عصرِ حاضر کے ارسطو۔۔۔

عصرِ حاضر کے ارسطو۔۔۔

  

نوید چودھری سے معذرت کے ساتھ جن کے ایک کالم سے مَیں نے اس کالم کا عنوان مستعار لیا ہے۔

کچھ کہنے سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ مَیں نہ صحافی ہوں اور نہ لکھاری، لیکن اپنے وطن سے پیار پر فخر کرتا ہوں۔ پیار کی ایک مثال یہ ہے کہ 6ستمبر 1965ء سے اب تک میرے گھر میں کسی انڈین موسیقی، ڈرامہ، فلم کھانا پینا ،کپڑا لتا کی اجازت نہیں ہے۔اپنی اِس حرکت سے اپنے دوستوں سے ’’میٹر‘‘کا خطاب بھی پا چکا ہوں۔میں یہ بھی واضح کر دوں کہ میں نواز شریف کا مداح نہیں ہوں میں موجودہ تمام سیاستدانوں کو سوائے کسی حد تک محترم سراج الحق کے، برائی سمجھتا ہوں اور میرے لئے معاملہ کمتر برائی کی حد تک ہے۔

عرصہ دراز پہلے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں میرے پسندیدہ لکھاری ، دانشور ، مصنف اور عسکری معاملات پر نظر رکھنے والے (اُن سے بہتر پاکستانی میڈیا میں کم ہی ہوں گے) محترم کرنل غلام جیلانی صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جو اب مجھے مکمل تو نہیں، لیکن اتنا یاد ہے کہ ان کے ایک فقرہ نے ذہن پر ہتھوڑے چلا دیئے تھے کہ ’’ٹیپو سلطان آپ کے لئے ہیرو ہو تو ہو لیکن میرے لئے نہیں ہے‘‘۔ مَیں ہندوستان کی تاریخ کے عظیم ترین مجاہد کی توہین برداشت نہ کر سکا تو ایک مضمون روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں ہی لکھ مارا۔

بہت عرصہ سے لکھنے کو دِل چاہ رہا تھا، لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی۔ روزانہ رات کو دماغ میں ایک شور سا برپا رہتا تھا، لیکن اگلی صبح پھر سوچتا تھا کہ جب لکھنا ہی نہیں آتا تو کیا اور کیسے لکھوں۔اب عرصہ بارہ سال سے زیادہ کے بعد پہلی دفعہ کچھ لکھنے کی ہمت کر رہا ہوں۔ اگر کچھ غلط سلط لکھ دوں تو قارئین سے معذرت اور اس کے ساتھ ہی سکہ بند لکھاریوں سے رہنمائی کی گزارش بھی۔ کیونکہ ستر سال کی عمر میں میرا سکہ بند ہو جانا ممکنات میں سے نہیں (آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے)

تو قارئین آپ کو اندازہ تو ہو گا ہی کہ گزشتہ ایک عشرہ سے اپنے وطن میں ایسے لکھاریوں ، تجزیہ نگاروں اور ٹی وی اینکرز کی بھرمار ہو گئی ہے جن کو عصرِحاضر کے ارسطو ،سقراط، بقراط وغیرہ کہا جا سکتا ہے اور ایسے بھی ہیں جنہیں شرلاک ہومز اور جیمز بونڈ کہا جا سکتا ہے۔

ان میں جغادری صحافی بھی ہیں،ٹیکنو کریٹس اور وکلاء کے علاوہ افواج سے ریٹائرڈ افسران اور ریٹائرد بیورو کریٹس شامل ہیں۔ ایک ارسطو تو تقریباً عصرِ حاضر کے عارف بھی بن چکے ہیں، جو قارئین کو درست پیشگوئیوں سے نوازتے رہتے ہیں۔ مَیں ان کا کوئی مضمون پڑھے بغیر نہیں رہتا اِس لئے نہیں کہ مجھے ان کے خیالات سے مکمل اتفاق ہوتا ہے (اگرچہ سو فیصد اختلاف بھی نہیں ) بلکہ ان کا اندازِ تحریر اپنی طرز کا واحد ہے تو پڑھنے کا لطف اپنی جگہ پر ۔پاکستان بھر کے اداروں میں بشمول افواج اور سیاسی جماعتوں میں جو کچھ کھلے عام اور خفیہ طور پر ہوتا ہے ان کے علم میں ہوتا ہے ان کا نشانہ 90فیصد شریف برادران (خصوصاً نواز شریف) نوفیصد زرداری اور دوسرے سیاست دان، جبکہ تڑکا لگانے کے لئے ایک فیصد تحریک انصاف بھی ہوتی ہے، اِس لئے کہ ان پر تعصب کا الزام نہ لگ سکے۔

یکم ستمبر کو لکھتے ہیں ’’نوازشریف اپنے سب سے بڑے‘‘ محسن ضیاء الحق اور اپنی منہ بولی بہن بے نظیر کے قتل کی تفتیش نہیں کرتے۔ آصف علی زرداری اگر اپنی کل متاع خاک ہونے پہ پریشاں نہیں ہوتے۔ قاتل نہیں ڈھونڈتے تو بیس کروڑ انسانوں کا مستقبل کیونکر انہیں سونپا جا سکتا ہے۔ زرداری صاحب کو تو چھوڑیں کہ بینظیر کا قتل ان کے فائدہ میں تھا، نواز شریف نے تو کبھی دعویٰ بھی نہیں کیا تھا کہ وہ قاتلوں کو تختۂ دار تک لے جائیں گے۔ مئی2013ء میں تحریک انصاف کی بانی رکن اور سندھ میں پارٹی کی سینئر نائب صدر زہرہ شاہد حسین قتل ہو گئی تھی، عمران خان نے اس کا الزام براہِ راست متحدہ قومی موومنٹ اور الطاف حسین پر لگایا اور پھر نعرۂ مستانہ بھی بلند کیا کہ وہ الطاف حسین کو تختۂ دار تک پہنچا کر دم لیں گے۔ پھر کیا ہوا؟ اس واقعہ کے بہت عرصہ بعد تحریک انصاف نے کراچی میں جلسہ کرنا تھا اور کراچی میں الطاف حسین کی ’’حکومت‘‘ تھی چنانچہ متحدہ کی ’’اجازت‘‘ سے جلسہ منعقد ہوا اور بہت بڑا جلسہ تھا،لیکن عمران خان کو ہمت ہی نہیں ہوئی کہ زہرہ شاہد کا ذکر بھی کر سکے تو کیا بیس کروڑ انسانوں کا مستقبل انہیں سونپا جا سکتا ہے؟

اس سے قبل 20 جون کو لکھتے ہیں ’’چیخ چیخ کر کچھ لوگ پوچھتے رہے کہ نجم سیٹھی کو مبارک باد کیوں نہیں دی جا رہی ان سے سوال یہ ہے کہ وہ عمران خان کو مبارک باد کیوں نہیں دیتے جس نے تجویز کیا کہ پاکستان کو پہلے بلے بازی کرنی چاہئے کوئی اگر یہ بتا سکے کہ اس کامیابی میں نجم سیٹھی کا حصہ کیا ہے تو ضرور اسے بھی سراہا جائے۔‘‘

اس پر مَیں نے قبلہ ’’ارسطو‘‘ کو ایک ای میل ارسال کی جس کا جواب تک دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی،شاید وہ سمجھے ہوں کہ کسی پھٹیچر نے بھیجی ہے۔مَیں نے لکھا کہ ’’اگرچہ مَیں نجم سیٹھی کو اتنا ہی ناپسند کرتا ہوں جتنا آپ کرتے ہیں اور شاید اس سے بھی زیادہ لیکن مجھ میں ہمت ہے کہ شیطان کو اس کا حق دیا جائے''Give the devil his due"جو آپ ظاہر کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ PSL جیسے مقابلوں کا انعقاد کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا اور پھر فائنل کا انعقاد لاہور میں! باوجود یکہ آپ کے پسندیدہ لیڈر نے پاکستان کے مہمانوں کی تذلیل کر کے اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کیا۔پھر آپ نے سوال کیا کہ عمران خان کو مبارکباد کیوں نہ دی جائے؟اس سے مضحکہ خیز بات کیا ہو سکتی ہے اس کا فیصلہ تو ٹاس جیتنے والے کپتان نے کرنا تھا کپتان عمران خان نے نہیں۔شاید کھیلنے والے کپتان نے باہر بیٹھے کپتان کا مشورہ مان لیا تھا۔

بھارت نے ایک سازش کے تحت ’’بگ تھری‘‘ کا کلب بنانے کی کوشش کی جس کو نجم سیٹھی نے ناکام بنا دیا تو کریڈٹ نجم سیٹھی کو ہی جاتا ہے۔

آخر میں آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ فخر زمان حسن علی،شاداب خان، عماد وسیم اور رومان رئیس PSL ہی کی دریافت ہیں۔مجھے آپ کے کالم میں کسی کے لئے ’’بے شرم‘‘ اور ’’بے حیا‘‘ جیسے الفاظ پڑھ کر بہت دُکھ ہوا۔ آپ اپنے مقام سے گرنے کی کوشش نہ کریں اور یہ اندازِ تخاطب اپنے لیڈر کے لئے ہی رہنے دیں۔

مزید :

کالم -