بھارتی جرنیل کی پاکستان کو دھمکیاں

بھارتی جرنیل کی پاکستان کو دھمکیاں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بھارتی آرمی چیف جنرل پین راوت کا بیان انتہائی نا مناسب ہے پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم اس کے لئے تیار ہیں لیکن مذاکرات امن کے لئے بہترین راستہ ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں امن قائم کیا، کامیابی کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کیا ہمیں پتہ ہے امن پسندی کی کیا قیمت ہے ہم کسی بھی فوجی کی بے حرمتی نہیں کر سکتے ہم کسی سولجر کی نعش کی بے حرمتی نہیں کر سکتے چاہے وہ دشمن ملک ہی ہو پاکستان ایٹمی قوت ہے اور جنگ کے لئے ہمہ وقت تیار ہے، بھارتی فوج اپنی ملکی سیاست میں گھری ہوئی ہے حکومت کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے بھارت کی فوج توجہ ہٹانے کے لئے جنگ کی طرف رخ موڑ رہی ہے۔ پاکستان امن پسند ملک ہے جنگ اس وقت ہوتی ہے جب کوئی جنگ کے لئے تیار نہ ہو، ہم جنگ کے لئے تیار ہیں، مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک چل رہی ہے اور کشمیریوں کی تیسری نسل قربانیاں دے رہی ہے۔ حکومت پاکستان کی آج بھی پیشکش ہے آئیں مذاکرات کریں وہ بھارتی آرمی چیف کی دھمکیوں کا جواب دے رہے تھے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی فوج سے بدلہ لینے کا وقت آ گیا ہے اور پاکستان کو اس کی زبان میں جواب دیا جائے گا۔
بھارتی آرمی چیف نے کوئی پہلی دفعہ بڑھک نہیں ماری وہ جب سے اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں پاکستان کے متعلق ان کے ایسے ہی بے ہودہ خیالات سامنے آتے رہتے ہیں اور وہ چشم تصور میں پاکستان پر ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ بھی کرتے رہتے ہیں جس کا زمین پر کوئی نام و نشان نہیں ہوتا حالانکہ گولہ بارود جہاں بھی پھٹتا ہے اپنی موجودگی کا احساس دلائے بغیر نہیں رہتا لیکن بھارت کا یہ خیالی سرجیکل سٹرائیک ایساہے جس کے قصے تو بہت سنے گئے لیکن زمین پر اس کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا گیا، اب ان کی دھمکیوں کا رخ پھر پاکستان کی طرف ہے کہ ایک جانب مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین نے بھارتی فوج کا ناک میں دم کیا ہوا ہے اور دوسری جانب فرانس کے سابق صدر الاندے نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے رافیل جنگی جہازوں کے سودے میں کمیشن کھایا اس سے پہلے ایسا ہی الزام نرسیما راؤ پر لگ چکا اور وہ سزا یاب ہوئے۔
اب نظر آ رہا ہے کہ مئی، جون 2019ء کے انتخابات میں مودی کے مخالف یہ الزام انتخابی مہم کا بڑا ایشوبنائیں گے۔ کانگرس کے صدر راہول گاندھی پہلے ہی اس معاملے کو اٹھا چکے ہیں اور اپنے وزیر اعظم کو چور کہہ رہے ہیں اس اُٹھتے ہوئے طوفان سے لگتا ہے کہ مودی اب پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا رسک نہیں لیں گے یہی وجہ ہے کہ نیو یارک میں پاکستانی اور بھارتی وزرائے خارجہ کی ملاقات بھی منسوخ کر دی گئی پہلے تو بھارت نے یہ وضاحت ضروری سمجھی کہ یہ مذاکرات نہیں محض ملاقات ہے پھر چند گھنٹوں کے بعد ایک عذرلنگ کی بنیاد پر یہ بھی منسوخ کر دی گئی اور بھارتی میڈیا نے اپنی حکومت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس کے ایک اہل کار کی موت کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیا اور اس کا ذمہ دار پاکستانی افواج کو ٹھہرایا جس کا مسکت جواب میجر جنرل ثاقب غفور نے یہ کہہ کر دے دیا ہے کہ پاک فوج ہر سولجرکی نعش کو عزت دیتی ہے چاہے ان کا تعلق دشمن سے ہی کیوں نہ ہو یہ با وقار پروفیشنل رویہ ہے لیکن بھارتی آرمی چیف جس انداز کی دھمکی آمیز زبان استعمال کر رہے ہیں وہ بھی ان کے منصب سے فزوں تر ہے۔ پاکستان کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے یہ دو حکومتوں کا معاملہ ہے اور انہی کے درمیان طے ہونا چاہئے نریندر مودی نے اگر پاکستان کے وزیر اعظم کے بارے میں نا مناسب الفاظ استعمال کئے تھے تو انہیں جواب بھی کرارا مل گیا ہے۔ لیکن بہتر یہی ہے کہ سفارتی معاملات پر بات کرتے ہوئے لغت بھی سفارتی استعمال کی جائے باہمی عزت و احترام کا خیال رکھا جائے اگر ایسا نہیں ہوگا تو پہلے سے موجود تلخی بھی بڑھ جائے گی ایسے میں کشیدگی کم کرنے کا خواب کیسے پورا ہوگا لیکن افسوس ہے کہ نریندر مودی نے اس کا خیال نہیں رکھا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی 29ستمبر کو جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے والے ہیں بھارت کے ساتھ دیرینہ تنازعات میں کشمیر اور پانی کا مسئلہ تو اہم ہیں لیکن اب بھارتی آرمی چیف کی دھمکیوں کو بھی جنرل اسمبلی میں اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے جارحانہ لہجے سے لگتا ہے کہ بھارت شاید کشمیر کی کنٹرول لائن پر کشیدگی کا دائرہ بڑھانے کے موڈ میں ہے کیونکہ کشمیر کے حالات تو قابو میں نہیںآ رہے اس لئے دنیا کی توجہ دوسری طرف مبذول کرانے کے لئے شاید چھیڑ خانی شروع کر دی جائے۔ بھارت نے برطانیہ کے پارلیمانی وفد کو بھی کشمیر کے دورے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے اس سے پہلے بھی کئی وفود کو ایسا ہی جواب دیا جا چکا ہے برطانوی پارلیمانی کمیشن برائے انسانی حقوق اس وقت پاکستان کے دورے پر ہے اس کمیشن نے مقبوضہ کشمیر کا بھی دورہ کرنا تھا لیکن اسے ریاست میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ بھارت نہیں چاہتا کہ دنیا ریاست میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی حقیقت سے باخبرہو اس لئے کسی بھی وفد کو وہاں جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں ان سب امور کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرانی چاہئے۔ کیونکہ بھارت کے ارادے بظاہر خطرناک ہیں اور اگر پاکستان کے خلاف جارحیت کا آغاز ہوا تو وہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری کی جانب سے ہی ہو گا۔بھارت کی خارجہ پالیسی اس وقت اندرونی صورتحال کے دباؤ میں ہے جس میں سابق فرانسیسی صدر کے بیان نے مزید اضافہ کر دیا ہے پاکستان میں کہا جا رہا ہے کہ بھارت نے مذاکرات کا موقع کھو دیا ہے اس طرح کا تاثر معاملات کی سطحی تفہیم کے مترادف ہے کیونکہ بھارت نے مذاکرات میں تو کبھی سنجیدگی دکھائی ہی نہیں اور یہ ہمیشہ ’’نشستند، و گفتندو برخاستند‘‘ ہی ثابت ہوئے ہیں اب کی بار بھی اگر ہو جاتے تو کیا تبدیلی لے آتے بس چند روزہ اٹھک بیٹھک ضرور ہو جاتی اس لئے مذاکرات سے امیدیں وابستہ کرنے کی بجائے بھارتی جرنیل کی دھمکیوں پر گہری نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

مزید :

رائے -اداریہ -