مجھ کو حیرت میں رکھاتمثیل کرنے کے لئے

مجھ کو حیرت میں رکھاتمثیل کرنے کے لئے
 مجھ کو حیرت میں رکھاتمثیل کرنے کے لئے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یار لوگ سابق وزیراعظم نواز شریف کے لندن چلے جانے کو یوں بیان کرتے ہیں جیسے وہ چاند پر چلے گئے ہیں ۔

یہ حلقے اِس بات کو لے کر کڑھتے ہیں کہ میاں صاحب جاتے ہیں تو جلد مڑتے نہیں ہیں، جبکہ اسحق ڈار کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری ہونے پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں، جبکہ مسلم لیگ(ن) کے حلقے اسے محض کارِ سرکاری قرار دے کر چنداں اہمیت دینے کو تیار نظر نہیں آتے!۔۔۔ایسے میں ان میڈیا چینلوں کے بھلکڑ پن پر ہنسی آتی ہے جو کہتے ہیں کہ چھوٹے میاں اپنے چکر میں ہیں، ان کو سنئے تو لگتا ہے کہ اس قدر مسلم لیگ(ن) والے نہیں کرتے جس قدر وہ ٹی وی کیمرے بین کر رہے ہیں۔ شہباز شریف حاکمِ پنجاب اور خادمِ خدام ہیں، وہ شہباز بروزنِ نام ہیں، ڈیل کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں، اسٹیبلشمنٹ سے لے کر عدلیہ تک ان کی یاریاں، ۔۔۔شہباز کے ہم پلہ پرواز ہی اس کی پکڑائی دے سکتی ہے، وہ جس قدر ’گُھنے ‘ہیں اس سے زیادہ کھلی کتاب ہیں، پاکستانی سیاست کا عمدہ باب ہیں!
تاہم مسلم لیگ(ن) کو یاد رکھنا چاہئے کہ چودھری نثار رنگ بازی نہیں ، ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں!


اوپر سے بی بی کی شہادت پر جنرل مشرف کا بیان!۔۔۔الامان، الامان!!۔۔۔مگر جو سمجھتے ہیں کہ زرداری اور مشرف لڑے ہیں غلط فہمی میں ہیں، کیونکہ وہ تو اپنے اپنے موقف پر اڑے ہیں ۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ زرداری کو بدنام کرنا پاکستان کا آسان ترین کام ہے، جبکہ زرداری خود بھی غالب خستہ کی طرح اپنے ہی زخموں کو ناخنوں سے کرید کر مزا کرتے ہیں۔ دراصل زرداری وہ طوطا بن چکے ہیں، جس میں پیپلز پارٹی کی جان ہے، جبکہ مشرف اپنوں کی حمائت و عنائت کے بل بوتے پر دبئی میں پڑے غراتے ہیں اور ان کی دھاڑوں سے شیروں کے شکاری گھبراتے ہیں ، ایسے میں عمران بھی زرداری کے پیچھے اس لئے پڑے ہیں کہ اس محاذ پر ہر بار ان کے وار سیدھے پڑے ہیں۔


ایک مشرف ہی نہیں عمران خان بھی زرداری کے سر ہیں، جبکہ پی پی کے حلقوں کے نزدیک یہ ’اگلی باری پھر زرداری‘ کے نعرۂ مستانہ کے ثمر ہیں جس کا ذائقہ صرف وہی محسوس کر رہے ہیں ۔ ادھر لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد علامہ طاہرالقادری پھر سے زور لگاتے نظر آتے ہیں، مگر یہ زور بھی زور کم اور شور زیادہ دکھائی پڑتا ہے ۔ انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو مسئلہ فیثا غورث اور فلسفہ افلاطون بنا لیا ہے اور نہ خود اور نہ عوام کو اس کا سرا ڈھونڈنے دیتے ہیں۔


وزیراعظم خاقان کی خاقانیاں ہوں یا یو این میں آنی جانیاں، کچھ بھی ہو وہ حکم کایکہ ہیں اور ان کی زبان کا ایک ایک لفظ پکا ہے، وہ تابعدار ہیں اور خدمت گار بھی اور ان کے پیچھے مولانا بھی ہیں اور فاروق ستار بھی!


بظاہر لگتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے، لیکن حقیقت میں یہ آنکھ میں بال آنے کے بعد والی صورتِ حال ہے جب انسان سب کچھ چھوڑ چھاڑ آنکھ مل مل کر اس قدر مسل لیتا ہے کہ سب کچھ دھندلاجاتا ہے اور پانی کے چھینٹے بھی ماحول پر چھائی گرد نہیں ہٹا پاتے۔

خدا لگتی بات ہے کہ الزام در الزام کی سیاست ہی اب ملک و قوم کی خدمت تصور ہوتی ہے ، اپنی سطح پر کچھ کر دکھانے کی بجائے اوروں کے عیوب بیان کرنے کو سیاسی فتح سمجھا جاتا ہے ، اس پر عدالت کی سخاوت کے چرچے عام ہیں کہ وہ اپنے طور پر انصاف کا بول بالا کررہی ہیں اور عوام داد وتحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں ، ایسے میں کوئی اس جو گا نہیں جو کہہ سکے کہ آگے وہ ہو گا جو ہو گا نہیں، مسلم لیگ(ن)کے خلاف ٹی وی چینلوں کے ٹاک شو گھنٹی کی طرح کان میں ٹن ٹن بج رہے ہیں ، الزامات پر الزامات کی تہہ چڑھائی جا رہی ہے ، ایسے میں نواز شریف کی وطن واپسی کی بات ہوتی بھی ہے تو یوں جیسے ٹارزن کی نہیں،بلکہ کسی راہزن کی واپسی ہے اور ان حلقوں کو عینک صاف کرنے کی تجویز دیتے ہیں جو عدالتوں سے عدل اور انصاف کی بات کرتے ہیں ۔


مُلک بھر سے عمران کو مفت کے سیلوٹ مل رہے ہیں، ایسی ہوا چل پڑی ہے کہ خالی تحریک انصاف نہیں پیپلز پارٹی بھی مسلم لیگ(ن) پر پل پڑی ہے، یہ الگ بات کہ نون کا جادو ابھی بھی پنجاب میں ہے اور نون لیگی قیادت مقتدرقوتوں کے خواب میں ہے، جو چاہتی ہیں کہ مقبول ترین تنہا ہو جائے اور سو کو آپس میں یوں ملایا جائے کہ ایک منہا ہو جائے!
اک مفادِ خاص کی تکمیل کرنے کے لئے
مجھ کو حیرت میں رکھا تمثیل کرنے کے لئے

مزید :

کالم -