یورپ کے جپسی
اس مضمون کے لکھنے کی تحریک میرا ٹرین کا سفر تھا جو میَں نے روم سے بارسِلونا تک پچھلے سال کیا ۔ روم کے ریلوے اسٹیشن پر اِٹلی کے ٹورزم کے محکمے والوں نے مجھے غیر ملکی سمجھ کر اور اپنے معمول کے مطابق کچھ ہدایات دیں۔ اُن میں سے اہم ہدائت یہ بھی تھی کہ بارسِلونا کے ریلوے اسٹیشن پر جپسی (Gypsy) جیب کتری خواتین سے محتاط رہوں۔ اٹلی کے ٹورزم والوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ جرائم پیشہ Gypsy اٹلی میں بھی ہیں لیکن اِن کی اکثر تعداد اور جرائم کی کاروائیاں سپین میں زیادہ ہیں۔
میَں نے اس سے پہلے یورپی جپسی دیکھے بھی نہیں تھے۔ البتہ بارسِلونا کے ریلوے اسٹیشن پر میَں نے ایسی خواتین ضرور دیکھیں جو یورپی لباس میں تھیں ، چہرے پر مسکینی ٹپکتی تھی۔ لباس میں وہ لمبے سکرٹس پہنے ہوئے تھیں۔
کچھ نے سر پر رومال سا باندھا ہوا تھا ، چہرے کا رنگ تانبے کی طرح سفیدی مائل تھا، بال اور آنکھیں سیاہ اور ناک سُتواں تھی۔ کچھ ننگے پاؤں اور کچھ نے پُرانی طرز کے اُونچی ایڑی کے جُوتے جسے ہمارے ہاں پُرانے زمانے میں گرگابی کہا جاتا تھا۔ (آج کل کی خواتین اِن کو Heels کہتی ہیں) پہنے ہوئے تھیں،چونکہ مجھے پہلے ہی سے آگاہ کر دیا گیا تھا، اس لئے میَں محتاط تو تھا۔ ایک نوخیز اور اچھے نین نقش والی بنجارن نے میرے آگے ہاتھ پھیلایا ۔ میَں نے دیکھا کہ اسی حُلیے والی لڑکیاں ٹرین سے اُترنے والے اور سیاحوں کو بھی Target کررہی تھیں۔ اِن لڑکیوں کی بوڑھی مائیں یا خالائیں ریلوے اسٹیشن کے کونے میں پیر پھیلائے برگر بھی کھا رہی تھیں اور اُن نوجوان لڑکیوں کو اِشارے کر کے ’’شکار‘‘کی نشاندہی بھی کر رہی تھیں۔
بہر حال میَں تو خیر و عافیت سے باہر آرہا تھا کہ میَں نے دیکھا 2-3 نوجوان بنجارنیں مصنوعی سی لڑائی لڑتی ہوئی ایک عمر رسیدہ جاپانی جوڑے پر ’’گر‘‘ پڑیں۔ جاپانیوں نے سٹپٹا کر اُن گِرنے والیوں کو دیکھا اور اُن کو ’’چوٹ‘‘ سے بچانے کیلئے ہمدردی کرتے ہوئے اُن بنجارنو ں کو ’’گرنے‘‘ سے بچاتے بچاتے، اُن لڑکیوں نے جاپانی بابے کا پرس اُچک لیا اور فوراً ہی رفوچکر ہو گئیں۔ میرے سامنے ’’واردات‘‘ ہو گئی کیونکہ مجھے اِن بنجاروں کے بارے میں آگاہی ہو چکی تھی اس لئے میَں اِن لڑکیوں کی لڑائی کو گہری نظر سے Watch کر رہا تھا کہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے واردات ہو گئی اور ’’بابا ، بابی‘‘کو پتہ بھی نہ لگا۔ خیر میَں نے اپنا ایک ہفتہ سپین میں محتاط رہتے ہوئے گذاردیا۔
2013 میں صرف سیر کے لئے میَں اُزبکستان گیا۔ بخارہ شہرمیں کافی زیارتیں بھی ہیں اور تاریخی عمارتیں بھی۔وہاں مجھے یورپی جپسیوں کی شکل و صورت والی لیکن اُزبک زبان میں بھیک مانگتی ہوئی خواتین نظر آئیں۔ دراصل تھوڑا بہت میَں جپسیوں کے بارے میں 80 کی دھائی سے ہی جانتا تھا جب میَں اپنے سعودی بینک کی نائٹس برج برانچ میں کچھ عرصے کے لئے منیجر تھا۔ برانچ میں روزانہ صفائی کرنے والا ایک مرد آتا تھا۔
اُس کا کچھ اسلامی سا نام تھا لیکن ہم پاکستانیوں یا میرے سعودی ساتھیوں کے لئے اُس کا نام نامانوس تھا۔ بینک کے سکیورٹی کے عملے نے بتایا کہ یہ جپسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو آئرلینڈمیں پچھلے 100 سال سے خانہ بدوشوں کی طرح رہتا ہے۔ اس جپسی کا خاندان ترکی سے جرمنی اور جرمنی سے ہٹلر نے اِن کو یہودیوں کی طرح ملک بدر کر دیا یا نکال باہر کیا، بعد میں اِن جپسیوں کا ایک ہزار سے زیادہ مہاجروں کا قافلہ آئرلینڈ میں بس گیا تھا۔مجھے تجسُس ہوا کہ اِن بنجاروں کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کروں ۔ صفائی کرنے والے کا نام خوشباش تھا لیکن اُسے خشبا کے مخفف نام سے بلایا جاتا تھا جو ظاہر ہے ہمارے لئے ایک غیر مانوس نام تھا۔ ایک دِن میَں نے سیکورٹی کو ہدائت کی کہ خشبا کو جانے نہ دینا میَں اُس سے ملنا چاہتا ہوں۔ دراصل خشبا صبح ہی صبح اپنا کام کر کے چلا جاتا تھا۔ 1983 میں ابھی الیکٹرونک سیکو رٹی کمرشل بینکوں میں نہیں آئی تھی۔ دوسرے دن خشبا میرے کمرے میں سہما سہما ہوا آیا غالباً یہ سوچ کر کہ میَں اُس کی سرز ش کروں گا۔ اُس نے مجھے لفظ ’’سلاماً‘‘ بول کر سلام کیا۔
میَں نے اُسے بڑی شفقت سے وعلیکم اسلام کہا۔ میَں اُس کے چہرے پر اَب خوشی کے آثار دیکھ رہا تھا۔ اُس نے اپنے بارے میں یہی بتا یا کہ اُس کے اجداد اناطولیہ(ترکی)سے ہیں۔ اُس کے گھر میں بوڑھے لوگ جرمن بولتے ہیں اور نوجوان رومانی زبان اور انگریزی زبان کا مرکب بولتے ہیں۔ اِن کا قبیلہ مسلمان ہے لیکن اسلام کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ وہ خود مسلمان ہے لیکن صرف نام کی حد تک۔ میرے گھر کے قریب ہی ایک گراسری کی چھوٹی سی دوکان تھی۔ دوکان کے مالک کا حلیہ ، رنگ روپ اور نقش خشبا والے ہی تھے لیکن اُس کو محلے کے لوگ جپسی نہیں کہتے تھے بلکہ (Roma) روما کہتے تھے۔ مجھے اَب زیادہ آسانی ہو گئی کہ میَں اِن روما بنجاروں کی نسل کے بارے میں جان سکوں ۔ میَں کسی نہ کسی طور پر مسٹر سمِتھ سے بے تکلف ہو گیا۔ اس روما کا نام Smith تھا، ہائی سکول پاس تھا اور اپنی نسل اور زبان کی کچھ کچھ تاریخ جانتا تھا۔
بقول سمِتھ کے ، یورپ نہیں بلکہ ساری دنیا میں بسنے والے جپسی ہندوستان کے خطِوں یعنی پنجاب ، راجستھان ، بنگال سے آئے ہیں۔ جب ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت ہوئی (ترک سلطانوں کی) تو اِن بنجاروں کے اجداد گاہے گاہے اناطولیہ اور اس کے قرب و جوار کے مسلمان ممالک میں ہجرت کر گئے۔ ہندوستان میں بھی یہ زیادہ عزت سے نہیں دیکھے جاتے تھے۔ کہیں انہیں اوڈ کہا جاتا تھا، کہیں چنگڑ اور ٹپری واسی اور کہیں ڈوم۔ مسٹر سمِتھ چونکہ تھوڑا پڑھا لکھا بھی تھا اور اُس کے زیادہ تر گاہک اِنڈین اور پنجابی پاکستانی تھے اس لئے مسٹر سمِتھ نے اپنی روما زبان کے کچھ الفاظ مجھے بتائے جو دراصل پنجابی (روہتکی پنجابی)اور راجستھانی ہندی سے ماخوز ہیں۔ ھِک (ایک) دو (دو) تِن (تین) چار (چار) پنج (پانچ) چھیاء (چھ) ست (سات) اَٹھا (آٹھ) نوں (نو) دسی (دس) دُودّ (دودھ) میرو (ہمارا)، وہ (He/She) کون (Who) بِھرا (بھائی) مُنش (اِنسان) بی بی (عورت) کاکو (کاکا، بزرگ کے لئے عزت کا لفظ، روھتک اور حصار میں اب بھی بولا جاتا ہے) رات (Evening) لچھی (خوب صورت/پنجابی لفظ)۔ امارو (ہمارا۔ راجستھانی لفظ) یورپ میں اِن بنجاروں کو روما کہا جاتا ہے۔ جس جس ملک میںیہ لوگ گئے، اپنی مورثی زبان کے ساتھ مقامی زبانوں کو مکِس کرکے اِن لوگوں کی زبان کی کئی اقسام بن گئیں لیکن چند بنیادی الفاظ ابھی بھی اِن کی رومانی زبا ن میں قائم ہیں جو میَں نے اوپر لکھ دیئے ہیں۔ ہندوستان میں اِن چنگڑوں کی ایک شاخ ڈوم کہلاتی تھی۔ بڑی عمر کے پاکستانیوں نے ڈومنیوں کے رقص شادی بیاہ میں ضرور دیکھے ہونگے۔ آج بھی ہمیں گڑوی بجاتی اور کھردری آواز میں ٹپّے گاتی ہوئی ڈومنیاں نظر آجائیں گی۔ چونکہ ڈوم قوم کا کام خوشی کی تقریبات میں گانا بجانا تھا، اِن میں سے کچھ قبیلوں کو گلگت، بلتستان کے راجوں نے اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔
یہ لوگ گلگتی زبان میں ڈومکی کہلائے اور اِن کی زبان کو ڈومکی کہا جانے لگا۔ ہماری سیاست میں کوئی صاحب ابھی بھی ڈومکی نام سے موجودہیں۔ اِن کا مکمل نام تو میَں نہیں جانتا بلکہ اس مضمون کو تحریر کرنے سے قبل مجھے بھی ڈومکی قبیلے کا کچھ معلوم نہ تھا۔
شروع میں یعنی قریباً 1100ء میں اِن بنجاروں نے مغرب کی طرف لہر در لہر (قسط وار)ہجرت شروع کی۔ اِنہیں سوائے جرائم کرنے کے، چھوٹی موٹی محنت کرنے کے، بھیک مانگنے کے اور گانے بجانے کے کچھ اور نہیں آتا تھا۔ البتہ یورپ میں کچھ صدیاں رہنے کے بعد اِنہوں نے (خاص طور پر عورتوں نے)قسمت کا حال بتانے والوں کا رُوپ دھار لیا اور اِس میں یہ بڑے کامیاب ہوئے۔ بہروپ بدلناتو اِن کو آتا ہی تھا، یہ لوگ قسمت کا حال بتاتے وقت اپنے اوپر ایک قسم کا آسیب طاری کر لیتے تھے۔ آنکھیں ڈھیلوں سے باہر نکل رہی ہیں، ہاتھوں کو اوپر نیچے جنبش دی جا رہی ہے، سانس کے ہونکے آرہے ہیں، اس ڈرامے سے یورپی کمزور عقیدے کے لوگ بہت متاثر ہوتے تھے۔
ہالی ووڈ کی فلموں میں ایسے نجومی اورکاھِن آپ نے ضرور دیکھے ہونگے۔ دنیا میں اس وقت جپسی 80 لاکھ کے قریب ہیں۔ سب سے زیادہ آبادی اِن کی ترکی، رومانیہ، سپین، بلغاریہ، فرانس، اور ہنگری میں ہے۔ ترکی اور وسط ایشیا میں رہنے والے جپسی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں جب کہ بقیہ جپسی مشرقی رومن کیتھولک مذہب سے منسلک ہیں۔ اِن یورپی بنجاروں کا 80 فیصد ابھی بھی خانہ بدوشوں کی طرح رہتا ہے۔ باقی 20 فیصد جپسی لکھ پڑھ کر کار آمد شہری بن چکے ہیں۔ اِن کی ایک Standard رومانوی زبان ہے جو لاطینی حروف میں لکھی جاتی ہے۔ جو بنجارے اَب تمدّن اور تعلیم کے حامل ہوگئے ہیں وہ اپنے اپنے ملکوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ لیکن اِن جپسیوں کے اجداد جو برِصغیر میں ہی رہ گئے وہ ابھی بھی جرائم پیشہ اور نیچی ذات میں شمار کئے جاتے ہیں۔