دو بڑی خبریں
حلقہ120 میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد مسلم لیگ(ن) کے لیے دوسری بڑی خبر الیکشن بل2017ء کی (بلا ترمیم) سینیٹ سے منظوری ہے۔
یہ بل مشرف حکومت کے جاری کردہ پولیٹیکل پارٹنر آرڈر کی جگہ لے گا، اور اس کے ذریعے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار وسیع تر ہو جائے گا۔جنرل مشرف کے دور میں بنائے گئے قانون کے تحت سیاسی جماعتوں کی قیادت کے لیے شرائط عائد کر دی گئی تھیں۔اس سے پہلے ہر سیاسی جماعت کے ہر رکن کو حق حاصل تھا کہ وہ اپنی جماعت کی قیادت کا امیدوار ہو سکے۔
بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی سیاست سے نجات حاصل کرنے کے لیے یہ چور دروازہ ایجاد کیا گیا کہ جو شخص پارلیمینٹ کا رکن بننے کا اہل نہیں ہو گا، وہ اپنی جماعت کی سربراہی نہیں کر سکے گا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کو ان کی (غیر موجودگی میں) سزا سنائی جا چکی تھی۔نواز شریف بھی سزا یابی کے بعد پارلیمینٹ کا رکن بننے کے اہل نہ رہے۔انتخابی عمل میں شرکت کے لیے مخدوم امین فہیم کی قیادت میں پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے نام سے نئی جماعت بنا کر رجسٹر کرائی گئی اور 2002ء کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی اسمبلی میں اِسی جماعت نے اپنا نقش جمایا۔
مسلم لیگ(ن) کی قیادت اولاً تو مخدوم جاوید ہاشمی کے سپرد ہوئی،لیکن بعدازاں میاں شہباز شریف کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی۔ نواز شریف کی نااہلی جب تک ختم نہیں ہوئی،وہ پارٹی قیادت نہیں سنبھال سکے۔جنرل مشرف ہی کے دور میں ’’ڈو مور‘‘ کا یہ مظاہرہ بھی کیا گیا کہ آئین میں ترمیم کر کے (کسی بھی شخص کے) تیسری بار وزیراعظم بننے پر پابندی لگا دی گئی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں اِس کی زد میں آ گئے۔۔۔ اگر وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو جاتے تب بھی، اگر وہ اپنی پارٹی کی قیادت سنبھال لیتے تب بھی، وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے کہ دونوں دو، دو بار وزارتِ عظمیٰ کی تہمت اُٹھا چکے تھے۔یہ الگ بات کہ محترمہ اور میاں صاحبان نے ایک دوسرے کو ٹرم پوری نہ کرنے دی۔
دو بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے باوجود، مجموعی طور پر بھی دونوں میں سے کوئی پانچ سال پورے نہ کر سکا۔ جنرل ضیاء الحق اور ان کے اہم فوجی رفقا حادثہ بہاولپور کی نذر ہو گئے تو 1988ء میں (گیارہ سال بعد) جماعتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکا۔ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے جو انتخابات کرائے تھے ان پر دھاندلی کا الزام لگا تھا اور ان کے خلاف قائم 9 جماعتی پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) اس طرح خم ٹھونک کر میدان میں آیا تھا کہ بھٹو مرحوم اپنے اقتدار سمیت لڑکھڑا گئے اور پاکستان کیا دنیا کی پارلیمانی تاریخ میں بھی (شاید) پہلی بار ایک قومی اسمبلی (اور صوبائی اسمبلیوں) کو منتخب ہونے کے چار ماہ بعد ہی تحلیل کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ ان انتخابات میں دھاندلی محض اِسی ایک نکتے سے ثابت ہو جاتی ہے کہ 1970ء سے آج تک ہونے والے تمام انتخابات میں یہ پہلی اور آخری بار ممکن ہوا کہ پیپلزپارٹی 58فیصد (سے قدرے زائد) ووٹ حاصل کر لے۔1970ء سے لے کر آج تک اپنی انتہائی مقبولیت کے عرصے کے دوران بھی اسے 40فیصد سے کم ووٹ ہی ملتے رہے۔ 1970ء کے انتخابات میں 18 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا جو ریکارڈ قائم کیا گیا، وہی پکار اُٹھا کہ انتخابی عمل کا خون کر دیا گیا ہے: جو چُپ رہے گی زبانِ خنجر تو لہو پکارے گا آستین کا۔
ان سب کو جملہ ہائے معترضہ سمجھ لیجئے توزیر بحث معاملہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کا ایک دوسرے سے اُلجھے رہنا تھا۔ بے نظیر بھٹو 1988ء میں وزیراعظم بنیں تو صدر غلام اسحاق نے 1990ء میں اُنہیں چلتا کیا، نئے انتخاب نوازشریف کو وزیراعظم بنا گئے۔1993
ء میں پھر ہنگامہ برپا ہوا اور صدر غلام اسحاق نے (بے نظیر بھٹو کی شہ پا کر) نوازشریف کی اسمبلی تحلیل کر ڈالی۔ نتیجتاً خود بھی گھر جانا پڑا، لیکن بے نظیر بھٹو کے اقتدار کی راہ ہموار کر گئے۔نئی وزیراعظم نے اپنے معتمد ساتھی فاروق لغاری کو صدر بنایا، لیکن انہوں نے بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اِس سے پہلے غلام اسحاق خان کر چکے تھے۔ لغاری صاحب کو بھی محترمہ کے حریف اول کی حمایت حاصل تھی۔
نوازشریف نے اقتدار سنبھالا تو بے نظیر بھٹو ان کے در پے ہو گئیں۔ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا صدارتی اختیار وزیراعظم نوازشریف آئین میں ترمیم کرکے ختم کر چکے تھے، سو جنرل پرویز مشرف نے براہِ راست اقدام کر دکھایا۔ محترمہ بے نظیر اگرچہ بیرون مُلک تھیں تاہم ان کی کھلی ہوئی باچھیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ پرویز مشرف کا ارادہ ان دونوں (خاتون و حضرت) سے دائمی نجات کا تھا، اس لیے آئین میں ترمیم کر کے تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا حصول ممکن نہ رہنے دیا گیا۔
اس کا خاتمہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے ممکن ہوا، لیکن اس وقت محترمہ اِس دُنیا سے رخصت ہو چکی تھیں۔ اب یہ مسئلہ صرف نوازشریف کا تھا، اُنہیں اپنا راستہ صاف کرنے کے لیے پیپلزپارٹی اور بعض دوسری سیاسی جماعتوں کی ایسی باتیں بھی تسلیم کرنا پڑیں، جو مسلم لیگ(ن) کے نظریئے اور فلسفے سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں،لیکن اسے سستا سودا سمجھا گیا۔
اس سب تفصیل سے معلوم ہو جاتا ہے کہ تمام تر قانونی رکاوٹوں کے باوجود، محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کا راستہ روکا نہ جا سکا کہ دونوں کا اپنا اپنا ووٹ بنک موجود تھا۔ محترمہ بے نظیر کے ساتھ تو باقاعدہ ’’این آر او‘‘ پر دستخط کر کے ان کے شوہر اور ان کے حلقۂ اطاعت کے خلاف مقدمات کو ختم کیا گیا۔ محترمہ کی وطن واپسی ہوئی، تو سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے میاں نوازشریف کو بھی اپنی تحویل میں رکھنے سے انکار کر دیا۔۔۔ یوں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کے لیے موت کا پیغام بن کر یہ دونوں پاکستان آ پہنچے۔راوی کے پلوں سے بہت سا پانی بہنے کے باوجود پرنالہ وہیں کا وہیں یوں ہے کہ نواز شریف وزیراعظم بننے کے باوجود جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں زچ ہیں۔
وہ ان پر تو فیصلہ کن مقدمہ نہ چلا سکے لیکن انہوں نے ان کو نااہل کرا کر دکھا دیا۔ نوازشریف کا اقتدار ختم ہوا۔ انہیں اپنی ہی جماعت کے شاہد خاقان عباسی کو تخت پر بٹھانا پڑا۔مشرف دور کی قانون سازی کی بدولت مسلم لیگ(ن) کی صدارت سے بھی دستبرداری اختیار کرنا پڑی، لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی۔ حلقہ 120 کے ضمنی انتخاب کو ان کی لندن میں زیر علاج اہلیہ نے جیت لیا۔ ان کی ہونہار بیٹی مریم نواز شریف نے ماں اور باپ دونوں کی کمی محسوس نہ ہونے دی، اور انتخابی مہم چلائی۔ چند ہی روز بعد پارلیمینٹ نے الیکشن بل 2017ء کے ذریعے سیاسی جماعت کے سربراہ کے لیے اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کی صلاحیت رکھنے کی شرط ختم کر دی گویا، ان کے مسلم لیگ(ن) کی صدارت سنبھالنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہی۔۔۔سینٹ میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت نہیں ہے، لیکن ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ایک ووٹ کی اکثریت سے یہ بل یہاں بھی منظور ہو گیا۔ اعتزاز احسن اس میں ترمیم کر کے نوازشریف کا راستہ روکنے میں ناکام ہو گئے۔۔۔ سیاست کی بساط پر نوازشریف کے مخالفین دوسری بار پٹ گئے کہ۔۔۔ یہاں ہار مستقل ہوتی ہے نہ جیت۔ شرط یہی ہے کہ سوچ سمجھ کر چال چلی جائے، اور شطرنج کے کھیل کو شطرنج کا کھیل سمجھ کر کھیلا جائے۔
آئین اور قانون کی دُنیا میں بہت کچھ ایسا ہو سکتا ہے کہ نواز شریف کے مخالفین ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ یہ گھونسے دکھانے یا چونچیں لڑانے کا نہیں دماغ لڑانے کا وقت ہے۔ نوازشریف صاحب غصہ پی جایے یا تھوک دیجے۔ اپنی جماعت کو سنبھالیے، اپنے رفقاء کو اپنے ساتھ جوڑے رکھیے، اپنی صفوں میں دراڑ نہ پڑنے دیجئے، اور اپنی چال چلیے۔
(یہ کالم روزنامہ ’’پاکستان ‘‘ اور روزنامہ ’’دُنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
ٹوئیٹر پر اپنی رائے کے اظہارکے لیے @mujibshami1 یا https://twitter.com/mujibshami1 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔