کر آٹا بنائیں ،تاکہ اُن کا ڈیلراور صارفین کے ساتھ کاروبار کا رشتہ برقرار رہے ۔دوسرے یہ کہ محکمہ خوراک کے پاس اعلیٰ درجے کی سٹوریج نہ ہونے سے موسمی حالات سے گندم کی جو کوالٹی متاثر ہو، اُس کو اُٹھانے سے بچ جائیں اور اپنی خرید کردہ گندم کی ہی پسپائی کریں، تاکہ مارکیٹ میں اُن کے برانڈ کا نام خراب نہ ہو۔ ویسے بھی وہ ذخیرہ اندوز کیسے ہو سکتے ہیں جبکہ اُن کے ذخائر محکمہ خوراک کے پاس ظاہر ہوتے ہیں ،جس کی روزانہ کی بنیاد پر رپورٹیں مختلف دفاتر میں بھیجی جاتی ہیں۔ مَیں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ ہر حکومت آئی ایم ایف،ورلڈ بینک اور دوسرے انڑنیشل مالیاتی اداروں سے قرضہ لیتے وقت ہر بار یہ وعدہ کرتی ہے کہ وہ سبسڈی کے دور سے باہر نکلے گی ،لیکن اِ س کے باوجود زر تلافی کی رقم مسلسل بڑھ ہورہی ہے اور قومی خزانے پر بوجھ بنی ہوئی ہے۔
جہاں تک ایک عام اور غریب آدمی کے لئے سستے آٹے کے حصول کا مسئلہ ہے ،اول تو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر گندم آسانی اور بھرپور مقدار میں دستیاب رہے تو آٹے کی مہنگائی اور اُس کی کوالٹی کی خرابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ باہمی اور صحت مند مقابلے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں اوربفرض محال اگر آٹا مہنگا بھی ہوتا ہے تو کیا ضروری ہے کہ قومی خزانے سے دی جانے والی سبسڈی سے غریب آدمی کے ساتھ ہر امیر اور صاحبِ حیثیت آدمی بھی استعفادہ کرے۔سبسڈی کے ضیاع سے بچتے ہوئے صرف خطِ غربت سے نیچے بسنے والوں کا انتخاب کیا جائے، اِس کے لئے پنجاب کا محکمہ خوراک ایک خصوصی کارڈ بنانے پر پچھلے کئی سال سے کام کر رہا ہے۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس سکیم کو فوری عملی جامہ پہنایا جائے اور گندم کی اجرائی قیمت اِس طرح مقرر کی جائے کہ جو کم از کم1330/-روپے فی 40کلو ہو ،اِس طرح سبسڈی کے اِس دور سے 3سے4سال میں بتدریج نکلا اور سبسڈی کے ذریعے قومی خزانے کو لگنے والے ٹیکے سے بچا جاسکے ۔ کسان کے لئے گندم کی امدادی قیمت کو کچھ سال کے لئے منجمد کیا جائے، تاکہ ہم انٹرنیشنل مارکیٹ میں داخل ہوکر ملک کے لئے زرمبادلہ کما سکیں۔ یہاں یہ بات ضرورمدنظر رکھنی چاہئے کہ گندم کی کاشت پر کسان کی لاگت اگر بڑھتی ہے تو اُس کی قیمت بڑھانے کی بجائے اُس کے مداخل ،یعنی بجلی، ڈیزل، بیج اور کھاد وغیرہ پر سبسڈی دی جائے۔