فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر523

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر523
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر523

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پارو کو خبر ملتی ہے تو وہ بے تاب ہو کر بھاگتی ہے مگر دیوداس آگے نکل چکا ہے۔ پارو کی آواز اس کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔پارو مایوسی کے عالم میں تقدیر کے لکھے کو قبول کرلیتی ہے۔
اس کے باپ نے ایک بڑے زمیں دار سے اس کی شادی طے کر دی ہے۔ شادی کے وقت اسکو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ عمرمیں اس سے بہت زیادہ بڑاہے۔ اسکی اولاد پارو کی ہم عمر ہے۔ وہ تین بچوں کا باپ ہے۔
پارو کا شوہر پاور کے حسن و جمال سے متاثر ہوتا ہے مگر وہ ایک حساس انسان ہے۔ کہتا ہے کہ کاش مجھے پہلے علم ہوتا کہ تم اتنی کم عمر ہو۔ یہ تمہارے ساتھ انصاف نہیں ہے۔
پارو کہتی ہے یہی میرا مقدر تھا اور اب تو آپ ہی میرے لیے سب کچھ ہیں۔ ادھر دیوداس کلکتہ میں اپنے پرانے بے تکلف دوست چونی لال کے پاس پہنچ جاتا ہے اور اسکو بتاتا ہے کہ میں اب یہیں رہوں گا۔ بمل رائے کی فلم میں یہ کردار موتی لال نے بہت بے ساختگی اور خوب صورت سے ادا کیا ہے۔ وہ اپنے زمانے کے سپر اسٹار تھے اور سادہ روز مرہ کی حقیقی اداری کرنے کے حوالے سے بہت پسندکیے جاتے تھے۔ کوشش کے باوجود دیوداس پاروکی محبت کو فراموش نہیں کرسکا۔ اسکی اداسی اور مایوسی دیکھ کر چونی لال بہت پریشان ہے۔ وہ ہر روز شام کو بن ٹھن کرباہرجاتا ہے اور نشے میں چور واپس لوٹتا ہے۔ ہر وقت مگن اور خوش رہتا ہے۔ دیوداس اس سے پوچھتا ہے کہ ہر روز تم کہاں جاتے ہو اور اتنی شراب کیوں پیتے ہو؟
چونی لال کہتا ہے کہ میں دل بہلانے کے لیے جاتاہوں اورغم غلط کرنے کے لیے شراب پیتا ہوں۔
دیوداس ’’کیا شراب نوشی سے غم غلط ہو جاتا ہے؟‘‘
چونی لال ’’وقتی طور پر تو سکون مل جاتا ہے۔‘‘

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر522پڑھنے کیلئےیہاں کلک کریں
دیوداس چونی لال کے ہمراہ جانے کی خواہش ظاہر کرتا ہے لیکن ایک مخلص دوست کی حیثیت سے وہ اسکو منع کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ جگہ تمہارے جانے کے لائق نہیں ہے۔
’’تو پھر تم کیوں جاتے ہو؟‘‘
’’میں تو بس وقت گزاری کے لیے جاتاہوں۔‘‘
دیوداس ’’میں بھی وقت گزاری کے لیے تمہارے ساتھ چلوں گا۔‘‘
چونی لال اگلے روز دیوداس کواپنے ہمراہ طوائف چندرمکھی کے کوٹھے پر لے جاتا ہے۔ وہاں محفل سجی ہوتی ہے۔ چندر مکھی رقص کر رہی ہے۔ تماش بین نوٹ نچھاور کر رہے ہیں۔
دیوداس کے اندر کا شریف انسان اسکو پسند نہیں کرتا۔ وہ چونی لال سے کہتا ہے ’’یہ تم مجھے کس مکروہ جگہ لے آئے۔ مجھے تو گھن آرہی ہے۔‘‘
چونی لال اسے چپ چاپ بیٹھنے کوکہتا ہے۔ ادھر چندر مکھی کا رقص اور نغمہ جاری رہا۔ دیوداس کی بیزاری چندر مکھی محسوس کرلیتی ہے۔ ناچ گانے کے خاتمے پر وہ دیوداس سے مخاطب ہوتی ہے جو بظاہر خوب صورت اور دولت مند نوجوان نظر آرہا ہے۔
دیوداس اپنی نفرت کااظہار کر دیتا ہے اورکہتا ہے کہ تم عورت کے نام پرکلنک کا ٹیکا ہو۔ تمہیں یہ کام کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے۔ میں آج کے بعد یہاں نہیں آؤں گا۔ یہ کہہ کر چونی لال کے روکنے کے باوجود دیوداس چلا جاتا ہے۔ چندر مکھی اس عجیب و غریب آدمی کو دیکھتی رہ جاتی ہے۔ آج تک اسے محض تعریف کرنے والوں اور اس کے حسن و فن سے فائدہ اٹھانے والوں سے واسطہ پڑا تھا۔ کوئی اسے ٹھکرا بھی سکتا ہے اور اس کوبرا سمجھتا ہے۔ یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔
وہ دیوداس کی باتوں اور شخصیت سے متاثر ہو کر چونی لال سے کہتی ہے کہ میری خاطر انہیں کم از کم ایک بار اور یہاں لے کر آؤ۔
چونی لال کہتا ہے’’کوشش کروں گا۔ وعدہ نہیں کرتا۔‘‘
چونی لال نشے میں دھت گھر پہنچتا ہے اور دوست سے پوچھتا ہے کہ تم وہاں سے کیوں چلے آئے۔
’’وہاں میرا دم گھٹ رہا تھا۔‘‘
’’ارے وہاں تو لوگ زندگی کی تلاش میں جاتے ہیں۔حسن و نغمہ اور خوشی کی تلاش میں جاتے ہیں۔ اس نے تمہیں بلایا ہے۔‘‘
دیوداس انکار کر دیتا ہے۔ پاروکی یاد اور حالات سب بہت بے چین کر دیتے ہیں تو وہ ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے چونی لال سے شراب کی فرمائش کرتا ہے۔ وہ بہت سمجھاتا ہے مگر پھر اس کے اصرار پر گلاس بھر کر اسکو دے دیتا ہے۔ یہ دیوداس کی شراب سے دوستی کا آغاز تھا۔
چونی لال کے اصرار پر دیوداس دوسری بار چندرمکھی کے کوٹھے پر جاتا ہے تو وہ اس پر خصوصی توجہ دیتی ہے دیوداس اس کی زندگی میں داخل ہونے والے تمام لوگوں سے مختلف ہے۔ جسے اس کے حسن و جمال، جسم ، رقص اور نغمے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ پاربتی کے عشق میں ہر چیز سے بیگانہ ہو چکا ہے۔ چندر مکھی ایک حساس لڑکی ہے۔ دیوداس کی وجہ سے اس کی زندگی میں ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے وہ گناہ کی زندگی سے تائب ہو کر ایک ’’عورت ‘‘ بننے کی خواہش مند ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ دیوداس سے پیار بھی کرنے لگی ہے جو عشق کی حدوں کو چھونے لگا ہے حالانکہ وہ جانتی ہے کہ دیوداس کو وہ کبھی حاصل نہیں کر سکے گی۔ اس کی ساری کہانی اور عشق میں ناکامی و محرومی کے واقعات وہ سن چکی ہے۔ اس کے پاکیزہ بے لوٖث اور حقیقی عشق سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد اس کے دل میں دیوداس کی عزت اور محبت دوچند ہو گئی ہے۔
دوسری طرف ماں دیوداس کے لیے ترس رہی ہے۔باپ شدید بیمار پڑ جاتا ہے تو ڈاکٹر کے مشورے پر پرانا خاندانی ملازم دھرم داس (یہ کردار کیریکٹر ایکٹر انور حسین نے کیا تھا وہ اس زمانے میں اتنے نامور اداکار نہیں بنے تھے)
دھرم داس ایک نمک حلال پرانا خاندانی وفادار ملازم ہے جسے دیوداس سے محبت بھی ہے اور اس سے ہمدردی بھی رکھتا ہے مگر بے بس ہے۔ وہ دیوداس کی تلاش میں چونی لال کے گھر پہنچ جاتا ہے جہاں دیوداس نشے میں مدہوش ہے وہ اس کے ساتھ واپس جانے سے انکار کر دیتا ہے مگر جب باپ کی شدید علالت کا سنتا ہے تو فوراً اس کے ساتھ روانہ ہو جاتا ہے۔ ’’دیوداس‘‘ گھر پہنچتا ہے تو اسکاباپ اس سے ملنے سے پہلے ہی مرچکا ہے۔ باپ کی آنکھیں بند ہوتے ہی بڑا بھائی جائیداد اور دولت کی تقسیم کی بات چھیڑ دیتا ہے۔ دیوداس کو ان چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
بھائی بتاتا ہے کہ پتا جی کے ڈیڑھ لاکھ روپے ہم آدھے آدھے تقسیم کر لیں گے۔
دیوداس ’’اورماتا جی؟‘‘
’’ماتا جی کا کیا ہے وہ یہاں رہیں گی۔ انہیں پیسے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
دیوداس اپنے حصے کے ۷۵ ہزار روپے میں سے ۲۵ ہزار ماں کو دے دیتا ہے اور باقی پچاس وصول کرکے دوبارہ گھر سے رخصت ہو جاتا ہے۔ اسی دوران میں اس کی ایک بار پاربتی سے بھی ملاقات ہوتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہیں مگر رسمی باتوں اور تسلی دلاسا دینے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔
دیوداس پاربتی سے کہتا ہے ’’اب تو تمہاری بڑی زمیں داری ہے۔ بڑا گھر ہے۔ بڑے بڑے بچے ہیں!‘‘
وہ ہونٹ کاٹ کر رہ جاتی ہے۔ پاربتی کے خیال میں دیوداس نے خاندانی وقار کے نام پر بزدلی دکھائی اور اس کو نہیں اپنایا جس کی سزا بعد میں دونوں ہی بھگتے رہے۔ دیوداس پاربتی سے وعدہ کرتا ہے کہ مرنے سے پہلے ایک بار اس کے پاس ضرور آئے گا۔
دیوداس واپس کلکتہ پہنچتا ہے۔ چونی لال اب وہاں نہیں ہے۔ چندرمکھی کے گھر جاتا ہے تو وہاں ہر چیز بدلی ہوئی ہے نہ وہ شان و شوکت ہے نہ وہ رونق۔ سادہ اجاڑ سا گھر ہے جس میں چندر مکھی سادھ سے لباس میں رہتی ہے۔ اس نے سارے پرانے کام چھوڑ دیئے ہیں۔
دیوداس پوچھتا ہے ’’تو پھر کھاؤ گی کیسے؟‘‘
چندر مکھی ایک سادہ اور وفا شعار عورت بن چکی ہے۔ وہ دیوداس کو شراب نوشی سے روکتی ہے کیونکہ کثرت شراب نوشی کے باعث اسکی صحت خراب ہو چکی ہے اور ڈاکٹر نے اس کو شراب سے مکمل پرہیز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ چندرمکھی دیوداس کی خدمت کرتی ہے۔ علاج کراتی ہے۔ وہ چندر مکھی کے کہنے پر شراب نوشی ترک کر دیتا ہے لیکن دل کے سکون سے محروم ہے اور بے قراری کے عالم میں رہتا ہے ۔ پرانا ملازم دھرم داس بھی اس کی خدمت کرنے کے لیے ساتھ ہی رہتا ہے۔ ایک روز بے کلی اتنی بڑھتی ہے کہ دیوداس ایک بار پھر گھر سے نکل جاتا ہے۔ نہ کوئی منزل ہے نہ کوئی ٹھکانا۔ وہ ٹرین میں سوار ہو جاتا ہے۔ ملازم اس کے ساتھ ہے۔ ٹرین ہندوستان کے تمام شہروں کا سفر کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی دیوداس بھی مسلسل سفر میں ہے۔ دھرم داس اسکی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہے۔ پوچھتا ہے آخر کہاں جانا چاہتے ہو۔ منزل کون سی ہے؟
’’یہ تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ۔‘‘
چندر مکھی دیوداس کی تلاش میں اس کے گاؤں چلی جاتی ہے۔ وہاں حویلی میں اس کی بڑی بھاوج سے ملاقات کرکے مایوس واپس لوٹتی ہے۔ دیوداس کا کسی کو کچھ پتا نہیں ہے۔
ٹرین کے مسلسل سفر کے دوران میں ایک روز اچانک چونی لال ٹرین کے اسی ڈبے میں سوار ہوتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ چونی لال بتاتا ہے کہ اس نے دہلی میں نوکری کر لی ہے اور ملازمت کے سلسلے میں سفر کرتا رہتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ دیوداس کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔
وہ کمزور بیمار اور پہلے سے بھی زیادہ بے چین و بے قرار نظر آرہا ہے۔
چونی لال کہتا ہے ’’اس ملاقات کی خوشی منانی چاہئے پھر شراب کی بوتل نکال کر دو گلاسوں میں شراب انڈیلتا ہے؟‘‘
دیوداس ایک گلاس اٹھا کر شراب پھینکنے لگتا ہے اورکہتا ہے کہ میں نے شراب چھوڑ دی ہے۔
چونی لال اس کے ہاتھ سے گلاس لے لیتا ہے ’’ٹھیک ہے تمہارے حصے کی بھی میں پی لوں گا۔‘‘
چونی لال شراب کا گلاس منہ سے لگاتا ہے۔ دیوداس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔ بے اختیار گلاس اٹھا کر پی جاتا ہے۔ اس طرح دیوداس دوبارہ شراب کے نشے میں رہنے کے سوا کوئی کام نہیں ہے۔ دھرم داس جانتا ہے کہ یہ اس کے لیے زہر قاتل ہے کیونکہ وہ پہلے بھی جگر کی خرابی کے باعث خون تھوکتا رہا ہے مگر دیوداس اسکو بازنہیں رکھ سکتا۔
چونی لال اپنی منزل پر رخصت ہو چکا ہے مگر دیوداس بے مقصد سفر میں مصروف ہے اور ہر وقت مدہوشی کے عالم میں رہتا ہے۔ بیماری پھر حملہ آور ہوجاتی ہے۔ دیوداس کو احساس ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کے دن بہت کم رہ گئے ہیں۔ پارو سے کیا ہوا وعدہ اور پاروکی یادیں اسے ہر دم ستاتی رہتی ہیں۔ ایک رات دوران سفر ٹرین ایک اسٹیشن پر رکھتی ہے تو باہر کوئی ’’مائک پور‘‘ ریلوے اسٹیشن کا اعلان کر رہا ہے یہی وہ اسٹیشن ہے جہاں سے دیوداس اپنے گاؤں جایا کرتا تھا۔ وہ سوتے ہوئے ملازم دھرم داس پراپنی شال ڈال دیتا ہے اور اوور کوٹ پہن کر ٹرین سے اترکر پلیٹ فارمکے باہر پہنچ جاتا ہے۔ ایک بیل گاڑی اور گاڑی بان وہاں موجود ہیں مگر گاڑی بان سو رہا ہے۔ دیوداس اس کو جگا کر پارو کے شوہر کے گاؤں ٹھاکر کی حویلی جانے کے لیے کہتا ہے مگر گاڑی بان اتنی رات گئے سفر کے لیے آمادہ نہیں ہے کہتا ہے صبح آپ کو پہنچا دوں گا۔
دیوداس کہتا ہے ’’اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ اٹھو۔ میں تمہیں منہ مانگا معاوضہ دوں گا۔‘‘ گاڑی بان پیسے کے لالچ میں رضا مند ہو جاتا ہے۔ پرانے زمانے کی بیل گاڑی میں سوار ہو کر دیو داس پارو کے گاؤں کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ بالکل ایسی ہی گاڑی ، ایسی ہی لٹکی ہوئی لالٹین اور ایسا ہی سفر سہگل کی فلم ’’دیوداس‘‘ میں بھی دیوداس نے کیا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سہگل کی فلممیں سہگل کے خوب صورت اور پردرد گانے سچویشن کو مزید سجا دیتے تھے۔ بمل رائے اور دلیپ کمار کی فلم دیوداس میں دیوداس نے گانے نہیں گائے۔ آخری سفرکے موقعے پر سہگل کا دکھ دردمیں ڈوبا ہوانغمہ آج بھی اشک بار کردیتا ہے۔ سہگل نے یہ غیر فانی گیت گایا تھا۔
دکھ کے دن اب بیتت ناہیں
نہ میں کسی کانہ کوئی میرا
چھایا چاروں اور اندھیرا
اس گانے کے دوران میں وہ کھانستا بھی رہتا ہے ریکارڈ میں یہ کھانسی بھی موجود ہے اور بیل گاڑی کے چلنے کی آواز بھی۔
اس منظر میں سہگل اور دلیپ کمارکی فلموں میں کافی مماثلت ہے۔
دلیپ کمار تکلیف سے بے حال ہے ایک ایک لمحہ بھاری گزر رہا ہے۔ گاڑی والے سے بار بار پوچھتا ہے۔ ’’بھائی ٹھاکر کا گاؤں کب آئے گا۔‘‘
’’بس پہنچنے ہی والے ہیں بابوجی۔‘‘
رات گئے بیل گاڑی حویلی کے باہر پہنچ کر رک جاتی ہے۔
’’لو ۔ حویلی آگئی۔‘‘ گاڑی بان کہتا ہے۔
اس دوارن میں دیوداس کی حالت بہت بگڑ چکی ہے۔ وہ بمشکل گاڑی سے باہر نکلتا ہے۔ جیب کی ساری رقم گاڑی بان کو دے دیتا ہے اورلڑکھڑاتا ہوا ایک چبوترے نما جگہ پر گرجاتا ہے۔
(جاری ہے... اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)